مولانا سعید احمد بن مولان انور الحسن، وادی کشمیر کے گائوں سلوتری ضلع پونچھ میں ۱۹۳۷ء کو تولد ہوئے۔
تعلیم و تربیت:
۱۹۴۷ء میں کشمیر سے پاکستان چلے آئے ۔ ۱۹۵۵ء میں آپ نے فیصل آباد کے چک نامدار جڑانوالہ میں حافظ غلام قادر سے قرآن مجید حفظ کرنے کی سعادت حاصل کی۔ اس کے بعد جھنگ بازار فیصل اؓاد میں جامعہ رضویہ مظہر اسلام میں داخلہ لیا۔ جہاں آپ نے فقیہ العصر علامہ حافظ احسان الحق علیہ الرحمۃ اور یادگار اسلاف مفتی محمد امین نقشبندی سے اکتساب فیض کیا۔ معاشی مسئلہ کے سبب تعلیم مکمل نہ کرسکے اور حیدرآباد (سندھ) کارخ کیا اور مسجد غوثیہ بکڑا منڈی میں خدمت پر معمول ہوئے اس کے بعد دل جمعی کے ساتھ دوبارہ تعلیم جاری رکھی۔ مدرسہ احسن البرکات حیدرآباد میں استاد العماء مفتی خلیل خان برکاتی سے درس نظامی کی تکمیل فرمائی۔ لیکن محدث اعظمنے خاص طور پر آپ کو جامعہ رضویہ فیصل آباد بلایا اور جامعہ کے سالانہ جلسہ میں اپنے دست مبارک سے آپ کی دستار بندی فرمائی۔
بیعت :
فیصل آباد میں طالب علمی کے زمانہ میں جامعہ رضویہ مظہر اسلام کے مہتمم شیخ الحدیث حضرت علامہ سردار احمد علیہ الرحمۃ سے سلسلہ عالیہ قادریہ رضویہ حامدیہ میں بیعت ہوئے اور ۱۹۸۱ء میں بریلی شریف حاضری کے وقت مفتی اعظم ہند مولانا مفتی مصطفی رضا خان نوری علیہ الرحمۃ نے خلافت عطا فرمائی۔
مدرسہ کا قیام:
اپنے پیر و مرشد علامہ ابو الفضل سردار احمد کولائیپور سے مدعو کیا اور ۱۹۶۲ء می ںآپ نے ’’مدرسہ غوثیہ رضویہ سعیدیہ ‘‘ کی بنیاد رکھوائی جو کہ اب بکرا منڈی حیدرآباد میں بلعد و بالا عمارت کی صورت میں کھڑی ہے۔ دارالعلوم کو اس مقام تک پہنچانے کیلئے آپ نے انتھک محنت اور کوشش فرمائی۔ تاحیات آپ درس و تدریس سے وابستہ رہے۔ جدید عمارت کا افتتاح ۱۹۹۹ء میں قائد اہل سنت علامہ شاہ احمد نورانی نے اپنے دست مبارک سے فرمایا، لیکن صد افسوس اس تقریب سے بانی مدرسہ ایک سال قبل اللہ کو پیارے ہوگئے تھے۔
خطابت:
آپ حیدر آباد کے مشہور و مقبول خطیب تھے۔ میلاد شریف ، گیارہویں شریف اور اعراس بزرگان دین کے موقعہ پر آپ کا خصوصی خطاب ہو اکرتا تھا۔ آپ ایک رات میں دو دو تین تین تقریبات میں خطابت فرماتے اور جمعہ میں تاحیات غوچیہ مسجد میں خطاب فرماتے تھے جس میں دور دور علاقوں سے لوگ آپ کا خطاب سننے کیلئے آتے تھے۔
سفر حرمین شریفین:
آپ نے تین بار حج بیت اللہ اور روضہ رسول ﷺ کی حاضری کی سعادت حاصل کی۔ پہلا حج ۱۹۶۸ء دوسرا حج ۱۹۸۶ء تیسراحج ۱۹۹۴ء میں ادا کیا۔ ۱۹۸۶ء اور ۱۹۹۲ء میں برطانیہ کا تبلیغی دورہ بھی کیا۔
تحریک نظام مصطفیﷺ:
۱۹۷۷ء میں تحریک نظام مصطفی ﷺ چلی، جس می نعلماء اہل سنت کے ساتھ حیدرآباد میں آپ نے خوب کام کیا۔
تلامذہ:
آپ کے بعض نامور تلامذہ کے اسماء گرامی درج ذیل ہیں:
٭ مولانا قاری عبدالرشید احمد مہتمم جامعہ امام احمد رضا حیدرآباد
٭ مولانا قاری عبدالغنی سعیدی مہتمم امعہ السعید بائلے انگلینڈ
٭ مولانا حافظ محمد بشیر چشتی خطیب مرکزی جامع مسجد ویکفیلڈ برطانیہ
٭ مولانا قاری محمد امین چشتی خطیب اسلامیہ سینٹر لندن
٭ مولانا حافظ محمد فاضل اظہر خطیب جامعہ اسلامیہ بریڈ فورڈ ۔ یو۔کے۔
٭ مولانا حافظ محمد شفیع صدیقی مہتمم دادالعلوم صدیقیہ سہنسہ آزاد کشمیر
٭ مولانا قاری خادم حسین چشتی صدر ورلڈ اسلامک مشن اولڈ ہم برطانیہ
٭ صاحبزادہ مولانا حافظ محموود قادری مہتمم المرکز الغوثیہ ٹرسٹ حیدرآباد وغیرہ وغیرہ۔
وصال:
مولانا حافظ الحاج سعید احمد قادری پر ۱۹۸۹ء میں پہلی بار دل کا عارضہ لاحق ہوا اور تکلیف علاج کے باجود روز بروز بڑھتی گئی لیکن آپ کی خدمت دین میں کوئی فرق نہیں آیا۔ اس عارضے کی شدت کی وجہ سے آپ ۱۴، شعبان المعظم ۱۴۱۹ھ/۴ دسمبر ۱۹۹۸ء بروز جمعہ (شب برأت) رات ۳۵:۷ پر کراچی کے جناح ہسپتال میں انتقال کیا۔ وصال کے وقت سارا وارڈ خوشبو سے معطر ہوگیا اور آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے اور زبان پر یہ کلمات طیبات جاری تھے۔
یا رسول الل انظر حالنا یا حبیب اللہ اسمع قالنا
اننی فی بحرھم من مغرق خذیدی سھل لنا اشکالنا
نماز جنازہ آپ کے دیرینہ ساتھی علامہ عبدالرزاق کشمیری شیخ الحدیث رکن الاسلام حیدرآباد نے پڑھائی۔ آخری آرامگاہ آپ کی وصیت کے مطابق جامعی مسجد غوثیہ (امید علی روڈ بکرا منڈی حیدرآباد) کے احاطہ میں ہے۔
[مولانا عبدالرزاق سہروردی حیدرآباد اور صاحبزادہ حافظ حامد رضا نورانی نے مولانا مرھوم کے صاحبزادے حافظ محمود احمد قادری صاحب سے مواد حاصل کرکے فقیر کو بھجوایا۔ فقیر تینوں حضرات کا مشکور ہے۔]
(انوارِ علماءِ اہلسنت سندھ)