جنم جنم کے جو پیاسے تھے جام پینے چلے
خوشا نصیب گنہ گار بھی مدینے چلے
پناہِ رحمت ِ عالم کا آسرا لے کر
جنہیں گلے سے لگایا نہیں کسی نے چلے
ہر اک عروج کا حاصل ہے گنبدِ خضریٰ
خدا کے قریب کے سارے یہیں سے زینے چلے
شعورِ زیست شعور ِ وفا شعور ِا ادب
حیات ِ پاک ِ محمد سے سب قرینے چلے
کیا ہے ان کا کناروں نے بڑھ کے استقبال
ترے کرم کے بھروسے پہ جو سفینے چلے
کرم کریم کا ذمہ ہے ہوگیا ثابت
گداکو ڈھونڈنے سرکار کے خزینے چلے
تمہارے مصحف رُخ کی تلاوتوں کی قسم
تمہاری زلف کی نسبت سے ہی شبینے چلے
جہاں ہو عشقِ نبی ظلمتیں نہیں رکتیں،
حجاب آنکھوں سے اٹھے دلوں سے کینے چلے
بڑا کرم ہے محبت میں چشم نم خاؔلد
جواہرات کی قیمت میں یہ نگینے چلے