اعمال کے دَامن میں اپنے تقدیس کی دولت لاتے ہیں
جو شرم گناہوں کی لیکر سرکار کے در پر جاتے ہیں
مقبول جنہیں وہ فرمالیں اللہ و غنی ان کی عظمت
مطلوب ِ دو عالم ہوتے ہیں محبوب خدا کہلاتے ہیں
یہ بات بغیر عشق نبی مشکل سے سمجھ میں آئے گی
ایمان پہ مرنے والوں کو اِحرام میں کیوں کفناتے ہیں
منہ مانگی مرادیں ملتی ہیں سرکارِ دو عالم کے در سے
محتاج و غنی و سلطان وگدا سب ان کا دیا ہی کھاتے ہیں
عاصی ہیں تو کیا خاطی ہیں تو کیا حامی ہے ہمارا بھی کوئی
زاہد کو عبادت پر غرّہ ہم نسبت پر اتراتے ہیں
دِل ان کی شفاعت پر قرباں جاں ان کی عطاؤں کے صدقے
ہم ہیں کہ خطائیں کرتے ہیں وہ ہیں کہ کرم فرماتے ہیں
کب دیکھئے پوری ہوتی ہے طیبہ کی زیارت کی حسرت
جاتے ہیں مدینے جب زائر دل تھام کے ہم رہ جاتے ہیں
اس در کے گدا اے صَل علی ٰ قسمت کے سکندر ہیں خاؔلد
دِن رات گداؤں پر اپنے وہ اَبرِکرم بَرساتے ہیں