محمد بن محمد بن احمد بن عبد اللہ بن عبد المجید بن اسمٰعیل بن حاکم مرزوزی بلخی الشہیر بہ حاکم الشہید: ابو الفضل کنیت تھی۔حافظ احادیث رسول اللہ اور اپنے وقت کے امام فاضل فقیہ متجر ہوئے،پھر امیر خراسان نے اپنی وزارت آپ کو دی لیکن اسم وزارت سے کراہیت کرتے تھے،آپ نے حدیث کو مرو میں محمد حمدویہ شاگرد امام احمد بن حنبل اور محمد عصام اور رے میں ابراہیم بن یوسف اور بغدادمیں ہیثم بن خلف اور کوفہ میں ابی العباس بجلی اور مکہ میں مفضل بن محمد او مصر میں احمد بن سلیمان مصری اور بخارا میں محمد بن سعید نو حاباذی اور ان کے ملبقہ سے سماعت کیا اور آپ سے ابا عبد اللہ حاکم صاحب مستدرک کیں چنانچہ کافی اور منتقی تو بعد کتب امام محمد کے اصوال مذاہب کی اصل ہیں لیکن کتاب منتقٰی اس زمانہ میں نایاب ہے۔
جب آپ بخارا کے قاضی تھے تو ہر روز امیر حمید کے پاس جاتے اور اس کو فقہ پڑھاتےتھے۔جب وزارت کےعہدےپرمقررہوئےتوکل اموارات و مہمات آپ کو تفویض کی گئیں۔آپ ہر نماز کے بعد خدا سے دعا مانگا کرتے تھے کہ مجھ کو شہادت نصیب ہو یہاں تک کہ جس رات کی صبح کو آپ شہید ہوئے۔آپ نے بڑا شور و غوما اور ہتھیاروں کی آواز سن کر پوچھا کہ یہ کیا معاملہ ہے لوگوں نے کہا کہ لشکر اکھٹا ہوا ہے اور آپ نے کہا کہ اے بار خدا یا بخش دے،پھر نائی کو بلوا کر سر منڈوایا اور غسل کیا اور اچھے کپڑے پہن کر صبح تک نماز پڑھتے رہے۔اس عرصہ میں گو بادشاہ نے لشکر مذکور کی ممانعت کے لیے اپنا لشکر بھیجا مگر اس نے گلبہ پاکر ماہ ربیع الآخر ۳۳۴ھمیں بحالت سجدہ آپ کو شہید کردیا۔اتحاف النبلاء میں آپ کی شہادت کی یہ وجہ لکھی ہے کہ آپ نے امام محمد کی ملبسوط اور جامع صغیر و کبیر کو بحذف مکر رو مطول اپنی کتاب کافی میں جمع کیا تھا اس لیے امام محمد نے خواب میں آپ کو کہا کہ آپ نے میری کتابوں کے ساتھ کیا کیا ہے؟آپ نے کہا کہ میں فقہاء کو کسلمند دیکھا تھا،اس لیے ذکر مکرو مطول کو حذف کردیا،اس پر امام محمد نے غصہ ہو کر کہا کہ جیسا تم نے میری کتابوں کو قطع کیا ہے خدا تمہیں بھی قطع کرے،پس ایسا ہی ہو اکہ لشکر نے آپ کو قتل کراور دو پارہ کر کے درخت پر لٹکادیا۔’’علامہ فصیح‘‘ آپ کی تاریخ وفات ہے۔
(حدائق الحنفیہ)