وجاہت
رسول تاؔباں قادری، علامہ صاحبزادہ سیّد
نام: وجاہت رسول۔
لقب: وجاہتِ ملّت۔
تخلص: تاؔباں۔
تاریخِ ولادت: 27؍ جمادی الاولیٰ 1358ھ مطابق16؍ جولائی1339ء۔
مقامِ ولادت: بنارس
(انڈیا)۔
نسب: آپ
سیّد النسب ہیں، ساداتِ بخارا سے آپ کا تعلّق ہے۔
شجرۂ نسب:
علامہ
مولانا صاحبزادہ سیّد وجاہت رسول تاؔباں قادری بن علامہ سیّد وزارت رسول قادری بن علامہ سیّد ہدایت رسول قادری برکاتی لکھنوی
بن مولاناسیّد احمد رسول سورتی بن مولاناسیّد فضلِ رسول
احمدآبادی بن مولانا سیّد عبدالرسول احمدآبادی... اِلٰی آخِرِہٖ۔
خاندانی پس منظر:
حضرت علامہ
صاحبزادہ سیّد وجاہت رسول تاؔباں قادری کے
· جدِّ امجد(دادا حضور) سیف اللہ المسلول علامہ مولانا سیّد ہدایت رسول قادری رضوی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادری برکاتی بریلوی
کے نامور خلیفہ تھے ۔
· والدِ ماجد مولانا سیّد وزارت رسول قادری حامدی، حجۃ الاسلام علامہ مفتی محمد حامد رضا خاں قادری برکاتی بریلویکے خلیفہ تھے۔
· تایا مولانا امانت رسول قادری عشقیایک نامور عالم ِدین
اور خطیب تھے۔
· آپ کے عمِ محترم (چچا) مولانا حافظ قاری عنایت رسول قادری لکھنویایک با ذوق ادیب، مصنّف اور نعت گو شاعر تھے اور
لکھنو سے ماہ نامہ ’’سنّی‘‘ نکالتے تھے،
جنھوں نے عمر تخلص اور ادبی دنیا میں ’’محمد عمر وارثی“ کے نام سے شہرت پائی اور جن کے صاحبزادے حمایت رسول قیصر وارثی اور بھتیجے سیّد سراج رسول حیات کا شمار ہندوستان کے صفِ اوّل کے شعراء میں ہوتا ہے۔
· عمۂ محترمہ (پھوپھی) حسینہ بیگم حامدیہ رضویہ ایک
ادیبہ مضمون نگار اور اصلاحی ڈرامہ نویس تھیں اور
ادبی دنیا میں اپنے قلمی نام ’’فوزیہ
صبوحی‘‘ سے معروف تھیں۔
· والدۂ ماجدہ سیّدہ نظیر النساء بیگم بھی شعری ذوق کی حامل خاتون تھیں اور حجۃ الاسلام مولانا مفتی
محمد حامد رضا خاں قادری برکاتی بریلوی کی چہیتی مریدوں میں سے تھیں، اُنھیں اپنے پیر و مرشد کی آٹھ دس
نعتیں زبانی یاد تھیں اور گھر میں نہایت
خوش الحانی سے پڑھتی تھیں۔
ایں خانہ ہمہ آفتاب است
اللہ اللہ! کیسا علم و عرفان کا گھرانہ تھا ! جہاں علم وفضل
اور عرفان و وجدان ہی ہر شخصیت کی پہچان اور شان تھی۔ اسی علمی و روحانی گلستانِ
سادات کے آنگن میں ایک ایسا آفتاب طلوع ہوا جنہیں دنیا ”سیّد وجاہت رسول قادری‘‘ کے نام سے جانتی ہے۔
حصولِ تعلیم اور کراچی
آمد و مستقل سکونت:
آپ نے قرآنِ مجید ناظرہ
اور اردو کی ابتدائی تعلیم اپنی والدۂماجدہ مرحومہ مغفورہ سے گھر پر ہی حاصل کی
اور عملاً آپ نے ثابت کر دیا کہ ماں کی گود واقعی دنیا کی پہلی درس گاہ ہے۔ پھر اسکول
میں داخلہ لیا، 1957ء میں آپ نے میٹرک کا امتحان پاس
کیا اور راج شاہی گورنمنٹ کالج میں داخلہ لیا ۔ 1963ء میں جب آپ نے راج شاہی یونیورسٹی سے ایم اے اکنامکس کیا۔ الحمد لله! مارچ 1964ء میں ایم بی
اے کی تعلیم کے لیے کراچی آگئے ایک سال کے بعد تعلیم منقطع کر کے حبیب بینک میں
ملازمت اختیار کر لی۔ 1967ء میں آپ کے والدین کریمین، عمۂ محترمہ (پھوپھی صاحبہ)
اور برادران بھی کراچی آگئے اور پھر یہیں کے ہو کر رہ گئے۔
بیعت و خلافت:
1963ء
میں جب آپ نے راج شاہی یونیورسٹی سے ایم
اے اکنامکس کیا تو شکرانے کے لیے سلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کے مزارِ پُر اَنوار پر حاضر ہوئے تو وہاں مفتیِ اعظم ہند حضرت علامہ مولانا محمد مصطفیٰ رضا خاں قادری برکاتی بریلوی کی زیارت سے بھی مشرف ہوئے ، بیعت کے لیے عرض کیا
تو حضرت مفتیِ اعظم ہند نے فرمایا تہجد کے وقت آنا۔ چناں چہ
تہجد کے وقت دوبارہ حاضر ہوئے تو شرفِ بیعت
سے بہرہ ور ہوئے۔ 1980ء میں بریلی شریف حاضر
ہو کر، آپ نے پیر و مرشِد سے روحانی برکات حاصل کیں۔ آپ کو جیّد اکابر مشائخِ اہلِ سنّت سے اجازت و خلافت حاصل تھی، جن میں حسبِ
ذیل حضرات بھی شامل ہیں:
· حضرت
علامہ مفتی تقدس علی خاں قادری بریلوی رضوی
· تاج الشریعہ حضرت علامہ مفتی محمد اختر رضا خاں
قادری بریلوی ازہری
· حضرت علامہ مفتی ظفر علی نعمانی
· شرفِ ملّت حضرت علامہ محمد عبدالحکیم شرف قادری۔
· نبیرۂ
اعلیٰ حضرت حضرت علامہ محمد سبحان رضا خاں عرف ’’سبحانی میاں‘‘ دَامَتْ بَرَکَاتُھُمُ
الْعَالِیَۃ(سربراہ خانقاہ عالیہ قادریہ رضویہ و مدیرِ اعلیٰ، ماہ نامہ
’’اعلیٰ حضرت‘‘، بریلی شریف، انڈیا)
نوٹ: حضرت سبحانی میاں دَامَتْ بَرَکَاتُھُمُ الْعَالِیَۃ اور حضرت سیّد وجاہت رسول قادری کے درمیان تبادلۂ خلافت ہوئی یعنی آپ دونوں حضرات نے ایک دوسرے کو خلافت دی بھی اور خلافت لی بھی۔
نکاح اور صاحبزادگان:
سات(7) اگست 1970 ء کو رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوئے۔ آپ کا نکاح پروفیسرعزیز الدین نقوی مرحوم کی دخترِ نیک اختر
محترمہ ڈاکٹر برجیس جہاں کے ساتھ منعقد ہوا۔ نکاح حضرت علامہ حافظ قاری امام شاہ احمد نورانی صدّیقی میرٹھی (متوفّٰی ١٤٢٤ھ/ ٢٠٠٣ء) نے پڑھایا۔ حضرت
علامہ مولانا محمد حسن حقانی اشرفی بھی مجلسِ نکاح میں
گواہ کی حیثیت سے شریک تھے۔ آپ کی اہلیۂ محترمہ بھی علمی، تحقیقی اور ادبی کاموں میں آپ کی معاون ثابت ہوئیں۔
ان سے آپ کے دو بیٹے سیّد محمد سطوت رسول قادری اور سیّد محمد صولت رسول قادری ہیں۔
ادارۂ تحقیقاتِ امام احمد
رضا کا قیام اور رضویات پر کام:
فدائے اعلیٰ
حضرت مولانا سیّد ریاست علی قادری(متوفّٰی1992ء) نے 1980ء میں اپنے احباب کے ساتھ مل کر، شہرِ کراچی میں ادارۂ تحقیقاتِ امام احمد رضا قائم فرمایا، ان احباب
میں صاحبزادہ حضرت علامہ سیّد وجاہت رسول
قادری بھی نمایاں طور پر شامل تھے۔ آپ
ادارۂ تحقیقاتِ امام احمد رضا کے بانی اراکین میں سے ہیں۔ فدائے اعلیٰ حضرت مولانا
سیّد محمد ریاست علی قادریکی وفاتِ حسرت آیات کے بعد، ادارۂتحقیقات امام احمد رضا
پاکستان کراچی کی منصبِ صدارت پر فائز ہوکر، آپ نے ادارے کو آسمانِ شہرت کی بلندیوں
پر پہنچایا۔ آپ نے اعلیٰ حضرت امام احمد رضا بریلوی کی دینی وملی اور سیرت و
کردار پر دنیا بھر کے ارباب علم و دانش سے تحقیقی مقالات لکھوائے اور شائع کروائے
۔ سال نامہ معارف رضا کے ساتھ ساتھ آپ نے ماه نامہ معارف رضا کی اشاعت بھی نہایت
برق رفتاری سے جاری وساری رکھی اور اس کی ادارت بھی آپ نے خود سنبھالی آپ نے نہ
صرف دوسرے اہلِ علم کی توجہ اعلیٰ حضرت کی شان دار خدمات کے
بارے میں مبذول کرائی بلکہ آپ خود بھی عملی میدان میں نمایاں رہے، جس پر آپ کے بیسیوں
مقالات واداریات شاہد و ناطق ہیں۔ ستمبر 1999ء میں آپ مصر کے علمی دورے پر گئے، شرفِ ملّت حضرت علامہ محمد عبد الحکیم شرف قادری بھی آپ کے ہم رکاب تھے۔ وہاں شیخِ جامعۃ الازہرالدکتور سیّد محمد طنطاوی اور وہاں کے دیگر اربابِ بصیرت سے علمی ملاقاتیں
کیں۔ جامعہ ازہر میں پہلی بار امام احمد رضا کا نفرنس منعقد ہوئی اور تین علمائے
جامعہ ازہر کو امام احمد رضا گولڈ میڈل دیا گیا اور واپسی پر اس علمی سفر کی روداد
ِدل پذیر ’’سفر نامۂ قاہرہ‘‘ کے نام سے لکھی، جو پہلے ماہ نامہ معارفِ رضا کراچی میں
قسط وار شائع ہوئی بعد ازاں اسے ملک
محبوب الرسول قادری رضوی نے
مرتّب کیا اور ادارۂ تحقیقات امام احمد رضا کے تحت کتابی صورت میں بھی شائع ہو کر منظرِ
عام پر آ چکی ہے۔ 20؍ مئی2001ء کو آپ علمائے کرام کے
ایک وفد کے ساتھ بریلی شریف حاضر ہوئے، جہاں عرسِ رضوی کے موقع پر یادگارِ اعلیٰ
حضرت ”دار العلوم منظرِ اسلام‘‘ کے جَشنِ صد سالہ میں شرکت کی، وہاں آپ کی زبردست
پذیرائی ہوئی۔ آپ کو جگہ جگہ شان دار استقبالیے دیے گئے، اربابِ علم و فضل سے مفید
ملاقاتیں ہوئیں ۔ اس سفرِ رضویات کی روداد بھی آپ نے لکھی، جو ”معارف رضا‘‘ میں شائع ہو کر منظرِ عام پر آئی۔
25؍ جون 2003ء کو آپ نے خوشیہ کا نفرنس چٹا گانگ بنگلہ دیش میں
شرکت فرمائی اور وہاں کے علمی وتحقیقی علمائے کرام سے ملاقاتیں کیں اور اس علمی
سفر کو آپ نے ’’اپنا دیس بنگلہ دیس‘‘ کے عنوان سے ’’معارفِ رضا “ میں قسط وار شائع
فرمایا۔ بعد ازاں، ان قسطوں کو بھی ملک محبوب الرسول قادری رضوی نے یک جا کیا، جسے بعد میں ادارۂ تحقیقات امام احمد رضاکے
تحت کتابی صورت میں بھی شائع کیا گیا۔ المختصر آپ ساری زندگی کارِ رضا میں مصروف
رہے۔ دنیا بھر میں آپ نے اعلیٰ حضرت پر کام کرنے والوں سے رابطہ رکھا ۔ انہیں کتا
بیں بھجوا ئیں۔ ان کی حوصلہ افزائی فرمائی۔ 1340ھ/ 2018ء میں جناب مولانا محمد شرافت علی قادری رضوی نے پنجاب کے ایک دور افتادہ علاقے میں صد سالہ عرسِ رضوی کے
موقع پر امام احمد رضا کانفرنس منعقد کی اور آپ کو دعوت دی تو آپ ان کی دل جوئی کی
خاطر نہایت علالت اور ضعیف العمری کے با وجود وہاں رونق افروز ہو گئے اور اعلیٰ
حضرت کے حوالے سے مقالہ بھی پڑھا۔
حج و زیارت:
1981ء میں آپ نے اپنی والدۂ
ماجدہ کی معیت میں پہلی بار فریضہ حج و
زیارت روضۂ اقدس رسول اللہ ﷺ کی سعادت سے پائی۔ اس دوران خلیفۂ اعلیٰ حضرت حضرت قطبِ مدینہ علامہ ضیاء الدین احمد قادری (متوفّٰی 1401ھ/ 1981ء) سے بھی شرفِ ملاقات
حاصل ہوا ۔ 1985ء میں آپ نے اپنی اہلیۂ محترمہ کے ہمراہ دوسری بار
اور پھر1992ء میں تیسری بار اور 1996ء میں چوتھی بار حج اور
زیارتِ حرمین شریفین سے آپ فیض یاب ہوئے۔ فالحمد للہ علی ذالك! ان کے علاوہ آپ نے چھے عمرے بھی ادا کیے ۔ 1990ء میں آپ نے جو عمرہ ادا کیا وہ اس لحاظ سے یادگار
ہے کہ آپ کو فیضِ ملّت حضرت علامہ محمد فیض احمد اویسی رضوی کی معیت بھی حاصل تھی اور عراق کی تمام زیاراتِ مقدّسہ
پر بھی حاضری کی سعادت سے بہرہ ور ہوئے۔
خطابت:
کراچی
میں آپ سندھ کلب کی مسجد میں تیرہ سال تک جمعہ المبارک پڑھاتے رہے اور اپنے خطبات
سناتے رہے، قومی اور بین الاقوامی کانفرنسوں میں شرکت فرما کر نہایت تحقیقی مقالات
پیش کر کے اپنا علمی لوہا منوایا۔
شعر و سخن:
آپ کو شعروسخن سے دل
چسپی تھی۔ زمانۂ طالبِ علمی ہی سے حضرت حافظ شیرازی کے کلام(دیوانِ حافظ) کے دل دادہ ہو گئے تھے۔ جب اسکول
میں داخل ہوئے تو وہاں ماسٹر فرید الرحمٰن مرحوم
اور علامہ فضل قدیر ندوی مرحوم نے آپ کے شعری
ذوق کو مزید جلا بخشی۔ راج شاہی گورنمنٹ کالج کے شعبۂ
اردو کے پروفیسر شیدائی مرحوم اور پروفیسر کلیم
سہسرامی مرحوم نے بھی آپ کے شعری ذوق کو جلا بخشنے میں کوئی کسر
اٹھا نہ رکھی اور آخر الذکر کی خواہش پر
آپ نے ’’تاؔباں‘‘ تخلص اختیار فرمایا اور طبع آزمائی
فرمائی۔ کراچی روشنیوں کا شہر ہے یہاں آپ نے مختلف مشاعروں میں بھی حصّہ لیا اور
خراجِ تحسین حاصل کیا۔ آپ کا مجموعۂ کلام ’’فروغِ صبحِ تاباں‘‘ کے نام سے 1437ھ/2016 ء میں ادارۂ تحقیقاتِ امام احمد رضا انٹر
نیشنل کراچی، پاکستان کے زیرِ اہتمام شائع ہو کر منظرِ عام پر آیا۔
ادارےکے زیرِ
اہتمام سال نامہ معارف رضا کا جب پہلا
شمارہ سامنے آیا تو اس میں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں قادری بریلوی کی شان میں
آپ کی ایک منقبت بھی شائع ہوئی تھی، جس کا مطلع یہ ہے:
تاج دارِ اہلِ سنّت حضرت ِاحمد رضا
ہیں امامِ اہلِ سنّت حضرتِ احمد رضا
تصانيف:
آپ کو تحریر
و تصنیف سے بھی بڑا گہرا شغف تھا۔ نثر عمدہ ، سلیس، رواں دواں تھی۔ اسلوب دل کش
اور محققانہ تھا۔ آپ کی تصانیف کے نام درجِ ذیل ہیں:
1.
امام احمد رضا اور تحفّظِ عقیدۂ ختمِ نبوّت
2.
تاریخِ نعت گوئی میں امام احمد رضا کا مقام
3.
تذکرۂ مولانا سیّد وزارت رسول قادری
4. دار العلوم منظر اسلام
5.
اصلاحِ معاشرہ
6.
رحمت عالم ﷺ امن واخوت کے داعیِ اعظم
7.
اُسوۂحسنہ کے چراغ
8.
اسلام میں عدل و احسان کا تصور
9.
خانوادۂنبوّت کا اُسوۂ حسنہ
10.
حقیقتِ عید میلادالنبیﷺ
11.
فروغ صبح تاؔباں ( مجموعۂ کلام )
12.
معلمِ کا ئناتﷺ
13.
کنز الایمان کی عرب دنیا میں پذیرائی
14.
اصلاحِ معاشرہ سیرتِ رسولﷺ کی روشنی میں
15.
امام احمد رضا کا اسلوبِ تحریر و تحقیق
16.
اہلِتصوف کا تصورِ جہاد
17.
امام احمد رضا اور انٹر نیشنل جامعات
18.
لال قلعے سے لال مسجد تک
19.
فضیلتِ اعتکاف
20.
Imam Ahmed Raza Barelvi
21.
معارفِ اسلام
22.
سفر نامۂ قاہرہ
23.
سفر نامۂ بنگلہ دیش
24.
سال نامہ معارف رضا و ماه نامہ معارف رضا کے اداریے (دو جلدیں)
25.
علاوہ ازیں آپ کے لکھے ہوئے تبصرے، تجزیے اور مجلہ امام احمد رضا کانفرنس کے
ابتدایے بھی اس قدر جامع ہیں کہ جنھیں مرتب کر لیا جائے تو کئی جلدیں بن جائیں ۔
خلفا:
حضرت
صاحبزادہ علامہ سیّد وجاہت رسول قادری کے خلفا کے جو نام تاوقتِ تحریر
معلوم ہو سکے وہ ذیل میں دیے جار ہے ہیں، اِن میں سے اکثر نام ادارۂ ضیائے طیبہ سے وابستہ محمد مدثر اکرام
قادری نے واٹس ایپ کے ذریعے جناب علامہ محمد صادق اشرف قادری برکاتی رضوی(مسند
نشین خانقاہِ اہلِ سنّت اورنگی ٹاؤن،
کراچی) سے لے کر فقیر کو دیے:
1.
نبیرۂ اعلیٰ حضرت
حضرت علامہ محمد سبحان رضا خاں عرف ’’سبحانی میاں‘‘ دَامَتْ بَرَکَاتُھُمُ
الْعَالِیَۃ(سربراہ خانقاہ عالیہ قادریہ رضویہ و مدیرِ اعلیٰ، ماہ نامہ
’’اعلیٰ حضرت‘‘، بریلی شریف، انڈیا)
2.
علامہ مفتی محمدسلیم
بریلوی
مُدَّ
ظِلُّہُ الْعَالِیْ (مدیرِ اعزازی، ماہ
نامہ ’’اعلیٰ حضرت‘‘و اُستاذ جامعہ رضویہ منظرِ اسلام، بریلی، انڈیا)
3.
ابوالسنان پیر
عتیق الرحمٰن قادری رضوی مُدَّ ظِلُّہُ الْعَالِیْ (مالیگاؤں،
انڈیا(
4.
علامہ مولانا نظام
الدین مُدَّ
ظِلُّہُ الْعَالِیْ (بنگلا دیش)
5.
مؤرخِ اہلِ سنّت
علامہ پیر سیّد صابر حسین شاہ بخاری مُدَّ ظِلُّہُ الْعَالِیْ (برہان
شریف، پنجاب)
6.
مولانا محمد شرافت
علی قادری رضوی مُدَّ ظِلُّہُ الْعَالِیْ (بانی ادارۂ
تحقیقاتِ امام احمد رضا، سمندری، پنچاب)
7.
مفتی عارف محمود
قادری
مُدَّ ظِلُّہُ الْعَالِیْ (میاں والی، پنجاب)
8.
علامہ سیّد غضنفر
طاہر شہابی قادری رضوی زِیْدَ مَجْدُہٗ
(کراچی)
9.
علامہ محمد صادق
اشرف قادری برکاتی رضوی زِیْدَ مَجْدُہٗ (مسند
نشین خانقاہِ اہلِ سنّت اورنگی ٹاؤن،
کراچی)
10.
علامہ مفتی یوسف
کمال رضوی
زِیْدَ
مَجْدُہٗ (سابق
آفس سیکرٹری ، ادارۂ تحقیقاتِ امام احمد رضا،کراچی)
11.
علامہ مفتی امیر
حمزہ قادری ترابی زِیْدَ مَجْدُہٗ (کراچی)
12.
علامہ حافظ محمد
اویس سلطانی قادری رضوی زِیْدَ مَجْدُہٗ (ادارۂ ضیائے
طیبہ پاکستان، کراچی)
13.
اور یہ فقیر (ندیم احمد نؔدیم نورانی غُفِرَلَہٗ) جسے
حضرت وجاہت رسول قادری صاحب نے اپنے زمانۂ صدات میں 2006ء میں ادارۂ تحقیقاتِ امام
احمدرضا انٹرنیشنل، کراچی میں آفس سیکرٹری متعین کیا، جہاں یہ فقیر 16؍ مارچ 2013ء
تک خدمات سرانجام دیتا رہا اور اُس کے بعد 27؍ اگست 2013ء سے ادارۂ ضیائے طیبہ، پاکستان،کراچی سے وابستہ ہے۔
ادارۂ تحقیقاتِ
امام احمد رضا سے وابستگی سے پہلے بھی، وابستگی کے دوران بھی اور ادارے سے رخصت
ہونے کے بعد بھی میں نے اُنھیں انتہائی شفیق اور اَصاغِر نواز پایا۔
وصال:
30؍ جمادی الاولیٰ1441ھ مطابق 26؍ جنوری 2020ء بروز اتوار بوقتِ دو پہر بارہ
(12)بجےکراچی کے ایک ہسپتال میں آپ کا وصال ہوا۔
نمازِجنازہ:
آپ
کی نمازِ جنازہ جامع مسجد فیضانِ جیلان کلفٹن میں شہزادۂ حضرت علامہ سیّد شاہ تراب
الحق قادری امیرِ جماعتِ اہلِ سنّت کراچی حضرت صاحبزادہ علامہ شاہ عبد الحق
قادری مدّ ظلہ العالی نے پڑھائی، جس میں علامہ کوکب نورانی اوکاڑوی،جناب حاجی حنیف
طیّب،علامہ سیّد عظمت علی شاہ ہمدانی، مفتی محمد جان نعیمی،صاحبزادہ ریحان امجد
نعمانی، حضرت صاحبزادہ سیّدازہر شاہ ہمدانی، پروفیسر ڈاکٹر مجیداللہ قادری، پروفیسر دلاور خاں، مفتی سیّد زاہد سراج قادری،
علامہ
محمد صادق اشرف قادری برکاتی رضوی اور مولانا محمد شرافت علی قادری رضوی وغیرہم کے علاوہ،جناب سیّد ریاست رسول
قادری،سیّد صولت رسول قادری،سیّد سطوت رسول قادری سمیت خاندان کے افراد اور محبین
کثیر تعداد میں شریک ہوئے۔
تدفین:
آپ
کی تدفین ڈیفنس ، فیز 8، کراچی کے قبرستان میں ہوئی۔ اِس فقیر (ندیم احمد نؔدیم
نورانی) نے آخری دیدار کے وقت آپ کی پیشانی کو بوسہ دینے کا بھی شرف حاصل کیا اور
اپنے ساتھی علامہ حافظ محمد اویس سلطانی زِیْدَ مَجْدُہٗ کے
ہمراہ آپ کی نمازِجنازہ و تدفین میں بھی شرکت کی سعادت حاصل کی۔
مآخذ:
·
’’تذکرہ مولانا سیّد وزارت رسول قادری رضوی حامدی‘‘ از
صاحبزادہ علامہ سیّد وجاہت رسول قادری، مطبوعۂ ادارۂ تحقیقاتِ امام احمد رضا
انٹرنیشنل، کراچی، 1422ھ/ 2001ء۔
·
’’آفتابِ رضویت کا اک آفتاب‘‘ از مولانا سیّدصابر حسین شاہ
بخاری، مشمولۂ ’’ضیائے تاؔباں‘‘۔
· ’’ضیائے تاؔباں‘‘، از مولانا محمد شرافت علی
قادری رضوی، مطبوعۂ ادارۂ تحقیقاتِ امام احمد رضا سمندری، فروری 2020ء۔
