حضرت شیخ سراج الدین چشتی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ شیخ سراج الدین رحمۃ اللہ علیہ، حضرت شیخ کمال الدین علامہ رحمۃ اللہ علیہ کے بڑے صاجزادے تھے، خواجہ چراغ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ سے چار سال کی عمر میں بیعت ہوگئے تھے مگر جوان ہو کر اپنے والد گرامی سے نسبت چشتیہ حاصل کی، صاحب علم و کمال تھے، مولانا احمد تھانسیری رحمۃ اللہ علیہ (جو عربی زبان کے مایہ ناز شاعر تھے)، مولانا عالم پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ اور مولانا عالم سنگریزہ سے علوم حاصل کیے اور ایک لائق اعتماد تبحر حاصل کیا، سلطان فیروز شاہ جو بہمنی حکومت کا نامور تاجدار تھا، نے دکن آنے کی دعوت دی کہا جاتا ہے کہ سات ہزار کی رقم بطور زادِراہ بھی پیش کی مگر صوفی بے ریانی نہایت استغناء کا اظہار فرماتے ہوئے رقم واپس کر دی۔ (مخزن چشت: ص ۲۸۸) اور فرمایا: ’’حق تعالیٰ مراد گجرات ہر چہ ضرورت است عطامی فرماید۔‘‘ (تاریخ مشائخ چشت: ص ۲۶۴)و۔۔۔
مزیدحضرت سید بدیع الدین زندہ شاہ مدار رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ آپ اولیاء ہند میں کبار مشائخ میں شمار ہوتے تھے۔ بڑی بڑی عجیب و غریب کرامات کا اظہار ہوتا ہے مقامات ارجمند پر فائز تھے۔ حضرت شیخ مدار کی بزرگی احاطہ تحریر میں نہیں آسکتی اخبار الاخیار۔ معارج الولایت۔ تذکرہ العاشقین اور مناقب الاولیاء جیسی کتابوں کی سند سے یہ بات صحیح ہے کہ آپ مقام صمدیت پر فائز تھے۔ بارہ سال تک کھانا نہیں کھایا۔ ایک بار جو لباس پہن لیا وہ کبھی میلا نہیں ہوا۔ آپ اپنے چہرہ منور کو حجاب میں رکھا کرتے تھے۔ ان کے حسن و جمال میں اتنی کشش تھی کہ جو کوئی آپ کو دیکھتا سجدہ میں گرجاتا۔ آپ کا سلسلہ خلافت پیرانِ کبرویہ سے ہوتا ہوا حضرت خاتم الانبیاءﷺ سے ملتا ہے۔ صاحب معارج الولایت نے کشف انعمات کے حوالے سے لکھا ہے کہ آپ شیخ عبداللہ مکی خلیفہ حضرت شیخ طیفور شامی جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مصاحب تھے کے مرید تھے۔ شیخ طیفور شامی کو ۔۔۔
مزیدحضرت خواجہ کمال الدین محمد بن عارف عیسے رومی (بارہ بنکی) رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ۔۔۔
مزیدحضرت مولانا سماء الدین دہلوی رحمۃ اللہ علیہ آپ ظاہری اور معنوی علوم کےماہر تھے، متقی اور پرہیز گار تھے، دینا کی قطعاً خواہش نہ رکھتے تھے، صرف ضروریات کی حد تک دنیا کی چیزورں کو استعمال کرتے تھے، آپ مخدوم جہانیاں سید جلال الدین بخاری کے پوتے شیخ کبیرکے مرید تھے، کہتے ہیں کہ میر سید شریف جر جانی کے تلمیذ مولانا سناء الدین نے آپ سے علوم کی تحصیل کی تھی ملتان کی خانہ جنگیوں اور خلفشاریوں کی وجہ سے ملتان سے سکونت ترک کر کے کچھ عرصہ رنتھور اور بیانہ وغیرہ میں رہے اور اس کے بعد اور اس کے بعد دہلی میں سکونت پذیر ہوگئے چونکہ عمر بہت زیادہ ہوچکی تھی اس لیے آخری عمر میں آنکھوں کی بینائی ختم ہوگئی تھی لیکن اللہ نے اپنے فضل و کرم سے بغیر کسی علاج کے دوبارہ بینائی عطا کردی تھی۔ آپ اپنے گھر کے دروازے کے باہر کھڑے ہوکر فرمایا کرتے تھے کہ اللہ کی تمام مخلوق پر سب سے زیادہ مہربانی یہ ہے کہ مخلوق کی سم۔۔۔
مزید