حضرت فاضلِ شہیر مولانا عبدالمنان چشتی ہزاروی، اوگی (ہزارہ)علیہ الرحمۃ
فاضل شہیر حضرت مولانا ابو محمد اشفاق حافظ عبد المنّان چشتی بن جناب بہرام خان، (م مارچ ۱۹۳۸ء) شوال، / ستمبر ۱۳۲۹ھ / ۱۹۱۱ء، بمقام شمد ہڑہ علاقہ اگردر (ضلع مانسہرہ، ہزارہ) پیدا ہوئے۔ آپ کے جدِّ امجد علاقہ غیر کے رہنے والے تھے، جب انہیں ان کے چچا زاد بھائیوں نے قتل کیا، تو آپ کے والد ماجد بہرام خان کو ان کی والدہ علاقہ اگردر لے آئیں۔
آپ نے علومِ اسلامیہ کی مکمل تعلیم دارالعلوم حنفیہ صوفیہ اجمیر شریف میں حاصل کر کے ۱۹۴۴ء میں سندِ فراغت اور دستارِ فضیلت حاصل کی۔ دستار بندی جامع مسجد شاہ جہانی دربارِ عالیہ حضرت خواجہ اجمیری رحمہ اللہ میں ہوئی۔
آپ نے اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم، حضرت خواجہ غریب نواز رحمہ اللہ کی کرامت اور اپنی خدا داد صلاحتیں کے باعث دورانِ تعلیم جبکہ آپ متوسط کتب پڑھ رہے تھے، صرف ساڑھے چار ماہ میں قرآن پاک مکمّل حفظ کیا۔ ذالک فضل اللہ یوتیہ من یشاء۔
آپ کے چند مشہور اساتذہ کے اسماء گرامی یہ ہیں۔
حضرت مولانا الحاج معین الدّین اجمیری
حضرت مولانا محمد عبد اللہ قند ھاری
حضرت مولانا سیّد امیر (پنجاب) رحمہم اللہ
حضرت مولانا الحاج محمد حسین (مردان) مدظلہ
فراغت کے بعد آپ نے کچھ عرصہ اجمیر شریف میں ہی تدریس فرائض انجام دیے۔
اس دوران آپ ہندوستان کے اطراف و اکناف مثلاً دہلی، کلکتہ، ناگپور، جودھ پور وغیرہ علاقوں میں تبلیغی دورے فرماتے رہے۔
اپریل ۱۹۴۷ء میں آپ واپس اپنے آبائی گاؤں تشریف لائے جہاں آپ نے اپنے محلّے کی مسجد میں امامت کے ساتھ ساتھ درسِ نظامی کی تدریس بھی شروع کی۔
۱۹۵۴ء میں آپ نیروبی تشریف لے گئے اور وہاں کی مسجد کے خطیب مقرر ہوئے۔
۱۹۵۷ء میں بعض گھریلو مجبوریوں کی بناء پر واپس وطن تشریف لے گئے کچھ عرصہ دوبارہ نیروبی کے مسلمانوں کی دعوت پر وہاں تشریف لے گئے۔
۱۹۶۷ء میں پھر بوجوہ وطن تشریف لائے اور جامع مسجد اوگی کے خطیب اور سر پرست مقرر ہوئے۔
۱۹۷۵ء میں آپ تیسری مرتبہ نیروبی تشریف لے گئے اور اپنی جگہ فاضل نوجوان مولانا محمود شاہ رضوی کو (جو اس وقت نائب خطیب تھے) خطیب مقرر کیا۔[۱]
[۱۔ مولانا محمود شاہ رضوی، مولانا حکیم اللہ اور مولانا حفیظ اللہ دامت برکاتہم علاقہ اگرور میں مسلکِ اہل سنّت کی ترویج و اشاعت میں ہمہ تن مصروف ہیں۔ ان حضرات کی کوششوں سے اب قائدین اہل سنّت کے تبلیغی دورے ہوتے ہیں اور عوام النّاس جو صحیح العقیدہ سنّی ہیں، پر بعض نام نہاد مبلغین و خطبأ کا دجل و فریب واضح ہو رہا ہے۔(مرتب)]
اپریل ۱۹۷۸ء میں آپ وطن مالوف تشریف لا کر تبلیغ دین میں مصروف ہوگئے۔
اگرچہ آپ کسی سیاسی یا مذہبی تنظیم سے وابستہ نہیں رہے، تاہم آپ نے تحریکِ ختم نبوت تحریک پاکستان میں دیگر علماء اہل سنّت کی طرح بھر پور حصہ لیا۔
علّامہ عبد المنان مدظلہ چار مرتبہ حج بیت اللہ شریف اور زیارتِ گنبدِ خضریٰ سے مشرف ہوچکے ہیں۔ آپ نے پہلا حج ۱۹۵۵ء میں دوسرا اور تیسرا حج ۶۶۔ ۱۹۶۵ء میں اور چوتھا حج ۱۹۷۷ء میں کیا۔ چاروں حج آپ نے نیروبی سے ہی کیے۔ آخری حج میں آپ کی اہلیہ محترمہ بھی ہمراہ تھیں۔
مارچ ۱۹۷۸ء میں آپ نے مع اہلیہ محترمہ کے عمرہ کی سعادت حاصل کی۔
آپ نے ۱۵؍ اگست ۱۹۵۰ء میں حضرت خواجہ محی الدین المعروف بابوجی گولڑوی رحمہ اللہ (م ۱۹۷۴ء) سے بیعت اور ۱۹۵۸ء میں بذریعہ مکتوب گرامی حضرت بابوجی رحمہ اللہ سے خلافت کا شرف حاصل کیا۔
حضرت علّامہ عبدالمنّان مدظلہ نہایت فاضل اور باعمل عالم ہیں۔ آپ سے کثیر تعداد میں علماء فیض یافتہ ہوچکے ہیں۔
اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی مولانا شاہ احمد رضا خان رحمہ اللہ کے عشقِ رسول اور دینی و ملّی خدمات سے آپ بے حد متاثّر ہیں۔ راقم کے نام ایک مکتوب میں آپ فرماتے ہیں ’’خدا وند کریم حضرت شاہ احمد رضا خان رحمہ اللہ کے صدقے و طفیل میں ہمیں بخشے، معاف فرمائے اور عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم عطا فرمائے‘‘۔
آپ کے تین صاحبزادے محمد اسحاق، عبد الرزاق و محمد اشفاق اور تین صاحبزادیاں بقیدِ حیات ہیں، جبکہ ایک صاحبزادہ اور دو صاحبزادیاں انتقال فرما چکے ہیں۔[۱]
[۱۔ مکتوب حضرت استاذ العلماء مولانا عبد المنّان چشتی مدظلہ العالی بنامِ مرتب بو ساطت رفیق محترم مولانا محمد شاہ رضوی، بتاریخ ۱۸؍ جنوری ۱۹۷۹ء۔]
اللہ تعالیٰ تمام صاحبزاد گان کو علم و عمل کے زیور سے آراستہ فرما کر آپ کا صحیح جانشین بنائے، آمین!
(تعارف علماءِ اہلسنت)