کیا وہ مل گیا
وہ مرکز تلاش یہ کہتا ہے برہمن
مندر کو ہے بنائے ہوئے رشک صد چمن
دیکھا ہے میں نے شیخ جی بولے یہ شاد کام
کعبے میں ہے بنائے ہوئے اپنا وہ مقام
کوئی لگارہا ہے صدائے تمام اوست
اور کوئی کہہ رہا ہے ہمہ چیز را دروست
قمری کہے کہ ہے وہ قدسر و میں نہاں
مرغ سحر کہے کہ مرے سامنے عیاں
بلبل ہے نغمہ ریز گلوں میں نہاں ہے وہ
بھونرایہ کہہ رہا ہے کنول آشیاں ہے وہ
بولا چکور چاند میں ہے اس کا آشیاں
کہتے شجر پرست ہیں پیپل میں ضوفشاں
آتش میں وہ ملے گا ہے کچھ لوگوں کا خیال
کچھ کہتے ہیں ہے زیب دۂ مہر خوش جمال
وہ مل گیا کہ آئی ہر اک سمت سے صدا
سنکے اسے تڑپ اٹھا اک پیکر صفا
لبہائے پاک مائل گفتار ہوگئے
ایوان عقل و ہوش شرربار ہوگئے
ایں مدعیان درطلبش بے خبرانند
کاں راکہ خبر شد خبرش بازنیامد