حافظ العلوم حضرت علامہ مفتی محمد ہاشم یاسینی علیہ الرحمۃ
مفتی محمد ہاشم بن محمد بخش سومرو، شہداد کوٹ( ضلع لاڑکانہ ) میں ۱۲۵۹ھ کو تولد ہوئے ۔
تعلیم و تربیت:
شہداد کوٹ کی نامور دینی درسگاہ میں داخل ہوئے جہاں استاد الکل ، سند الکاملین ، حضرت علامہ نور محمد شہداد کوٹی قدس سرہ سے تعلیم و تربیت حاصل کرنے کے بعد فارغ التحصیل ہوئے۔
بیعت :
شیخ طریقت ، ولی کامل حضرت مولانا میاں تاج محمد صاحب قادری سجادہ نشین درگاہ کٹبار شریف ( بلوچستان ) کے دست اقدس پر سلسلہ عالیہ قادریہ میں بیعت ہوئے۔
درس و تدریس :
شہداد کوٹ کی پسگردائی میں گوٹھ بھری سے درس و تدریس کا آغاز کیا، اس کے بعد حضرت مولانا میاں تاج محمد قادری سجادہ نشین درگاہ کٹبار شریف کے اصرار کے پیش نظر ان کی درگاہ شریف پر تدریس کے فرائض انجام دیئے ۔ اس کے بعد نواب اسد اللہ خان رئیسانی بروہی کے اصرار پر رئیسانیوں کے ’’گوٹھ محرم ‘‘میں کافی عرصہ تک فتویٰ وقضاء کے منصب پر فائز رہے۔ پٹھان قوم کے سردار رئیس اللہ بخش خان درانی کی استدعا پر گڑھی یاسین ( ضلع شکار پور) کی جامع مسجد میں امام مقرر ہوئے، متصل ’’مدرسہ ہاشمیہ ‘‘قائم فرمایا اور بقیہ زندگی یہیں درس و تدریس، امامت و فتاویٰ نویسی میں بسر ہوئی۔
اس طرح آپ ساری زندگی علم کی روشنی کو پھیلاتے رہے اور ظلم وجہالت سے بر سر پیکار رہے۔ سندھ ، بلوچستان ، پنجاب اور افغانستان کے طلباء نے آپ سے استفادہ کیا۔
(سندھی ادب کا تنقیدی اپیاس ، ص۵۷۳، ڈاکٹر میمن عبدالمجید سندھی مرحو م)
اولاد:
آپ کو تین بیٹے تولد ہوئے ۔
(۱) مولانا محمد صالح (۲)صاحب تکبیر مفتی محمد قاسم یاسینی ، صاحب فتاویٰ قاسمیہ (۳) مفتی حافظ محمد ابراہیم ناظم یاسینی
تلامذہ :
آپ سے کثیر تعداد میں طلباء نے استفادہ کیا، ان میں سے بعض کے نام درج ذیل ہیں :
۱۔ قاضی القضاء مفتی میاں گل حسن قادری ، سجادہ نشین درگاہ کٹبار شریف ( مرشد زادہ )
۲۔ علامہ مولانا عبداللہ نو ناری ، رتودیرو ضلع لاڑکانہ ( ان کے شاگرد علامہ خادم حسین جتوئی )
۳۔ مولانا مخدوم غلام مصطفی قادری ، سجادہ نشین درگاہ محمد پور شریف ( پنوعاقل ضلع گھوٹکی )
۴۔ مولانا حاجی محمد مبارک مہر قادری میاں جو گوٹھ ( ضلع شکار پور )
۵۔ مولانا محمد اسماعیل بھلیڈ نہ آباد ( ضلع جیکب آباد )
۶۔ مولانا جمال الدین صحبت پوری صحبت پور ( بلوچستان )
۷۔ مولانا تاج محمد تاج بلوچستانی گوٹھ حبیب خان لاشاری ، ناڑی ، (بلوچستان )
۸۔ مولانا حافظ نور محمد الیاسینی گڑھی یاسین
۹۔ مولانا کریم داد معارفانی چانڈیو مدفون گوٹھ ٹھوڑہی بجار ، تحصیل قمبر ضلع لاڑکانہ
۱۰۔ مولانا غلام عمر معار فانی چانڈیو گوٹھ ڈگھ سومر چانڈیو تحصیل قمبر
۱۱۔ ابو بچل عباسی (رہائش نزد جامع مسجد قاسمیہ ) لاڑکانہ
۱۲۔ مولانا الہٰی بخش گوٹھ کا کیپوتا
(مختصر سوانح حیات مولانا محمد قاسم یاسینی ص ۴، مرتبہ مولانا محمد حسین ایڈیٹر الحنیف ، طبع قدیم سن ندارد)
۱۳۔ مولانا پیر محمد ( غالبا جونانی شریف والے) تحصیل وارہ ضلع لاڑکانہ
۱۴۔ مولانا عنایت اللہ آگرو
۱۵۔ مولانا گل محمد ( سہ ماہی مہران سوانح نمبر ۱۹۵۷ئ)
مناظرہ :
مفتی محمد ہاشم الیاسینی نے علم فقہ کی کتاب ’’ہدایہ شریف ‘‘( موٗ لف علامہ شیخ ابوالحسن علی بن ابی بکر مرغینا ئی قدس سرہ متوفی ۵۹۴ھ) کی تدریس میں خاص نام حاصل کیا تھا۔ فارغ التحصیل علماء بھی آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر دوبارہ ہدایہ کا درس لیتے تھے۔ اسی طرح مولانا کو مناظرہ میں بھی کمال دسترس اور خداداد ذہانت حاصل تھی، اس لئے ہر مناظرہ میں بفضلہ تعالیٰ فتح و نصرت ان ے قدم چومتی تھی۔
کوئٹہ کا مشہور مناظرہ جس میں مفتی ملا احمد بھاگ ناڑی والے ( بلوچستان ) اور علامۃ الزمان ، مفتی اعظم ، رئیس العلماء مفتی عبدالغفور مفتون ہمایونی قدس سرہ العزیز کے مابین مناظرہ ہوا تھا۔ علامہ ہمایونی کی طرف سے آپ کے ہمعصر دوست مفتی محمد ہاشم یاسینی مناظر مقرر تھے۔ جس مناظرہ میں ملا احمد کو شکست فاش نصیب ہوئی اور شکست کا صدمہ برداشت نہ کر سکے لہذا اسی رات دل کا دورہ پڑا جو کہ جان لیوا ثابت ہوا۔ ( ہمایونی ص ۱۷) ، یہ واقعہ ۱۳۱۰ھ؍ ۱۸۹۲ء کا ہے ۔
تصنیف و تالیف :
آپ نے زیادہ تردرسی کتب پر حواشی تحریر فرمائی ہے ، لیکن اکثر تصانیف ضائع ہو گئی ہیں ، ان میں سے بعض کے نام درج ذیل ہیں :
۱۔ رسالہ نذر و نیاز کے متعلق
۲۔ حاشیہ مالئۃ عامل
۳۔ حاشیہ ہدایۃ النحو
۴۔ حاشیہ بدیع المیزان
۵۔ حاشیہ ایسا غوجی
۶۔ حاشیہ صرف بہائی وغیرہ
شاعری :
شاعری میں بھی دسترس رکھتے تھے۔ شاعری کا کچھ حصہ محفوظ ہے۔ حضرت خواجہ عبدالرحمن سر ہندی کے انتقال پر قطعہ تاریخ وصال کہا۔ جس کے دو شعر درج ذیل ہیں :
شد فلک زاندوہ درخون شفق
شد ملک زافسوس پنہاں در شفق
بود خاص حضرت رب الفلک
’’غفرلہ‘‘ تاریخ اوگفتہ ملک
( ۱۳۱۰ھ)
وصا ل :
مولانا مفتی محمد ہاشم نے ۱۹، شوال ۱۳۲۲ھ ؍ ۱۹۰۴ ء کو انتقال کیا ۔ آپ کی آخری آرامگاہ گڑھی یاسین کے قبرستان میں زیارت گاہ عام ہے۔ آپ کے وصال پر عارف و فاضل علامہ سید احمد شامی سیلانی ( مدفون بمبئی انڈیا ) نے عربی میں قطعہ تاریخ وصال کہا:
اسفا لفقد العالم الربانی
صدر العلوم و مفخر الاعیان
الکامل المفضال زہدۃ عصرہ
شیخ الکرام وزبۃ العرفان
اعنی محمد ھاشم من قد بدا
ضیفا من الاضیاف للرحمن
بشراہ قد فاز اسعادۃ بالرضا
تاریخہ ’’فی معدل الرضوان‘‘
۱۳۲۲ھ
ہندی شاعر نے کہا:
جست ہندی چوسال رحلت او
گفت ہاتف ’’شد اندرون بہشت‘‘
۱۳۲۲ھ
( بشکریہ :مہران سوانح نمبر ۱۹۵۷ء )
(انوارِ علماءِ اہلسنت سندھ )