حضرت مبلغ خوش بیاں حضرت مولانا محمد عبدالمالک لقمانوی کھلابٹ (ہزارہ) علیہ الرحمۃ
مبلغ خوش بیاں حضرت مولانا محمد عبدالمالک لقمانوی بن مولانا محمد فرید بن علامہ مولانا رحمت اللہ بن مولانا محمد انور شاہ[۱] ۴؍ربیع الثانی ۱۳۴۸ھ/ ۱۰؍ستمبر ۱۹۲۹ء میں بمقام لقمانیہ از مضافاتِ تربیلہ (ہزارہ) پیدا ہوئے۔
[۱۔ پٹھانوں میں بعض اولاد کا نام شاہ کے ساتھ آجاتا ہے۔]
آپ قوم پٹھان (اتمان زئی)[۱] کے ایک علمی گھرانے کے چشم و چراغ ہیں۔ آپ کے والد ماجد عالم تھے جو کہ جوانی ہی میں رحلت فرماگئے۔ جد امجد مولانا رحمت اللہ اور جد اعلیٰ مولانا محمد انور شاہ اپنے دور کے ممتاز محقق اور استاذ العلماء گزرے ہیں۔ تربیلہ میں بڑے مولوی صاحب کے نام سے پکارے جاتے تھے۔ علاقہ مردان اور ہزارہ کے وہابیہ کے ساتھ ان کے مناظرے ہوتے رہے اور ہمیشہ فتح پائی۔ مولانا رحمت اللہ کے کچھ شاگرد علماء اب بھی ہزارہ میں موجود ہیں۔
[۱۔ تحصیل صوابی ضلع مردان کا ایک بہت بڑا خان ’’محمد اتمان خان‘‘ نامی گزرا ہے، اس مناسبت سے اتمان زئی ہے۔]
آپ نے چھ جماعتیں سکول کی پڑھیں اور درسِ نظامی کا نصاب مکمل پڑھا۔ ابتدائی کتب درسِ نظامی مختلف علاقے کی مساجد میں پڑھیں اور بعد ازاں مختلف مدارس میں تعلیم حاصل کرتے رہے۔ مدرسہ غنیہ حنفیہ شہر سیالکوٹ مدرسہ مظہر اسلام (مسجد بی بی جی بانس) بریلی شریف (ہند) اور دارالعلوم علی پور شریف سیّداں میں حصولِ علم کے بعد دارالعلوم اسلامیہ رحمانیہ ہری پور (ہزارہ) سے ۲۲؍شعبان المکرم ۱۳۷۵ھ کو سندِ فراغت حاصل کی۔
آپ کے اساتذہ میں حضرت مولانا قاضی عبدالسبحان کھلا بٹی، حضرت مولانا عبدالقادر (مدرس مدرسہ مظہرِ اسلام بریلی شریف) حضرت مولانا عبدالغنی سیالکوٹی رحمہم اللہ اور حضرت مولانا عبدالغنی اویسی سلہڈ (ایبٹ آباد) کے اسماء گرامی شامل ہیں۔
حضرت مولانا محمد عبدالمالک لقمانوی مسلکِ اہلِ سنّت کے عظیم مبلغ اور بیباک ترجمان ہیں۔ آپ کا انداز تبلیغ نہایت سنجیدہ اور سامعین کے دلوں کو موہ لینے والا ہے۔ آواز شیریں ہے جس کی وجہ سے آپ بنیادی طور پر مقرر ہیں، تاہم تدریس سے بھی شغف رکھتے ہیں اور کافی طلباء کتب فارسی اور صرف و نحو کا درس آپ سے لے چکے ہیں۔ آپ فراغت کے فوراً ہی بعد مسندِ خطابت و امامت پر فائز ہوگئے تھے۔ جامع مسجد محلہ حاجی پیر امام بادشاہ موضع سرائے صالح (ہری پور) جامع مسجد دارالعلوم اسلامیہ رحمانیہ (ہری پور) جامع مسجد افغاناں شادیوال (گجرات) جامع مسجد اتاترک لائبریری بر لبِ دریا جہلم (شہر جہلم) اور جامع مسجد غلام خیال موضع کھبل (تربیلہ ہزارہ) میں خطابت و امامت کے فرائض سر انجام دینے کے بعد چند سال جامع مسجد نور محلہ مفتی آباد (مانسہرہ) میں بحیثیتِ خطیب کام کرتے رہے، جہاں آپ نے ایک دارالعلوم ’’جامعہ رضویہ فیض المالک‘‘ کے نام سے جاری کیا۔ مانسہرہ شہر میں آپ کی تشریف آوری سے پہلے عقائدِ باطلہ اور بدعات کی ترویج کا زور تھا، لیکن آپ کی آمد سے مکدر فضا صاف ہوگئی۔ عوام کو عقائدِ حقہ سے آگاہی ہونے لگی۔ ربیع الاول شریف میں پاکستان کے دوسرے شہروں کی طرح یہاں بھی عظمتِ رسول کے ترانے بجنے لگے۔ بارگاہِ رسالت میں خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے محافل اور جلوس منعقد ہونے لگے۔ علماء اہل سنّت کی آمد و رفت شروع ہوئی اور نہ صرف مانسہرہ شہر بلکہ گرد و نواح کے قصبات و دیہات میں بھی توحید و رسالت کے صحیح مفہوم کی تبلیغ ہونے لگی۔ مخالفین اہل سنت آپ کی کامیابی کو دیکھ کر سٹپٹائے اور مختلف طریقوں سے ہراساں کرنے کی کوشش کی، لیکن اس مردِ مجاہد کے استقلال میں کسی قسم کی کمی نہ واقع ہوئی۔ مخالفین سے بڑے مناظرے ہوئے ہیں۔ الحمدللہ ہر مقام پر آپ کو کامیابی نصیب ہوئی ہے۔ آج کل آپ کھلابٹ کالونی ہری پور میں مسندِ خطابت پر فائز ہیں۔
تحریکِ پاکستان کے وقت آپ کی عمر پندرہ سولہ سال تھی۔ آپ مسلمانوں کی نمائندہ جماعت مسلم لیگ سے وابستہ ہوکر حضرت شیخ القرآن علامہ عبدالغفور ہزاروی رحمہ اللہ کی معیت میں جگہ جگہ جلسوں میں شرکت فرماتے رہے۔[۱]
[۱۔ اب مولانا عبدالمالک عملی طور پر سیاست میں حصہ نہیں لے رہے ہیں، لیکن آپ کی تمام تر ہمدردیاں سوادِ اعظم کی نمائندہ جماعت ’’جمعیت علماء پاکستان‘‘ کے ساتھ ہیں۔ (مرتب)]
پاکستان بننے کے بعد پاکستان کا جھنڈا لہرا کر وزیرآباد سے سیالکوٹ تک جانے والی اس گاڑی پر آپ بھی شریکِ سفر تھے جس پر سکھوں نے حملہ کیا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے گاڑی بخیریت وزیرآباد پہنچ گئی۔
تحریکِ ختمِ نبوت ۱۹۵۳ء میں دارالعلوم اسلامیہ رحمانیہ کے سابق مہتمم حضرت مولانا عزیزالرحمان چھوہروی کی قیادت اور قاضی شمس الدین (درویش ہری پور) اور مولوی صاحب ڈھیندہ (ہری پور) کے ہمراہ بھرپور حصہ لیا۔
تحریکِ ختم نبوت (۱۹۷۴ء) میں آپ نے نمایاں حصہ لیا اور آپ کی بے لاگ اور پر حکمت تبلیغ کے پیش نظر بہت سے مرزائی قادیانیت سے توبہ کرکے دائرۂ اسلام میں داخل ہوگئے، جن میں خان غلام ربانی خاں ایڈووکیٹ (مانسہرہ) کا نام سرِ فہرست ہے۔[۱]
[۱۔ خان غلام ربانی خان جس کا اب انتقال ہوگیا ہے۔ اسلام لانے سے قبل مرزائیوں کا بہت بڑا مبلغ تھا، لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت سے حضرت مولانا عبدالمالک کی بے لاگ اور پر حکمت تبلیغ اسے اسلام کی طرف کھینچ لائی۔]
۱۶؍جولائی ۱۹۷۸ء کو پشاور میں جماعتِ اہلِ سنّت کے عظیم کنونشن میں آپ کو جماعت اہل سنت صوبہ سرحد کا نائب صدر چناگیا۔
آپ کا زیادہ رجحان وعظ و تقریر کے ذریعے تبلیغ کی طرف ہے، اس لیے تصانیف کی طرف بہت کم توجہ دی، بایں ہمہ آپ نے کچھ مسائل پر چند رسائل ترتیب دیے جو درج ذیل ہیں:
۱۔ جواز حیلۂ اسقاط
۲۔ درود و سلام کی تمام صورتوں کا جواز
۳۔ ذکر بالجہر
آپ کو اللہ تعالیٰ نے یہ قوت بھی عطا فرمائی کہ بوقتِ ضرورت اشعار کہہ لیتے ہیں جو کبھی کبھی نظم کی صورت بھی اختیار کرلیتے ہیں۔ مختلف اشتہارات پر آپ نے جو اشعار[۱] لکھے، ان میں سے چند بطور نمونہ مندرجہ ذیل ہیں ؎
گھٹا ٹوپ ظلمت کا ہے گرچہ قبضہ |
|
مگر تور کی تاب لانا ہے مشکل |
[۱۔ جب نیریاں شریف کے حضرت صاحب کو آزاد کشمیر کے وہابیہ نے اسلام سے خارج قرار دیا تو حضرت مولانا نے حضرت مولانا مفتی ہدایت الحق (حضرو) کی معیت میں چند ماہ دورہ کیا اور وہابیہ کے پروپیگنڈہ کا ازالہ کیا۔ اس موقع پر چھپنے والے اشتہارات پر اشعار لکھے ہیں۔]
آپ ۱۹۵۴ء میں حضرت مولانا پیر غلام محی الدین نقشبندی کابلی نیریاں شریف تراڑ کھل تحصیل پلندری (پونچھ آزاد کشمیر) کے دست حق پرست پر بیعت ہوئے۔
آپ کے تین صاحبزادے اور تین صاحبزادیاں بقید حیات ہیں، جبکہ تین صاحبزادیاں اور ایک صاحبزادہ انتقال فرماچکے ہیں۔[۱]
[۱۔ یہ تمام کوائف مولانا عبدالمالک لقمانوی نے مرتب کے نام تحریر فرمائے جس کے لیے مرتب ان کا ممنون ہے۔]
(تعارف علماءِ اہلسنت)