خوش آمدید
39
2025-12-15
شمس العارفین خواجہ پیر عبدالرحمٰن خان سہروردی
نام: محمد عبدالرحمٰن خان
والد کا نام : محمد عظیم خان چشتی
نسب: آپ کا سلسلہ نسب کئی واسطوں سے سلسلہ قادریہ کے عظیم بزرگ والی سوات مقبول بارگاہ حضرت محمد جان یوسف زئی المعروف دیوانے بابا رحمۃ اللہ علیہ جا ملتا ہے۔
والد ہ ماجدہ کا نام بائی اللہ رکھی صاحبہ ۔ جو ولی صفات سے متصف زہد وتقوی کی پابند اور اپنے وقت کی یگانہ روز گار خاتون تھی۔ آپ کے آباواجداد شہنشاہ اکبر کے دور میں افغانستان سے ہجرت کرکے ریاست سوات میں مقیم ہوئے ۔
براداران عزیز :
حضرت نذیر بابا سہروری رحمۃ اللہ علیہ اور دوسرے بھائی عبدالقاد ر سہروردی رحمۃ اللہ علیہ دونوں حضرات کا تعلق بھی سلسلہ عالیہ سہروردیہ سے تھا اور روحانی طور پر آپ تمام برادران نے شیخ کامل مجدد سلسلہ عالیہ سہروردیہ حضرت ابو الفیض قلندر علی سہروردی رحمۃ اللہ علیہ کے دست اقدس پر بیعت ہونے کا شرف حاصل کیا۔
ولادت باسعادت :
آپ کی ولادت باسعادت 1332 ہجری بمطابق 1912 عیسوی سانبھرریاست جودھپور انڈیا میں ہوئی ۔
بوقت ولادت آپ نے آنکھیں نہ کھولیں ۔ والدہ محترمہ اور والد گرامی حضرت خواجہ حسام جگر سوختہ چشتی رحمۃ اللہ علیہ (نبیرہ سرکار غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ) کے دربار انوار پر لے گئے جہاں صاحب مزار کے تصرف سے آپ نے اپنی آنکھیں کھولیں۔
تعلیم وتربیت :
آپ کے والدین دین دار گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ اس لیے آپ کی تعلیم وتربیت پر خصوصی توجہ دی۔ آپ نے قرآن پاک کی ابتدائی تعلیم اپنے والدگرامی اور سانبھر کی جامع مسجد کے مدرسہ میں حاصل کی۔ پھر اجمیر شریف تشریف لے آئے۔ یہاں آکر تعلیمی سلسلہ جاری رکھا آپ کے والد سلسلہ چشتیہ سے وابستہ تھے لہذا آپ نے مزید تعلیم اپنے والد کے حلقے کے جید علماءسے حاصل کی ۔ جید علماء کی پاکیزہ صحبت کے سبب آپ کے دل میں اللہ اور اس کے رسول کی عشق کی جمع مزید روشن ہوئی۔جوانی کے ابتدائی ایام میں آپ کو پہلوانی سے شغف تھا۔
کسب معاش:
آپ کے اجمیر پاور ہاؤس میں بطور آپریٹر ملازمت کی،محنت و لگن سے کام کرکے ہر خاص و عام کی آنکھوں کا تارہ بن گئے۔پاور ہاؤس کی ڈیوٹی کے بعد آپ سارا وقت دربار خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ میں گزارتے۔
پاکستان آمد :
تشکیل پاکستان 1947کے بعد آپ ہجرت کرکے حیدرآباد سندھ پاکستان تشریف لائے اور حیدرآباد واپڈا پاور ہاؤس میں ڈیوٹی جوائن کی ۔1960میں کلیم میں مکان الاٹ ہوا جو کہ گلزار گلی دو قبر پکا قلعہ پر واقع ہے ۔تب آپ نے خالی مکان چھوڑکر الاٹ شدہ مکان میں سکونت اختیار کرلی ، جو کہ آستانہ عالیہ سہروردیہ کے نام سے موسوم ہے ۔
بیعت:
آپ کے بڑے بھائی نذیر احمد خان سہروری رحمۃ اللہ علیہ جو کہ سلسلہ عالیہ سہروردیہ کے مجدد حضرت ابو الفیض سید قلندر علی سہروردی رحمۃ اللہ کے مرید تھے، ان کے دولت کدے پر جب مجدد سلسلہ عالیہ سہروردیہ تشریف لائے تو آپ نے بھی ان کے دست حق پر شرف بیعت حاصل کی اس طرح آپ کا سلسلہ بیس واسطوں سے سیدنا شیخ الشیوخ شیخ الحرم بانی سلسلہ سہروردیہ شیخ شہاب الدین عمر بن محمد صدیقی سہروردی سے جا ملتا ہے۔
خواجہ پیر عبدالرحمن خان سہروردی عبادت اور ریاضت دست حق پر بیعت ہونے کے بعد آپ نے مرشد کے دیئے گئے اسباق اور تصورات پر سختی سے عمل کرنا شروع کردیا ڈیوٹی سے فارغ ہونے کہ بعد آپ نے اپنا تمام تر وقت عبادت وریاضت او ر تصور شیخ میں گزارتے ۔
اجازت و خلافت:
آپ کو سہروردیہ، قادریہ، نقشبندیہ اور چشتیہ سلاسل کے تیرہ بزرگان طریقت سے خلافت حاصل تھی اور بالخصوص شہر حیدرآباد کے مشہور بزرگ پیر علاؤ الدین قادری نے آپ کو خرقہ خلافت سے مشرف فرمایا۔
اس کے آپ کو اپنے بڑے بھائی عبدالقادر بابا سہروردی رحمۃ اللہ سے بھی اجازت وخلافت حاصل تھی۔
سیرو سیاحت:
آپ نے ایک حج اور تین عمرے ادا کیے۔ مختلف اوقات میں مریدین اور معتقدین کے ہمراہ کئی مرتبہ پورے پاکستان بھر کے اولیاء کرام کے مزارات کی زیارتوں اور تبلیغ اسلام و سلسلہ کی ترویج واشاعت کے لیے سفرکیا۔ پہلا عمرہ آپ نے 1980 میں ادا کیا ۔ بغداد کے سفر کے دوران آپ نے مشائخین کے مزارات پر حاضری دی۔
1980 ہی میں مزارات مولائے کائنات حضرت علی کرم وجہہ الکریم، امام حسین ، حضرت عباس حضرت مسلم بن عقیل ودیگر اہل بیت اطہار، حضرت امام اعظم ابو حنیفہ ، خواجہ سیر سقطی ، حضرت جنید بغدادی شیخ موسی جنگی دوست، حضور سرکار اعظم شیخ عبدالقادر جیلانی، شیخ ابو نجیب عبدالقادر سہروردی، شیخ الشیوخ ابو حفص حضرت شیخ شہاب الدین عمر بن محمد سہروردی، اور دیگر اولیاء کرام کے مزارات کی زیارت کے لیے بغداد (عراق) تشریف لےگئے ۔
1990ء میں فریضہ حج اداکیا۔ دوران حج آپ کو کئی بشارتیں اور زیارتیں ہوئیں۔
1993 میں آپ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار کی حاضری اور عمرہ کے لیے کراچی سے بذریعہ جہاز سفینہ شمس سے جدہ کے لیے حرمین شریفین روانہ ہوئے۔
اس سفر میں حضرت صاحب رحمۃ اللہ کی سربراہی میں راقم ( محمد امجد سہروردی) نے بھی عمرےکی سعادت حاصل کی ۔ سفر میں شریک افراد میں حضرت کے خلیفہ مرزا مختار احمد بیگ سہروردی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت شیخ بھر کیواچاری رحمۃ اللہ علیہ کے سجادہ نشین حضرت شیخ اعجاز علی سہروردی قادری بھی شامل تھے۔
اس مبارک سفرمیں جاتے ہوئے تقریبا 11 کلام پاک کی تلاوت کی گئی اور بے شمار محافل میلاد کا انعقاد کیا گیا، جس میں معتقدین ومریدین کے ساتھ دیگر مسافر آپ کی شخصیت کےمعترف ہوگئے۔ سفینہ شمس (جہاز) میں دو مساجد تھیں، جس میں ایک کی خدمت آپ نے اور آپ کے مریدین نے مل کر کی۔ باقاعدہ پابندی سے پنجگانہ اذان نماز کا اہتمام کیا۔ دوران سفر پر جو شخص بھی آپ سے ملتا وہ گرویدہ بن جاتا۔
کشف و کرامات:
اللہ تعالی نے آپ کو سلسلہ عالیہ سہروردیہ کے بزرگان دین کی طرح کشف قبور وقلوب عطا فرمایا تھا۔
آپ اپنی چوکھٹ پر آنے والے ہر سائل کے تن سے لے کر من تک کا حال جان لیتے اور بات جیت کے دوران ان کی دل کیفیات حالات اور ماضی الضمیر بیان فرمادیا کرتے۔ آپ فرمایا کرتے کہ ہم آنے والے سائل کے سرکے بال سے لے کر پیر کے ناخن تک کے تمام حال جانتے ہیں۔
آپ دوران محفل جب خود وعظ فرمارہے ہوتے تو سامعین وحاضرین کے دلوں میں پیدا ہونے والے سوالات اور معروضات کے جواب ارشاد فرمادیا کرتے۔
وصالِ پُر ملال:
آپ کا وصال مبارک 13 رجب المرجب 1434ھ مطابق 24 مئی 2013بروز جمعۃ المبارک بوقت دوپہر 2:30
ڈھائی بجے۔ جس وقت آپ نے وصال فرمایا مسجد سے صلوٰۃ وسلام کی صدائیں آرہی تھیں۔
نماز جنازہ:
نماز جنازہ آپ کے خلیفہ مرزا انتصار احمد بیگ سہروردی کی امامت میں ادا کی گئی ۔ جنازے میں کثیر تعداد میں لوگوں نے شرکت کی جن میں حیدر آباد شہر کے جید علماء کرام، مشائخ کرام سیاسی وسماجی علمی وادبی شخصیات نے شرکت کی، گہوارا (ڈولہ) کے ساتھ لمبے بانس باندھے گئے تھے تاکہ کثیرتعداد میں موجود افراد جنازے کو کندھا دے سکیں۔کثیر تعداد جم غفیر ہونے کی وجہ سے بہت سے افراد کندھا دینے معذور رہے۔
آپ کے جنازے کو شہنشاہِ حیدرآباد سیدنا سخی عبدالوہاب شاہ جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے دربار لے جایا گیا وہا ں صلوٰۃ وسلام کے بعد دعا ہوئی۔ یہاں نمازیوں اور حاضرین دربار کی کثیر تعداد نے آپ کے چہرہ انور کی زیارت کی ۔
مزار پُر اَنوار:
بعد از زیارت، براستہ غریب نواز پل (نیا پل) آپ کے جسم مبارک کو آپ کی آخری آرمگاہ خانقاہ عالیہ سہروردیہ لایا گیا جہاں آپ نے اپنا مزار پاک ظاہری حیات ہی میں تیار کروالیاتھا۔ آپ کی لحد مبارک آپ کی وصیت کے مطابق پہلے سےتیار کی جاچکی تھی، لحد مبارک میں آپ کو خلیفہ جناب حاجی بشیر احمد گدی سہروردی رحمۃ اللہ علیہ اور ساتھیوں نے اتارا۔ آپ کا مزار مبارک خانقاہ عالیہ سہروردیہ، احمد نگر (مکرانی پارہ) بالمقابل ماجی ہسپتال، متصل ایدھی سینٹر، آٹوبھان روڈ، لطیف آباد، حیدرآباد مرجع خلائق ہے۔ یہ مزار مبارک آپ نے اپنی ظاہری حیات میں مریدین اور ساتھیوں کی معاونت سے تعمیر کروالیاتھا۔ ایک بلند بالا حسین گنبدہشت پہلوعمارت پر موجود ہے۔ یہاں چار دروازے ہیں جو کہ حضرت صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے دربار سید نا سخی عبدالوہاب جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے مزا پرانوار کی از سر نو تعمیر کے دوران نذرانہ دے کر حاصل کئے گئے۔ ان دروازوں کو مزار کی ہشت پہلو عمارت میں نصب کروایا ۔ ان میں سے ایک دروازے کا نام سیدنا عبدالوہاب شاہ جیلانی کی نسبت سے باب سخی رکھا۔ دوسرے دروازے کا نام والی سوات مقبول بار گاہ حضرت محمد جان یوسف زئی المعروف دیوانے کی نسبت سے باب سوات رکھا، جب کہ تیسرے دروازہ اپنے پیر و مرشد ابو الفیض قلندر علی سہروردی رحمۃ اللہ علیہ کی نسبت سے باب قلندر سے موسوم کیا۔
کیا آپ کا اکاؤنٹ ہے؟ اکاؤنٹ بنائیں