یا حبیبِ خدا ‘ یا شفیع َالْوَریٰ ‘ آپ جیسا نہیں کوئی بھی ہر طرف
از ازل تا ابد ‘ از زمیں تا فلک ‘ آپ ہی آپ ہی آپ ہی ہر طرف
آپ شَمْسُ الضُّحٰی ‘ آپ بَدْرُ الدُّجٰی ‘ آپ محبوبِ رَبْ ‘ آپ نورِخدا
کیا زمیں کیا زماں ‘ کیامکاں لامکاں ‘ آپ کے نور کی روشنی ہر طرف
عرش سے فرش تک فصلِ گل آگئی ‘ مہکا سارا جہاں جاں میں جاں آگئ
زلف لہرائی جب روئے وَالشّمْسْ پر ‘ رحمتوں کی گھٹا چھاگئ ہر طرف
سرد ایراں کا آتشکدہ ہوگیا ‘ قیصرِ کِسریٰ کے کنگرے گرے ٹوٹ کر
آپ تشریف لائے تو باطل گیا ‘ نورِ حق کی ہوئی روشنی ہر طرف
ذہن و دل آدمی کے جلا پاگئے ‘ جو تھے بھٹکے ہوئے راہ پر آگئے
یہ کرم آپ کا یہ عطا آپ کی ‘ آدمی کو ملی زندگی ہر طرف
سمٹا ہر فاصلہ ‘ وقت ٹھہرا رہا ‘ اُدْنُ مِنِّیْ کی تھی ہر اک لمحہ صدا
عرش سےفرش تک نور ہی نور تھا ‘ ماہِ اَسْرٰی کی تھی چاندنی ہر طرف
خوف و ڈر غیر کا دل میں وہ لائیں کیوں ‘ ان کے جو ہو گئےغم سے گھبرائیں کیوں
حاؔفظ ان کو جو ہیں ‘ ان پہ سرکار کی ہے نگاہ کرم ہر گھڑی ہر طرف
(۱۵ اکتوبر۱۹۹۵ء)