/ Friday, 14 March,2025


آج بے سایہ ہیں مالک تھے جو ایوانوں کے





آج بے سایہ ہیں مالک تھے جو ایوانوں کے
ان میں جا بیٹھے ہیں فرزند بیا بانوں کے
خامشی تیری ہوئی حوصلہ افزائے جنوں
سامنے ڈھیر ہیں ٹوٹے ہوئے پیمانوں کے
زلف ژولیدۂ محبوب کے بوسے لیتے
ہوتے دندان زہے بخت اگر شانوں میں
بے حجابانہ ہے کس ہوش رُبا کی آمد
جلوۂ شمع سے دل بھر گئے پروانوں کے
آمد رشک قمر نازشِ خورشید ہے آج
جگمگا اٹھے مقدر ہیں شبستانوں کے
سن اے آلام شدائد سے ڈرانے والے
عشق تو کھیلتا ہے ساتھ میں طوفانوں کے
نظم میخانہ کی اب خیر نہیں ہے ساقی
آج دشمن ہوئے دیوانے ہی دیوانوں کے
ان کی محفل میں یہ غیروں کی رسائی کیسی
ہم نشیں کیا یہی انجام ہیں پیمانوں کے
شمع امید فروزاں تھی جہاں سے اخؔتر
اسی محفل میں گلے کٹ گئے ارمانوں کے