حضرت عبدالکریم شاہ متعلوی علیہ الرحمۃ
و۹۴۴ھ /۱۵۳۸ء ف ۱۰۲۳ھ
سید عبدالکریم بن سید لعل محمد المعروف للہ کا شجرہ نسب حضرت سید علی بن حیدر ھروی سے جاکر ملتا ہے ۔ حضرت سید علی نے متعلوی شہر آباد کیا جواب ‘‘مٹیاری’’ کے نام سے مشہور ہے۔
حضرت سید عبدالکریم المعروف شاہ کریم بلڑی والے۔ مٹیارن میں ۲۰ / شعبان /۹۴۴ھ بمطابق ۲۰/ جنوری/ ۱۵۳۸ء میں تولد ہوئے۔ ابھی بچے ہی تھے کہ والد کا سایہ سرے سے اٹھ گیا۔ آپ کی پرورش آپ کے بڑے بھائی سیدجلال اور آپ کی والد ہ ماجدہ نے کی۔ چار یا پانچ سال کی عمر میں آپ کو دار العلوم میں بٹھادیا گیا۔ لیکن تعلیم میں دل نہیں لگا۔ سبق کے بجائے اللہ کا نام یاد کرتے رہتے ۔ آپ کے بھائی نے بڑی کوشش کی لیکن آپ نہیں پڑھ سکے۔ لڑکپن میں ہی مدرسہ چھوڑ کر سماع کی محفلوں میں جایا کرتے تھے۔ ایک دفعہ مشہور عالم مخدوم ضیاء الدین جو جہ بڑے عارف و کامل تھے وعظ فرما رہے تھے۔ شاہ کریم بچے ہی تھے اور بڑے غور سے تقریر سن رہے تھے۔ جب وعظ ختم ہوا تو شاہ کریم اٹھ کر اپنے گھر چلےکی طرف چل پڑے اچانک مخدوم ضیاء الدین کی نظر آپ پر پڑ گئی دیکھتے ہی فرمانے لگے کہ سبحان اللہ یہ لڑکا ان دنوں میں ہی خضر علیہ السلام کا صحبت یافتہ ہے ۔کاش! کہ میں ان کو جوانی میں دیکھتا تو کتنا اچھا ہوتا۔
(تذکرہ مشاہیر سندھ جلد دوم ص ۱۹۹، ۲۰۰)
حضرت شاہ کریم نے زیادہ تر مخدوم نوح ھالائی سے فیض حاصل کیا ہے۔ اکثر وبیشتر آپ کی خدمت میں رہا کرتے تھے۔ حضرت مخدوم نوح علیہ الرحمۃ کے راشاد پر ہی ، مٹیارن سے ہجرت فرما کر بلڑی میں آکر قیام فرمایا مخدوم آدم، سمیجا ، او سید یوسف مہدی بکھری سے بھی فیض حاصل کیا ہے۔
(تذکرہ مشاہیر سندھ)
حضرت شاہ عبدالکریم کی جوانی اور اس کے بعد والی زندگی اس طرح گذری ۔ صبح کی نماز پڑھ کر مراقبہ میں بیٹھ جاتے تھے۔ سورج کے طلوع ہوتے ہی اشراق پڑھ کر گھر میں آتے اور ناشتہ خود بناکراپنے بچوں کو کھلاتے تھے۔پھر کشکول اٹھا کر شہر میں جاتے گدا گری کر کے وہ آکر فقراء میں تقسیم کردیتے ۔ اس کے بعد ہل وغیرہ اور بیل لے کر کھیت میں جاتے اور خود ہل چلاتے۔ اور زوال کے وقت گھر لوٹتے بیلوں کو چارہ دیتے ۔ پھر وضو کر کے نفل پڑھتے تھے۔ پھر بڑے اطمینان وسکون سے ظہر کی نماز جماعت سے پڑھ کر کھیت کی جانب جاتے تھے۔ عصر کے وقت لوٹ کر بیلوں کو چارہ دیتے ۔ پھر عصر پڑھ کر یاد خدا میں بیٹھ جاتے تھے۔ عشاء تک وہاں بیٹھے رہتے تھے عشاء کی نماز پڑھ کر رات کا کھانا پکاتے بچوں اور فقراء کو کھلاتے تھے ۔ جب کھابی کر لوگ سوجاتے تھے تب آپ وضو کر کے نفل پڑھ کڑ بستی سے باہر نکل کر ‘‘راھوٹ’’ نامی بستی کی طرف چلے جاتے راستہ میں اگر کوئی مسجد ہوتی تو وضو کے لیے پانی اور استنجا کے لیے ڈھیلے رکھتے تھے۔ وہاں سے ایک ندی عبور کر کے مکلی ٹھٹھہ آتے اور ٹھٹھہ کی مساجد کا پانی بھرتے اور مساجدمیں سوئے ہوئے لوگوں کو تہجد کے لیے جگاتے ۔ پھر مکلی کے مشائخ اولیاء کرام کی قبور پر حاضر ہوکر ان کو فاتحہ دیکر آری ، اور پیر پٹھہکے مزار آکر فاتحہ پڑھتے تھے پھر پو (فجر) کے وقت لوٹ کر اپنے گاؤں ‘‘بلڑی’’ میں نماز فجر آکر اذان دیتے تھے فجر کی نماز پڑھ کر اشراق پڑھتے پھر اسی طرح اپنے کام میں لگ جاتے تھے۔ ضعف اور نقاہت آنے سے پہلے اسی طرح ریاضت و مجاہد میں آپ کی عمر مبارک گذری جس کا علم سوائے خواص کے کسی کو نہ تھا۔
پوری زندگی فقر وفاقہ اور تنگدستی میں بسر ہوئی۔ لیکن کسی کے سامنے کبھی بھی اپنے لیے ہاتھ دراز نہ فرمایا۔
(تذکرہ مشاہیر سندھ جلد دوم ص ۲۰۲)
تصوف و عرفان کے اعلیٰ مدارج طے کرنے کے باوجود آپ کی ساری زندگی شروع سے آخر تک پابندی شریعت اور اتباع سنت میں گزری ، آپ عبادات میں تہجد سے بڑا شغف رکھتے تھے۔ نماز تہجد میں خشوع و خضوع کا یہ عالم تھا کہ تہجد کی نماز کے لیے کھڑے ہوتے۔ پہلی ہی رکعت میں آپ پر اس قدر رقت و گریہ طاری ہوتا اور بیخودی کی کیفیت پیدا ہوجاتی کہ پہلی رکعت پوری نہیں کر پاتے تھے کہ صبح ہوجاتی ۔اور دوسری رکعت کا پڑھنا مشکل ہوجاتاتھا۔ تعجب کرتے ہوئے فرمایا کرتے تھے کہ خدا جانے لوگ تہجد کی نماز کو کس طرح پورا کرتے ہیں۔ میں تو ایک رکعت بھی مشکل سے ادا کرپاتا ہوں۔
حضرت سید عبدالکریم کی اطاعت شیخ کے سلسلے میں کیفیت جنونی تھی۔ ایک دن کسی نے آپ سے کہا کہ آپ حضرت مخدوم رحمۃ اللہ علیہ یاد فرماتے ہیں۔اس بات کے سنتے ہی آپ وہ بیل جو کھیتی کے لیے رکھے تھے ، ذب کر کے فرمایا کہ الحمد اللہ یہ امر کتنا قابل شکر و فخر ہے کہ مخدوم مجھ کو یاد فرماتے ہیں۔ آپ پر اطاعت شیخ اور یاد الہٰی کا غلبہ اتنا زیادہ ہوتا کہ آپ بعض اوقات اپنے فرزندوں کو بھی نہ پہنچانتے۔
فرمایا کرتے تھے ، محبوب حقیقی کے خیال میں طالب حق کو کھانا نہیں چاہیے اس لیے کھانا بالکل چھوڑدیا۔ جب اس کی خبر حضرت مخدوم رحمۃ اللہ علیہکو پہنچی تو انہوں نے آپ کو تاکید کہ خدائے تعالیٰ نے فرمایا ہے کلو اواشربوا اس وقت سے کچھ تھوڑا بہت کھانے لگے۔
حضرت مخدوم نوح رحمۃ اللہ علیہ سے جو فیض آپ کو حاصل ہوا تھا اس کااعتراف کرتے ہوئے ایک مرتبہ فرمایا کہ ایک دن ہم تین آدمی علیحدہ علیحدہ ایک ایک تمنا لے کر حضرت مخدوم کی خدمت میں حاضر ہوئے میری تمنا یہ تھی کہ مجھے حضرت سے طالبان حق کے لیے ایسے ذکر کی تلقین ہو جو سب سے علیحدہ ہو اور میں ہدایت حاصل کرنے والوں کا پیشوا بنوں، دوسرے ہمارے ساتھ میرن کا تیار تھے، ان کی تمنا یہ تھی کہ ان کی لڑکی مخدوم معظم کے کسی صاحبزادے کے نکاح میں آئے، تیسرے ہمارے ساتھی بلوچ تھے، ان کی آرزو یہ تھی کہ وہ صاحب کشف و کرامت ہوں، جیسے ہی ہم حضرت مخدوم رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں پہنچے اور آپ کے روئے مبارک کو دیکھا تو تینوں کی یہ تمنائیں پوری ہوگئیں۔
فرمایا کرتے تھے کہ جب میں نے وادی سلوک میں قدم رکھا تو مجھ پر یہ کیفیت طاری ہوتی تھی کہ میں عریاں رہوں او گدڑی بھی اتاردوں لیکن جب میں حضرت مخدوم کے حلقہ ارادت میں داخل ہوا تو یہ خیال فاسد میرے دل سے نکل گیا اور میں جادہ شریعت پر مستقیم ہوگیا۔
آخریہ اہل دن اللہ کا محبوب ولی۔ سید العشاق اس دار فانی کو چھوڑ کر دار باقی کی طرف کوچ فرماگیا۔ اس وقت آپ کی عمر مبارک ۸۸ سال تھی۔ ۷ ذی القعدہ ۱۰۲۳ھ اتوار کی شب مغرب کی نماز کے بعد آپ واصل بحق ہوگئے۔
(تذکرہ مشاہیر سندھ جلد دوم ص ۲۰۲)
کہتے ہیں کہ جب آپ کو قبر شریف میں اتار جارہا تھا اس وقت قبر سے یہ آواز آئی:
بھلی آئیں کاندھ۔ مون نمائنٹی بچھرے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اے میرے خاوند! تجھے خوش آمدید ہو۔ آپ کا مزار پر انوار بلڑی شاہ کریم میں باعث راحت قلوب ہے۔
(تذکرہ اولیاءِ سندھ )