حضرت محمد بخش علامہ جیلانی قادری علیہ الرحمۃ
و۱۳۲۶ھ ف ۱۲/ربیع الاول بروز پیر ۱۳۹۳۔۱۹۷۳ء
رشد و ہدایت اور علم و عمل کے پیکر عظیم رہبر راہ شریعت و طریقت حضرت علامہ سید محمد بخش المعروف بچل شاہ جیلانی(ثالث) بن حضرت سید عبدالقادر شاہ المعروف پیر حاجی جیلانی بن حضرت سید بچل شاہ جیلانی (ثانی) رحمہم اللہ تعالیٰ اجمعین سر زمین سندھ کے ایسے خانوادے سے متعلق تھے جو علم اور عمل کے دونوں میدانوں کا شہسوار تھا۔ حضرت سید سخی بچل شاہ و حضرت سید علی اصغر شاہ جیلانی رحمہم اللہ جیسی ہستیاں آپ کے اسلاف میں سے تھیں۔آپ حیدر آباد (سندھ) کی ایک عظیم درگاہ نورائی شریف میں ۱۳۲۶ھ میں پیدا ہوئے اور ابتدائی تعلیم نورائی شریف میں ہی حاصل کی۔ کچھ عرصہ سندھ مدرسۃ الاسلام کراچی میں رہے۔ لیکن پھر آپ مستقل نورائی شریف میں پڑھتے رہے۔ آپ کو عالم بننے کا حد سے زیادہ شوق تھا۔ دربار شریف پر علماءکو تعلیم کے لیے رکھتے تھے۔ حضرت نے مختلف علماء سے تعلیم حاصل فرمائی جن اساتذہ کے سامنے آپ نے زانوئے تلمذتہہ کیے ان میں سے حضرت مولانا محمد شاہ مصطفائی امری والے، حضرت مولانا اکتڑائی او ر حضرت شریف مو خر الذکر استاد سے پرٹھی تھی۔
تحصیل علم کے بعد آپ نے یہیں نورائی شریف میں تدریس شروع کردی۔لیکن زیادہ دیر تک آپ اس کو جاری نہ رکھ سکے۔ نوارئی شریف کی جامع مسجد جیلانی کی امامت وخطابت تادم حیات کرتے رہے۔ آپ کا بیان بڑا ہی نورانی ہوا کرتا تھا حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی کے کلام سے اپنی تقریر میں بڑی و جدانی کیفیت میں اشعار پڑھا کرتے تھے آپ سندھی زبان کے بہترین خطیب و اعظ تھے لیکن آپ نے اس کو کبھی پیشہ نہیں بنایا۔ دور دراز سے آپ کی تقریر دل پذیر سننے کے لیے جمعہ وعیدین میں کثیر تعدادمیں لوگ آتے تھے اور بڑی دل جمعی کے ساتھ آپ کی عالمانہ اور عارفانہ تقریر سنتے تھے علم فقہ پر آپ کو کافی دسترس حاصل تھی شروع شروع میں افتاء کا بھی کام کرتے تھے۔ لیکن بعد میں آپ نے اس کو بھی ترک فرمادیا۔ آپ کتب بینی اور مطالعہ سے بڑا شغف تھا۔ جب فرصت ہوتی تو مطالعہ میں مصروف رہتے اور یہی سبب ہے کہ آپ کی لائبریری میں تقریباً دو ڈھائی ہزار کتب موجود ہیں۔ آپ بڑے متقی ، پرہیزگار اور بڑے عبادت گذار تھے۔ راقم کی والدہ ماجدہ کا بیان ہے کہ میں نے اس آپ کے والد کے ساتھ چالیس سال زندگی گذاری لیکن اس پورے دور میں مجھے یہ یاد نہیں کہ کبھی میرے خاوند کی تہجد کی نماز قضا ہوئی ہو، آپ کا معمول تھا کہ رات کو تین بجے اٹھتے اور وضو کر کے سیدھے مسجد میں جاتے تہجد کی نماز ذکرو اوراد پڑھتے رہتے گھنٹہ دو گھنٹہ سجدہ میں پڑے رہتے اور گریہ فرماتے تھے پھر تلاوت قرآن حکیم فرماتے اس کے بعد نماز فجر پڑھتے امامت خود فرماتے نماز فجر کے بعد اشراق کی نماز پڑھ کر مسجد سے باہر آتے۔نماز باجماعت پابندی کے ساتھ پڑھتی تھے۔ آپ کا یہ معمول سفر و حضر کی قیود سےبے نیاز تھا۔ آپ سلسلہ قادریہ میں اپنے والد ماجد حضرت حاجی شاہ علیہ الرحمۃ سے بیعت و مجاز تھے والد کی وفات کے بعد آپ ان کے جانشین ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو تمام ظاہری و باطنی خوبیوں سے نوازا تھا۔ آپ کو اللہ نے ۸ فرزندعطا کیے بڑے فرزند مظفر علی شاہ جو اس وقت آپ کے جانشین ہیں ،آپ نے بڑی محنت کی لیکن وہ صرف تفسیر جلالین و مشکوٰۃ تک پڑھ سکے ۔ آپ کی یہ تمنا اللہ تعالیٰ نے پوری فرمائی کہ احقر راقم الحروف ۸۳ء میں دارلعلوم امجدیہ سے فارغ ہوا اور اس وقت دارالعلوم نعیمیہ دستگیر کالونی کراچی میں بحیثیت مدرس خدمت دین و علم میں مشغول ہے۔ یہ سب کچھ میرے اللہ اور اس کے حبیب ﷺ کا فضل اور والد کی دعا کا نتیجہ ہے۔
حضرت قبلہ والد محترم علیہ الرحمۃ کو حضرت سیدنا عثمان لال شہباز قلندر ، مروندی کی ذات گرامی سے گہری عقیدت تھی اور آپ وقتاً فوقتاً ادبار پر حاضری دیا کرتے تھے۔ قلندر شہباز کی زیارت فرما کر لال باغ سیہون شریف کے قریب آپ کے مریدوں کی ایک بستی ہے اس میں قیام تھا۔ رات گذارکر صبح واپس دربار نورائی شریف آنا تھا۔ اپنے معمول کے مطابق رات کو تین بجے اٹھے نماز تہجد و ذکر و اوراد میں مشغول ہوگئے فجر کی نماز کا وقت ہوا تو مریدین کو اور اپنے پوتے پیر اشفاق حسین شاہ جیلانی جو آپ کے ساتھ تھا جگایا آپ مصلے پر تھے فجر کی سنت بھی پڑھ چکے تھے جہاں آپ کا قیامتھا وہ گھر لب شارع تھا رات کے اندھیرے میں کسی نے روڈ پر لائٹ دکھی اور کہنے لگا کہ بس آرہی ہے چوں کہ آپ دل کے مریض تھے آپ نے یہ سوچا شروع کردیا کہ اگر نماز پڑھوں گا تو گاڑی بس نکل جائے گی اگر گاڑی میں سوار ہوتا ہوں تو نماز قضا ہو جائے گی اسی اثنا میں آپ پر دل کا دورہ پڑا آپ کے پوتے کا بیان ہے کہ دادا نے فرمایا کہ گاڑی جاتی ہے تو جانے دیں اب نماز ہی پڑھتے ہیں۔ پھر آپ نے فرض شروع کر دیئے ایک رکعت پڑھ چکے تھے کہ دوسریرکعت کے لیے نہ اٹھ سکے بس حالت نماز میں ہی ۱۲/ ربیع الاول بروز پیر ۱۳۹۳ھ ۶۷ سال کی عمر میں اپنے اللہ کو پیارے ہوگئے۔آپ کی نعش مبارک کودربار نورائی شریف لایا گیا اور دربار کا پیر صحن میں آپ کو مدفون کیا گیا۔ آپ کا مزار مرجع خلائق ہے۔
آپ کی تاریخ وفات اس جملہ سے نکلتی ہے۔
(تذکرہ اولیاءِ سندھ )