یہ میرا قول نہیں یہ تو ہے غفار کی بات
وہ بناتے ہیں تو بنتی ہے گنہگار کی بات
میں نے مانا مری جھولی ہے عمل سے خالی
لیکن اونچی ہے بہت میرے طرف دار کی بات
وہ مرے دل کی دھڑکنے کی صدا سنتے ہیں
کون اس طرح سے سنتا ہے طلبگار کی بات
اعتماد انکے کرم پر ہے نہ جانے کتنا
دید کی تاب نہیں کرتا ہوں دیدار کی بات
حق کے محبوب ہیں مطلوب ہیں مقصود بھی ہیں
کبھی ٹلتی ہی نہیں احمد ِ مختار کی بات
ہے یہی رحمت ِ عالم کے غلاموں کو نشاں
دشمنوں سے بھی کیا کرتے ہیں وہ پیار کی بات
جب حضوری میں بدل جاتی ہے دوری دل کی
منکشف ہوتی ہے پھر عالمِ اسرار کی بات
مضطرب ہے نہ شفا اور دوا کا طالب
ساری دنیا سے الگ ہے ترے بیمار کی بات
دل کا عالم ہی بدل جاتا ہے اللہ و غنی
چل نکلی ہے جہاں احمدِ مختار کیا بات
اشک جب دیتے ہیں دستک تو سنی جاتی ہے
کسی بیکس کی ہو فریاد کرنا وار کی بات
جو بھی پہنچا یہی کہتا ہوا آیا خاؔلد
واہ کیا بات ہے آقا ترے دربار کی بات