آج بے سایہ ہیں مالک تھے جو ایوانوں کے
ان میں جا بیٹھے ہیں فرزند بیا بانوں کے
خامشی تیری ہوئی حوصلہ افزائے جنوں
سامنے ڈھیر ہیں ٹوٹے ہوئے پیمانوں کے
زلف ژولیدۂ محبوب کے بوسے لیتے
ہوتے دندان زہے بخت اگر شانوں میں
بے حجابانہ ہے کس ہوش رُبا کی آمد
جلوۂ شمع سے دل بھر گئے پروانوں کے
آمد رشک قمر نازشِ خورشید ہے آج
جگمگا اٹھے مقدر ہیں شبستانوں کے
سن اے آلام شدائد سے ڈرانے والے
عشق تو کھیلتا ہے ساتھ میں طوفانوں کے
نظم میخانہ کی اب خیر نہیں ہے ساقی
آج دشمن ہوئے دیوانے ہی دیوانوں کے
ان کی محفل میں یہ غیروں کی رسائی کیسی
ہم نشیں کیا یہی انجام ہیں پیمانوں کے
شمع امید فروزاں تھی جہاں سے اخؔتر
اسی محفل میں گلے کٹ گئے ارمانوں کے