جلوے ہی جلوے نگاہوں میں سمٹ آتے ہیں
جو پہنچتا ہے سر عرش وہ زینہ دیکھا
خُلد کیا چیز ہے رحمت کا تقاضا کیا ہے
اس نے سب دیکھ لیا جس نے مدینہ دیکھا
اعزاز ہے اس در کی گدائی تو عجب کیا
حاصل ہے ہمیں بھی یہ بڑائی تو عجب کیا
گر جائے یہ دیوار جدائی تو عجب کیا
ہے ان کے سوا کون مرے درد سے واقف
دیکھو انہیں دیکھو مجھے کیا دیکھ رہے ہو
بن جائے برائی بھی بھلائی تو عجب کیا
سرکار کی نسبت کے کرشمے ہیں نرالے
بھاری ہو پہاڑوں پہ بھی رائی تو عجب کیا
محشر میں ہو سب کی ہی رہائی تو عجب کیا
یہ فاصلے منہ دیکھتے رہ جائیں کرم کا
ہو ان کی یہیں جلوہ نمائی تو عجب کیا
دامان ِ محمد کے تجُسس میں ہیں آنسو
لگ جائے ٹھکانے یہ کمائی تو عجب کیا
محبوب خدا ہیں وہ خدا تو نہیں خاؔلد
پھر بھی ہے اگر ان کی خدائی تو عجب کیا