چھوڑ دوں گا میں آستانے کو
سن تو لیجئے مرے فسانے کو
عشق کی اصطلاح میں ہمدم
موت کہتے ہیں مسکرانے کو
آنکھ ہے اشکباریوں کے لئے
دل ہے چوٹوں پہ چوٹ کھانے کو
آنچ آئے مگر نہ گلشن پر
پھونک دو میرے آشیانے کو
ان کے حصے میں گروفا ہوتی
ہم کہاں جاتے غم اٹھانے کو
ہو مبارک مری خودی مجھ کو
حسن آیا ہے خود منانے کو
دل کی دنیا اجاڑنے والے
آج آئے ہیں دل لگانے کو
شمع سوزدروں نے اے اخؔتر
روشنی بخش دی زمانے کو