حسن بن زیاد لولوی کوفی:امام ابو حنیفہ کے شاگردوں میں س بڑے بیدار مغز د انشمسند فقہ تھے یہاں تک کہ یحییٰ بن آدم کہتے ہیں کہ میں نے آپ سے زیادہ تر کوئی فقیہ نہیں دیکھا۔ثمر بن خدا ے جب لوگوں نے پوچھا کہ حسن بن زیادہ تر فقیہ میں یا محمد بن حسن ؟ تو انہوں نے کہا کہ بخدا میں نے حسن بن زیاد کو ایسا دیکھا ہے کہ جب وہ محمد بن حسن سے کچھ سوال کرتے تھے تو یہیں تک ان کو مضطرب کردیتے تھے کہ وہ ردنے کے قریب ہو جاتے تھے۔آپ سنت نبوی کے بڑے محب و متبع تھے یہاں تک کہ حسب اتباع حدیث البسو ھم مما یلبسون کے جو کپڑآپ پہنتے وہی اپنے غلاموں کے بھی پہنا تے تھے۔
آپ کا قول ہے کہ ہم نے ابن جریح سے بارہ ہزار احادیث ایسی لکھی ہیں کی فقیہوں کو نہایت حاجت ہے۔آپ نے امام ابو حنیفہ سے بکثرت روایات حفظ کیں۔ ۱۹۴ھ میں جب حفص بن غیاث فوت ہوئے تو آپ کوفہ کی قضا کےمتولی ہوئے مگر پھر مستعفی ہو گئے۔ کہتے ہیں کہ جب آپ کی عمر تیس سال گذری توآپ نے فقہ کا علم پڑھنا شروع کیا اور چالیسویں سال آپ نے فتویٰ دینے میں صرف کئے ۔ محمد بن احمد بن حسن جو آپ کے پوتے ہیں۔کہتے ہیں کہ ایک دفعہ آپ نے کسی مسئلہ میں خطا کیا اور مستفتی چلا گیا تھا ، آپ اس کونہیں جانتے تھے کہکہاں رہتا ہے تاکہ اس کو صحیح مسئلہ سمجھادیں،پاس آپ نے منادی کرئی کہ میں نے فلاں روز فلاں مسئلہ کے جواب میں غلطی کی ہے ، پوچھنے والے کو چاہئے کہ میرے پاس آکر اپنا مسئلہ صحیح کر جائے ۔ آپ علم قراءت اور اس کے طرق میں بھی بڑے عالم تھے اور قراء ت کا وہ طریقہ جو امام ابو حنیفہ کی طرف منسوب ہے وہ آپ پر منتہیٰ ہوا۔
سمعانی نے لکھا ہے کہ جب آپ قضا کےلئے اجلاس کرتے تو خدا کی قدرت سے اپنا علم سب بھول جاتے یہاں تک کہ اپنے اصحاب سے مسئلہ صحیح کر جائے۔آپ علم قراءت اور اس کے طرق میں بھی بڑے عالم تھے اور قراءت کا وہ طریقہ جو امام ابو حنیفہ کی طرف منسوب ہے وہ آپ پر منتہیٰ ہوا۔
سمعانی نے لکھا ہے کہ جب آپ سے مسئلہ پوچھ کر حکم دیتے اور جب مجلس قضاء سے برخاست ہوتے تو تمام علمی طاقت آپ کی اپنی جگہ پر واپس آجاتی پس اس عیب کی وجہ سے بکالی نے ناراض ہو کر آپ سے استعفاء لے لیا۔ احمد بن عبد الحمید خازی کہتے ہیں کہ میں نے آپ سے زیادہ کوئی میں آپ کو ان علماء میں شمار کیا گیا ہے کہ جو تیسری صدی کی ابتداء میں مجدد دین محمد یہسے ہوئے ہیں انتہیٰ ۔ لیکن با وجود اس فضیلت کے محدثین کو آپ کی نسبت تکلم ہے اور حدیث میں آپ کو ضعیف اور مترو ک الحدیث بتایاہے۔آپ کی تصنیفات میں سے کتاب مجرو اور امالی مشہور ہیں۔ محمد بن سماعا ور محمد بن شجاع الثلجی اور علی الوازی اور عمر و بن مہیر والد خصاف نے آپ سے تلمذ کیا ۔ وفات آپ کی۲۰۴ھ میں واقع ہوئی، اسی سال امام شافعی بھی فوت ہوئے۔ تو نوی آپ کو اس لیے کہتے تھے کہ آپ کے بزرگون میں سے کوئی تو ن ویعنی مر وار دید بیچا کرتا تھا۔ کنیت آپ کی ابو علی تھی،’’جلال علم‘‘ آپ کی تاریخ وفات ہے۔
(حدائق الحنفیہ)