مے محبوب سے سرشار کر دے
اویس قرنی کو جیسا کیا ہے
گمادے اپنی الفت میں کچھ ایسا
نہ پاؤں میں میں جو بے بقا ہے
پلادے مے کہ غفلت دور کردے
مجھے دنیا نے غافل کر دیا ہے
عطا فرما دے ساقی جام نوری
لبالب جو چہیتوں کو دیا ہے
ثنا لکھنی ہے محبوب خدا کی
خدا ہی جن کی عظمت جانتا ہے
میں تیرے فیض سے کچھ کہہ سکوں گا
میں کیا ہوں اور مرا یارا ہی کیا ہے
سنا اے بلبل باغ مدینہ
ترانہ اور دل یہ چاہتا ہے
سنا نوریؔ غزل اس کی ثنا میں
ثنا جس کی ثنائے کبریا ہے
سامانِ بخشش