مرض عشق کا بیمار بھی کیا ہوتا ہے
جتنی کرتا ہے دوا درد سوا ہوتا ہے
کیوں عبث خوف سے دل اپنا ہوا ہوتا ہے
جب کرم آپ کا عاصی پہ شہا ہوتا ہے
جس کا حامی وہ شہ ہر دوسرا ہوتا ہے
قید و بند دو جہاں سے وہ رہا ہوتا ہے
ان کا ارشاد ہے ارشاد خداوند جہاں
یہ وہی کہتے ہیں جو رب کا کہا ہوتا ہے
بادشاہان جہاں ہوتے ہیں منگتا اس کے
آپ کے کو چے کا شاہا جو گدا ہوتا ہے
پلہ نیکی کا اشارے سے بڑھا دیتے ہیں
جب کرم بندہ نوازی پہ تلا ہوتا ہے
سارا عالم ہے رضا جوئے خداوند جہاں
اور خدا آپ کا جو یائے رضا ہوتا ہے
ہم نے یوں شمع رسالت سے لگائی ہے لو
سب کی جھولی میں انہیں کا تو دیا ہوتا ہے
از شہا تا بگدایان جہاں اک عالم
آپ کے در پہ شہا عرض رسا ہوتا ہے
ایسی سرکار ہے بھرپور جہاں سے لینے
روز ایک میلہ نیا در پہ لگا ہوتا ہے
دونوں ہاتھوں سے لٹاتے ہیں خزانہ لیکن
جتنا خالی کریں اتنا ہی بھرا ہوتا ہے
کردہ نا کردہ اشارے میں تمہارے ہو جائے
بے کیا آپ کے صدقہ میں کیا ہوتا ہے
بیکس و بےبس و بےیار و مددگار جو ہو
آپ کے در سے شہاسب کا بھلا ہوتا ہے
ان سے دشمن کی مصیبت نہیں دیکھی جاتی
دشمنوں کے لئے جی ان کا برا ہوتا ہے
جگمگا اٹھتا ہے دل کا مرے ذرہ ذرہ
جب مرا جان قمر جلوہ نما ہوتا ہے
آپ محبوب ہیں اللہ کے ایسے محبوب
ہر محبّ آپ کا محبوب خدا ہوتا ہے
جس گلی سے تو گزرتا ہے مرے جان جناں
ذرہ ذرہ تری خوشبو سے بسا ہوتا ہے
عرش اعلیٰ سے کہیں بالا ہے رتبہ اس کا
آپ کے قدموں سے سر جس کا لگا ہوتا ہے
پیا سو مژدہ ہو کہ وہ ساقئ کوثر آئے
چین ہی چین ہے اب جام عطا ہوتا ہے
آستانے کے گداؤں کے لئے رحمت ہے
اور اعدا پہ شہا قہر خدا ہوتا ہے
کب گل طیبہ خوشبو سے بسیں گے دل و جاں
دیکھئے کب کرم باد صبا ہوتا ہے
دیکھئے غنچۂ دل اپنا کھلے گا کب تک
دیکھئے کب دل پژ مردہ ہرا ہوتا ہے
کب بہارچمن طیبہ نظر آتی ہے
دیکھئے کب دل پژ مردہ ہرا ہوتا ہے
سر بلندی اسے حاصل ہے جناب رب میں
جو کوئی در پہ ترے ناصیہ سا ہوتا ہے
دل تپا سوز محبت سے کہ سب میل چھٹے
تپنے کے بعد ہی تو سونا کھرا ہوتا ہے
کب مٹانے سے کسی کے خط تقدیر مٹے
ہو کے رہتا ہے جو قسمت کا لکھا ہوتا ہے
محو اثبات کی ہاں آپ نے قدرت پائی
تم جو چاہو تو برا آج بھلا ہوتا ہے
تیرا دیدار میسر ہو جیسے نور خدا
اسے دنیا میں دیدار خدا ہوتا ہے
وہ نہیں حشر میں جو ہوگا شہا بے پردہ
بلکہ جو آپ کے پردہ میں عطا ہوتا ہے
تیرا جلوہ نہیں اللہ کا جلوہ ہے وہ
تیری صورت سے خدا جلوہ نما ہوتا ہے
تو ہے آئینہ ذاتِ احدی اے پیارے
یوں اسی کا ہے وہ جلوہ جو ترا ہوتا ہے
داغ دل میں جو مزہ پایا ہے نورؔی تم نے
ایسا دنیا کی کسی شے میں مزا ہوتا ہے
سامانِ بخشش