داغِ فرقتِ طیبہ قلب مضمحل جاتا کاش گنبد خضریٰ دیکھنے کو مل جاتا دم مرا نکل جاتا ان کے آستانے پر ان کے آستانے کی خاک میں میں مل جاتا میرے دل سے دھل جاتا داغِ فرقت طیبہ طیبہ میں فنا ہوکر طیبہ ہی میں مل جاتا موت لے کے آجاتی زندگی مدینے میں موت سے گلے مل کر زندگی میں مل جاتا خلد زارِ طیبہ کا اس طرح سفر ہوتا پیچھے پیچھے سر جاتا آگے آگے دل جاتا دل پہ جب کرن پڑتی ان کے سبز گنبد کی اس کی سبز رنگت سے باغ بن کے کھل جاتا فرقت مدینہ نے وہ دیئے مجھے صدمے کوہ پر اگر پڑتے کوہ بھی تو ہل جاتا دل مرا بچھا ہوتا ان کی رہ گزاروں میں ان کے نقشِ پا سے یوں مل کے مستقل جاتا دل پہ وہ قدم رکھتے نقش پا یہ دل بنتا یا تو خاک پا بن کر پا سے متصل جاتا وہ خرام فرماتے میرے دیدہ و دل پر دیدہ میں فدا کرتا صدقے میرا دل جاتا چ۔۔۔
مزیدوہ بڑھتا سایۂ رحمت چلا زلف معنبر کا ہمیں اب دیکھنا ہے حوصلہ خورشید محشر کا جو بے پردہ نظر آجائے جلوہ روئے انور کا ذرا سا منہ نکل آئے ابھی خورشید خاور کا شہِ کوثر ترحم تشنۂ دیدار جاتا ہے نظر کا جام دے پردہ رخِ پر نور سے سر کا ادب گاہیست زیرِ آسماں از عرش نازک تر یہاں آتے ہیں یوں عرشی کہ آوازہ نہیں پرکا ہماری سمت وہ مہر مدینہ مہرباں آیا ابھی کھل جائے گا سب حوصلہ خورشید محشر کا چمک سکتا ہے تو چمکے مقابل ان کی طلعت کے ہمیں بھی دیکھنا ہے حوصلہ خورشید محشر کا رواں ہوسلسبیل عشقِ سرور میرے سینے میں نہ ہو پھر نار کا کچھ غم نہ ڈر خورشیدِ محشر کا ترا ذرہ وہ ہے جس نے کھلائے ان گنت تارے ترا قطرہ وہ ہے جس سے ملا دھارا سمندر کا بتانا تھا کہ نیچر ان کے زیرِ پا مسخر ہے بنا پتھر میں یوں نقشِ کفِ پا میرے سرور کا وہ ۔۔۔
مزیدہر نظر کانپ اٹھے گی محشر کے دن خوف سے ہر کلیجہ دہل جائیگا پریہ ناز ان کے بندے کا دیکھیں گے سب تھام کر ان کا دامن مچل جائیگا موج کترا کے ہم سے چلی جائیگی رخ مخالف ہوا کا بدل جائیگا جب اشارہ کریں گے وہ نامِ خدا اپنا بیڑا بھنور سے نکل جائیگا یوں تو جیتا ہوں حکمِ خدا سے مگر میرے دل کی ہے ان کو یقیناً خبر حاصلِ زندگی ہوگا وہ دن مرا ان کے قدموں پہ جب دم نکل جائیگا رب سّلم وہ فرمانیوالے ملے کیوں ستاتے ہیں اے دل تجھے وسوسے پل سے گذریں گے ہم وجد کرتے ہوئے کون کہتا ہے پائوںپھسل جائیگا اخترِؔؔ خستہ کیوں اتنا بے چین ہے تیرا آقا شہنشاہِ کونین ہے لو لگا تو سہی شاہِ لولاک سے غم مسرت کے سانچے میں ڈھل جائیگا۔۔۔
مزیدآج کی رات ضیائوں کی ہے بارات کی رات فضلِ نوشاہِ دو عالم کے بیانات کی رات شب معراج وہ اَوْحیٰ کے اشارات کی رات کون سمجھائے وہ کیسی تھی مناجات کی رات چھائی رہتی ہیں خیالوں میں تمہاری زلفیں کوئی موسم ہو یہاں رہتی ہے برسات کی رات رِند پیتے ہیں تری زلف کے سائے میں سدا کوئی موسم ہو یہاں رہتی ہے برسات کی رات رخِ تابانِ نبی زلفِ معنبر پہ فدا روز تابندہ یہ مستی بھری برسات کی رات دل کا ہر داغ چمکتا ہے قمر کی صورت کتنی روشن ہے رُخِ شہ کے خیالات کی رات ہر شب ہجر لگی رہتی ہے اشکوں کی جھڑی کوئی موسم ہو یہاں رہتی ہے برسات کی رات جس کی تنہائی میں وہ شمع شبستانی ہو رشکِ صد بزم ہے اس رِندِ خرابات کی رات بلبل باغِ مدینہ کو سنادے اخترؔؔ آج کی شب ہے فرشتوں سے مباہات کی رات۔۔۔
مزیدجھکے نہ بارِ صد احساں سے کیوں بنائے فلک تمہارے ذرے کے پر تو ستارہائے فلک یہ خاکِ کوچۂ جاناں ہے جس کے بوسہ کو نہ جانے کب سے ترستے ہیں دیدہائے فلک عفو و عظمت خاکِ مدینہ کیا کہئے اسی تراب کے صدقے ہے اعتدائے فلک یہ ان کے جلوے کی تھیں گرمیاں شب اسری نہ لائے تابِ نظر بہکے دیدہائے فلک قدم سے ان کے سرِ عرش بجلیاں چمکیں کبھی تھے بند کبھی وا تھے دیدہائے فلک میں غم نصیب بھی تری گلی کا کتا ہوں نگاہِ لطف ادھر ہو نہ یوں ستائے فلک یہ کس کے در سے پھرا ہے تو نجدیٔ بے دیں برا ہو تیرا ترے سر پہ گر ہی جائے فلک جو نام لے شہِ عرشِ بریں کا تو اخترؔ بصد ادب پئے تسلیم سرجھکائے فلک۔۔۔
مزیداس طرف بھی اک نظر مہر درخشانِ جمال ہم بھی رکھتے ہیں بہت مدت سے ارمانِ جمال تم نے اچھوں پہ کیا ہے خوب فیضانِ جمال ہم بدوں پر بھی نگاہِ لطف سلطانِ جمال اک اشارے سے کیا شق ماہِ تاباں آپ نے مرحبا صد مرحبا صَلِّ علیٰ شانِ جمال تیری جاں بخشی کے صدقے اے مسیحائے زماں سنگریزوں نے پڑھا کلمہ ترا جانِ جمال کب سے بیٹھے ہیں لگائے لو در جاناں پہ ہم ہائے کب تک دید کو ترسیں فدایانِ جمال فرش آنکھوں کا بچھائو رہ گزر میں عاشقو! ان کے نقش پا سے ہوگے مظہر شانِ جمال مرکے مٹی میں ملے وہ نجدیو! بالکل غلط حسب سابق اب بھی ہیں مرقد میں سلطانِ جمال گرمیٔ محشر گنہگارو! ہے بس کچھ دیر کی ابر بن کر چھائیں گے گیسوئے سلطانِ جمال کرکے دعویٰ ہمسری کا کیسے منہ کے بل گرا مٹ گیا وہ جس نے کی توہین سلطانِ جمال حاسدانِ شاہِ دیں کو دیجئے اختر۔۔۔
مزیدتلاطم ہے یہ کیسا آنسوئوں کا دیدۂ تر میں یہ کیسی موجیں آئی ہیں تمنا کے سمندر میں ہجوم شوق کیسا انتظارِ کوئے دلبر میں دلِ شیدا سماتا کیوں نہیں اب پہلو و بر میں تجسس کروٹیں کیوں لے رہا ہے قلبِ مضطر میں مدینہ سامنے ہے بس ابھی پہنچا میں دم بھر میں یہ بحثیں ہورہی ہیں میرے دل میں پہلو و بر میں کہ دیکھیں کون پہنچے آگے آگے شہر دلبر میں مدینے تک پہنچ جاتا کہاں طاقت تھی یہ پر میں یہ سرور کا کرم ہے ، ہے جو بلبل باغِ سرور میں مدینے کی وہ مرگِ جانفزا گر ہے مقدر میں امر ہوجائیں گے مرکے دیارِ روح پرور میں جو تو اے طائر جاں کام لیتا کچھ بھی ہمت سے نظر بن کر پہنچ جاتے تجلی گاہِ سرور میں اجالے میں گمے ہوتے تجلی گاہِ سرور کے نظر سے چھپکے ہم رہتے تجلی گاہِ سرور میں نہ رکھا مجھ کو طیبہ کی قفس میں اس ستم گر نے ستم کیسا ہوا بلبل پ۔۔۔
مزیدبوالہوس سُن سیم و زر کی بندگی اچھی نہیں ان کے در کی بھیک اچھی سروری اچھی نہیں سروری کیا چیز ہے ان کی گدائی کے حضور ان کے در کی بھیک اچھی سروری اچھی نہیں انکی چوکھٹ چوم کر خود کہہ رہی ہے سروری ان کے در کی بھیک اچھی سروری اچھی نہیں سروری خود ہے بھکارن بندگانِ شاہ کی ان کے در کی بھیک اچھی سروری اچھی نہیں سروری پاکر بھی کہتے ہیں گدایانِ حضور ان کے در کی بھیک اچھی سروری اچھی نہیں تاج خود را کاسہ کردہ گوید ایں جا تاجور ان کے در کی بھیک اچھی سروری اچھی نہیں تاج کو کاسہ بناکر تاجور کہتے ہیں یوں ان کے در کی بھیک اچھی سروری اچھی نہیں مفتی اعظم یکے از مردمانِ مصطفیٰ اس رضائے مصطفیٰ سے دشمنی اچھی نہیں حجتہ الاسلام اے حامدؔ رضا بابائے من تم کو بن دیکھے ہماری زندگی اچھی نہیں خاکِ طیبہ کی طلب میں خاک ہو یہ زندگی ۔۔۔
مزیدگر ہمیں ذوقِ طلب سا رہنما ملتا نہیں راستہ ملتا نہیں اور مدعا ملتا نہیں جھک کے مہر و ماہ گویا دے رہے ہیں یہ صدا دوسرا میں کوئی تم سا دُوسرا ملتا نہیں اِبْتَغُوْا فرما کے گویا رب نے یہ فرمادیا بے وسیلہ نجدیو! ہر گز خدا ملتا نہیں ان سے امید وفا اے دل محض بیکار ہے اہل دنیا سے محبت کا صلہ ملتا نہیں کس نے تجھ سے کہہ دیا دل بے غرض آتے ہیں وہ بے غرض نادان کوئی بے وفا ملتا نہیں دیکھتے ہی دیکھتے سب اپنے بیگانے ہوئے اب تو ڈھونڈے سے بھی کوئی آشنا ملتا نہیں لو لگاتا کیوں نہیں باب شہِ کونین سے ہاتھ اٹھا کر دیکھ تو پھر ان سے کیا ملتا نہیں تیرے میخانے میں جو کھینچی تھی وہ مے کیا ہوئی بات کیا ہے آج پینے کا مزہ ملتا نہیں ساقیا تیری نگاہِ ناز مے کی جان تھی پھیر لی تو نے نظر تو وہ نشہ ملتا نہیں پینے والے دیکھ پی کر آج ۔۔۔
مزیدعرش پر ہیں اُن کی ہر سو جلوہ گستر ایڑیاں گہہ بہ شکل بدر ہیں گہہ مہر انور ایڑیاں میں فدا کیا خوب ہیں تسکین مضطر ایڑیاں روتی صورت کو ہنسا دیتی ہیں اکثر ایڑیاں دافع ہر کرب و آفت ہیں وہ یاور ایڑیاں بندۂ عاصی پہ رحمت بندہ پرور ایڑیاں غنچۂ امید ان کی دید کا ہوگا کبھی پھول کہ ہیں اب نظر میں ان کی خوشتر ایڑیاں نور کے ٹکڑوں پہ ان کے بدر و اختر بھی فدا مرحبا کتنی ہیں پیاری ان کی دلبر ایڑیاں یا خدا تا وقت رخصت جلوہ افگن ہی رہیں آسمانِ نور کی وہ شمس اظہر ایڑیاں ان کی رفعت واہ واہ کیا بات اخترؔ دیکھ لو عرشِ اعظم پر بھی پہنچیں ان کی برتر ایڑیاں ٭…٭…٭۔۔۔
مزیدتمہارے در پہ جو میں باریاب ہوجاؤں قسم خدا کی شہا کامیاب ہو جاؤں جو پاؤں بوسۂ پائے حضور کیا کہنا میں ذرّہ شمس و قمر کا جواب ہو جاؤں مری حقیقتِ فانی بھی کچھ حقیقت ہے مروں تو آج خیال اور خواب ہوجاؤں جہاں کے قوس و قزح سے فریب کھائے کیوں میں اپنے قلب و نظر کا حجاب ہو جاؤں جہاں کی بگڑی اسی آستاں پہ بنتی ہے میں کیوں نہ وقفِ درِ آنجناب ہو جاؤں تمہارا نام لیا ہے تلاطمِ غم میں میں اب تو پار رسالت مآب ہو جاؤں یہ میری دوری بدل جائے قرب سے اخترؔ اگر وہ چاہیں تو میں باریاب ہو جاؤں۔۔۔
مزیداپنے در پہ جو بلاؤ تو بہت اچھا ہو میری بگڑی جو بناؤ تو بہت اچھا ہو قید شیطاں سے چھڑاؤ تو بہت اچھا ہو مجھ کو اپنا جو بناؤ تو بہت اچھا ہو گردشِ دور نے پامال کیا مجھ کو حضور اپنے قدموں میں سلاؤ تو بہت اچھا ہو یوں تو کہلاتا ہوں بندہ میں تمہارا لیکن اپنا کہہ کے جو بلاؤ تو بہت اچھا ہو غمِ پیہم سے یہ بستی مری ویران ہوئی دل میں اب خود کو بساؤ تو بہت اچھا ہو کیف اس بادۂ گلنار سے ملتا ہی نہیں اپنی آنکھوں سے پلاؤ تو بہت اچھا ہو تم تو مردوں کو جلا دیتے ہو میرے آقا میرے دل کو بھی جِلاؤ تو بہت اچھا ہو جس نے شرمندہ کیا مہر و مہ و انجم کو اک جھلک پھر وہ دکھاؤ تو بہت اچھا ہو رو چکا یوں تو میں اوروں کے لئے خوب مگر اپنی الفت میں رلاؤ تو بہت اچھا ہو یوں نہ اخترؔ کو پھراؤ مرے مولیٰ در در اپنی چوکھٹ پہ بٹھاؤ تو بہت اچھ۔۔۔
مزید