کس طرح کبھی غمگین وہ نہیں ہوتے
سرور کیف کے پیہم وہ جام پیتے ہیں،
تمہاری یاد نے بخشی ہے روشنی جن کو
وہ خوش نصیب تو بس ظلمتوں سے جیتے ہیں
جز اشک نہیں کچھ بھی اب قابل نذرانہ
سرکار بھرم رکھنا رسوا نہ ہو دیوانہ
دل سے غمِ ہستی کا ہر نقش مٹا ڈالا
آباد خدا رکھے تجھ کو غمِ جاناں نہ
جس دل میں مدینے کے ارمان مچلتے ہیں
سوبار خزاں آئے بنتا نہیں ویرانہ
چھوٹا ہوا ترکش سے ہر تیر پلٹ آئے
یہ بات اگر چاہے سرکار کا مستانہ
خود جن کو پلاتے ہیں سرکار توجہ سے
کرتا ہے طواف ان کا خود آن کے میخانہ
جلوت میں بدل جائے میری شبِ تنہائی
تم چاہو تو بن جائے جنت مرا ویرانہ
سرکار کی نسبت کا یہ خاص کرم دیکھو
کہتی ہے مجھے دنیا سرکار کا دیوانہ
آجاؤ کہ مستی کی تکمیل یہیں ہوگی
ملتا ہے مدینے میں پیمانے پہ پیمانہ
جب سر کو جھکاؤں میں طیبہ ہی مقابل ہو
بس اتنا کرم کر دے اے چشم ِ کریمانہ
سرکار کے قدموں نے کعبے کو شرف بخشا
وہ آئے نہ تھے جب تک کعبہ تھا صنم خانہ
جس شمع ِ حقیقت کا اک نام محمد ہے
اس شمع ِ حقیقت کا خاؔلد بھی ہے پروانہ