فخر المدرسین مولانا علامہ ابو الفتح محمد اللہ بخش قدس سرہٗ(داں بھچراں)
مناظر سنت فخر المدرسین حضرت مولانا علامہ ابو الفتح محمد اللہ بخش بن مولانا فضل احمد بن مولانا سید رسول بن میاں شیخ احمد (قدست اسرارہم)۴ محرم،۱۲جون (۱۳۴۸ھ/۱۹۲۹ئ) بروز بدھ موضع شادیہ ضلع میانوالی میں پیدا ہوئے ، والد ماجد سے قرآن پاک حفظ کیا اور مقامی سکوم میں مڈل تک تعلیم حاصل کی ، صرف وحو کی ابتدائی کتابیں محلہ بلو خیل (میا نوالی ) میں اپنے وقت کے مشہور مدرس حافظ محمد احمد سے پڑھیں ، حافظ صاحب دیوبندی مکتب فکر سے تعلق رکھتے تھے ، ان کی کوششکے با سجود مولانا اللہ بخش کا زہن سلیم اعتقادی طور پر ان سے ہم آہنگ نہ ہو سکا ، پھر قسمت نے یا وری کی تو دو حاضرہ کے سب سے بڑ ے فیض رساں مدرس حضرت مولانا حافظ عطا محمد چشتی مدظلہ الا قدس کی بارگاہ میں دار العلوم ضیاء شمس الا سلام ، سیال شریف حاضر ہوئے اور معقول و منقول کی مفتی کتب پرھ کر محدظ اعظم پاکستان مولانا ابو الفضل سردار احمد قدس سرہ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور صحاح ستہ کا درس لے کر ۱۳۷۵ھ/۱۹۵۶ء میں دستار فضیلت ادر سند فراغت حاصل کی [1]
عقائد کی پختگی تو ملک المدرسین حضرت مولانا عطا محمد چشتی دام ظلہ کے فیض نگاہ سے حاصل ہو چکی تھی ، حضرت محد ث اعظم پاکستان کے فیض سے ایمان کو جلا ملی اور مسلک اہل سنت کی صھیح تعبیر مسلکامام احمد رضا بریلوی قدس سرہ سے تعلق خاطر اور مستحکم ہو گیا ، سلسلۂ عالیہ چشتیہ میں حضرت خواجہ نظام الدین تونسوی قدس سرہ سے بیعت ہوئے اور فیوض و برکات سے مستفیض ہوئے۔
فارغ التحصیل ہونے کے بعد ایک سال مدرسہ احسن المدارس مرکزی جامع سجد ، راولپنڈی اور ایک سال جامعہ نظامیہ رضویہ ، لاہور میں قابل ستائش تدرسی خدمات انجا دیں ، قیام لاہور کے دوران جامع مسجد بیڈن روڈ میں خطیب رہے ،۱۹۵۹ھ میں واں بھچراں (میانوالی) کے مشہور دویش منش رئیس ملک مظفر خان بہادر رحمہ اللہ تعالیٰ شیخ الاسلام حضرت خواجہ محمد قمر الدین سیالوی مدظلہ العالی کی رضا مندی اور محدظ اعظم پاکستان مولانا سردار احمد قدس سہر کی اجازت سے یہ حیثیت خطیب مدرس اور مہتمم آپ کو واں بھچراں لے گئے۔
واں بھچراں کا ریگزار ایک عرسہ تک مولوی حسین علی ( مؤلف بلنعۃ الحیران) کے دور کی تشرف آوری نے فسوں کا ری کے اس ماحول پر شدید ضرم لگائی تھی ، بعد ازاں مولوی حسین علی کے شاگرد مولوی غلام یٰسین بائیس سال تک سنیت کا لبادہ اوڑھ کر جامع مسجد مظفریہ ، واں بھچراں خطیب رہے ، شیخ الاسلام حضرت خواجہ محمد قمرالدین سالوی مدظلہ العالے کی نگاہ التفات نے انہیں بے نقاب کر کے علحٰیدہ گی پر م جبور کردیا، یہ بھی ان بزرگان دین کی توجہات کا ظمرہ تھ اکہ مولانا محمد بخش رحمہ اللہ تعالیٰ کی آمد سے قسبہ واں بھچراں گلستان سنیت بن گیا، ان کے روح پر ور بیانات اہل دل کے لئے نسیم سحری ثابت ہوئے جا بجا صلوٰۃ و سلام کے کیف آور نغمے گونجنے لگے ، میلاد شریف کے جلوس سے عبد کا سماں بدھے لگائواں بھچراں کی تاریخ میں پہلی دفعہ آپ کے زیر اہتمام یوم رضا منایا گیا۔
مولانا محمد اللہ بخش رحمہ اللہ تعالیٰ کو تدریس و تقریر کی طرح مناظرہ میں ھ ید طولے حاصل تھا ، واں بھچراں پہنچے کے چند روزبعد ہی مولوی غلام یٰسین کو چیلنج کیا کہ میدان میں آکر مسلک اہل سنت کی حقانیت پر گفتگو کرلیں لیکن وہ ہزار اطمینان دلانے کے باوجود بھی سامنے نہ آ ئے ، سر گوھا کے مولوی محمد امیر سے موضع اترء ضلع سر گودھا کے قریب ایک عیہات میں مسئلۂ علم غیب پر گفتگو کی اور دلائل قاہر ہ سے اہل سنت کا موقف ثابت کرکے عظیم الشان فتح حاصل کی ، جب یہ اطلاع محدث اعظم پاکستان مولانا سردار احمد قدس سرہ کو پہنچی تو انہوں نے نہایت مسرت کا اظہار کرتے ہوئے آپ کو ابو الفتح کا لقب اور دستار فضیلت تاج الفتح عطا فرمائی ، اس کے علاوہ حضرت محدث اعظم لائپوری کے ایما ء پر موضع ونگ (مضا فات کندیاں) میں دیوبندی عالم مولوی عطا محمد سے دیوبندیوں کی گستاخانہ عبارتوں پر ایسی زور داف گفتگو کی کہ فریق مقابل تاب مقابلہ نہ لاتے ہوئے چلتے بنے اور جاتے ہوئے کچھ کتابیں بھی چھوڑ گئے۔
مولانا ابو الفتح محمد اللہ بخش رحمہ اللہ تعالیٰ تمام علماء مشائخ اہل سنت سے گہری عقیدت اور مخلصا نہ روابط رکھتے تھے ، خاس طور پر استاذ گرامی ملک المدرسین حضرت مولانا عطا محمد چشتی دامت برکاتہم العالیہ کی عقیدت و خدمت میں کوئی بھی ان تک نہ پہنچتا تھا ، ایک عرصہ تک معمول رہا کہ ایک جمعرات حضرت استاذ گرامی کی خدمت میں بنیا ل حاضری دیتے اور ایک ج معرات والدین کی خدمت میں موضع شادیہ حاضر ہوتے، حضرت استاذ گرامی مدظلہ العالی بھی انہیں بے پایا ں شفقتوں سے نوازتے ۔
مولانامحمد اللہ بخش رحمہ اللہ تعالیٰ کے تدریسی کمال اور اخلا ق جملہ کا اثر تھا کہ پاکستا ن کے گوشے گوشے شے طلبہ کھنچے چلے آتے تھے، افغانستانتک کے چلبہ آپ ی خدمت میں حاضر ہوتے اور اکتساب فٰج کرتے ، علوم دینیہ سے بہرہ ور کرنے کے ساتھ ساتھ مسلک اہل سنت کی خدمت کا واہانہ جذبہ طلبہ کے دل و دماغ میں اتار دیتے، بند یال تشریف لاتے تو کچھ وقت ہمیں بھی عنایت فرماتے ۔ ایک دفعہ فرمایا کہ حضرت شیخ الحدیث مولانا سردار احمد قدس سرہ فرمایا کرتے تھے:۔
مولانا ادرسی کتب پر شروح و حواشی لکھنے کی طرف ضرور ضرور دیجئے، کچھ نہیں تو ہر روز ایک دو سطریں ہی لکھ لیا کریں ، انشاء اللہ العزیز ایک وقت آئے گاکہ مکمل کتاب بن جائے گی۔
حضرت شیک الحدیث مولانا سرداراحمد قدس سرہ نے ایک مکتوب میں آپ کو تحریر فرما یا :
مولی عزوجل آپ کو مدارج علیا عطا فرمائے اور خدمت درس و تدریس و خدمت خطابت دامات و خدمت مذہب اہل سنت میں خوب ترقی و قبولیت عطا فرمائے ، آمین !‘‘[2]
کیا یہ کرامت نہیں کہ اس دعا کا ایک ایک لفظ آپ کے حق میں پورا ہو اور آپ نے ہر شعبے میں نمایاں خدمات انجام دیں ،آپ نے مختصر عرصے میں مدرسین کی اچھی خاسی تعداد تیار کردی بحمدہ تعالیٰ آپ کے تلامذہ مملکت پاک کے متعدد مدارسمیں قابل قدر خمات انجا م دے رہے ہیں ، چند ما مزہ کے نام یہ ہیں:۔
۱۔ مولانا پیر محمد چشتی شیک الحدیث جامع معینیہ پشاور۔
۲۔ مولانا حاجی محمد علی مہتمم دار العلوم رولیہ شیرازیہ لاہور ۔
۳۔ مولانا محمد عبد الوہاب بن مناظر اسلام مولانا محمد عمراچھروی،
(حال انگلینڈ)
۴۔ مولانا محمد طفیل ، کراچی ۔
۵۔ مولانا غلام نبی تاظم اعلیٰ دار العلوم حامدیہ ، کراچی
۶۔ مولانا غلم دستگیر افغانی مدرس دارالعلوم امجدیہ ، کراچی۔
۷۔ مولانا منظور الحق ، کراچی ۔
۸۔ مولانا حافظ محمد ابراہیم ناظم اعلی شمس العلوم مظفر یہ رضویہ ،
واں بھچراں ،
۱۰۔ مولانا حافظ غلام محمدصدر مدرس اشاعت العلوم ، چکوال ۔
۱۱۔ مولانا گل رحمن مدرس ضیاء العلوم جامعہ رضویہ ، راولپنڈی ۔
۱۲۔ مولانا فضل السبحان مہتمم دار العلوم قادریہ ، بغداد ہ مرادن۔
وغیرہ وغیرہ
۲۱ستمبر کو ہلکا سابخار ہوا ، اگل دن ۵ رمضان المبارک، ۲۲ ستمبر (۱۳۹۴ھ/۱۹۷۴ئ) کو دل کا دورہ پرا جو جان لیوا ثابت ہوا، مولانا ابو الفتح محمد اللہ بخش قدس سرہ کی شادی ۱۹۶۴ء میں میا نوالی کے علمی گھرانے میں ہوئی ، آپ کی اولاد میں سات اور نو سال کی دو بچیاں اور ایک صاجزادہ عزیز القدر رضاء المصطفیٰ سلمہ اللہ تعالیٰ عمر چار سال یادگار ہیں ۔
مولانا سید شریف احمد نوشاہی مدظلہ نے قطعۂ تاریخ وصال کہا ؎
مولوی ، للہ بخش مرد کمال
بو وفاضل ، بخانداں محبوب
کرد تبلیغ ملت احناف
ال باطل ازوشدہ مرعوب
مہتمم خاص بُد بدار علوم
ہم مدرس بدس خوش اسلوب
مشتہر فیض اوبہ داں بھچراں
داخل خلد گشت آں مطلوب
سال ترحیل وے شرافت جست
ہا تفم گفت ’’قائد المرغوب‘‘[3]
[1] مکتوب مولانا ابو الفتح محمد اللہ بخش رحمہ اللہ تعالیٰ بنام راقم الحرو ف ، ۲۱ رمضان المبارک ۱۳۹۱ھ۔
[2] مکتوب حضرت محدث اعظم پاکستان مولانا سردار احمد قدس سرہ ۲۰۵ شوال المکرم ۱۳۷۷ھ بنام مولانا محمد اللہ بخش رحمہ اللہ تعالیٰ۔
[3] تلخیص مضمون راقم الحروف ’’ مولانا علامہ ابو الفتح محمد اللہ بخش رحمۃ اللہ علیہ ‘‘ ماہنامہ ترجمان اہل سنت کراچی جنوری ۲۹۷۵ھ، ص ۴۳ تا ۴۷۔
(تذکرہ اکبریہ اہلسنت)