جامِ مے کی دست ساقی میں اُدھر جھنکار ہے
اور پہلو میں اُچھلتا یاں دل مے خوار ہے
گلستاں میں کس لئے جاؤں بنانے آشیاں
اب کہاں شاخ گل گلشن میں تاب بار ہے
اے مصور!رنگ غم کی کچھ جھلک اس میں نہیں
کیا یہی صنعت کا تیری آخری شہکار ہے
میں جدھر ہوں اس طرف ہے صرفِ تنہائی مری
جس طرف وہ ہیں وہ اک دنیائے گوہر بار ہے
دیکھ جا آکر قیامت اے مرے سروِ سہی
صرف میں کیا اِک زمانہ طالب دیدار ہے
میں تیرے طرزِ تغافل سے نہیں ہوں بدگماں
جانِ جاناں بے رخی میں لذت آزار ہے
عشق برہم حسن سے اور حسن برہم عشق سے
آج اخؔتر عشق میں اور حسن میں پیکار ہے