حضرت عبدالرحیم علامہ مخدوم گرھوڑی علیہ الرحمۃ
و۱۱۵۲ھ ف ۱۱۹۲ھ/ ۱۷۷۸ء
حضرت مخدوم علامہ عبدالرحیم گرھوڑی رحمہ اللہ کا شمار ان علماء و الیاء میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنے علم و فضل کشف و کرامت کی قوت سے معاصرین پر اپنا لوہا منوایا ہے۔ آپ نے وہ علمی تبحر حاصل کیا کہ اس زمانے میں پورے سندھ میں (ٹھٹھہ سے لیکر ملتان تک) آپ کے ہم پلہ کوئی عالم نہ تھا، مباحثہ و مناظرہ میں آپ کو وہ دسترس حاصل تھی کہ کوئی بھی آپ پر غلبہ حاصل نہیں کر سکتا تھا۔
(علامہ داؤد پوتہ: ابیات سندھی ، ۱۹۳۹ء)
حضرت مخدوم عبدالرحیم گرھوڑی علیہ الرحمۃ ابتدائی دور میں کسی عالم و ولی کو گھاس نہیں ڈالتے تھے، ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ آپ کے ایک فقیر کو ‘‘لواری شریف’’جاتے ہوئے دیکھ لیا اور اس سے آپ نے یہ فرمایا کہ اپنے مرشد (خواجہ محمد زمان سلطان الاولیاء) سے پوچھنا کہ معراج خاص حضور اکرام ﷺ کے ہی لیے تھا یا کوئی اور بھی سکتا ہے؟ وہ فقیر فنانی الشیخ کے مقام پر فائز تھا وہاں جا کر یہ پیغام پہنچانا بھول گیا جب رخصت ہونے لگا تو سلطان الاولیاء نے فرمایا کہ آپ کو میرے لیے راستے میں ایک پیغام ملا تھا جو آپ بھول گئے ہیں۔ اب عبدالرحیم کو جاکر ی کہنا کہ بغداد کا پل خاص تو خلیفہ وقت کے لیے بنایا گیا تھا جس پر کسی دوسرے کو گذرنے کی اجازت نہ تھی لیکن جب خلیفہ گذر گئے تو آج تک لوگ اس پر سے گذر رہے ہیں، اسی طرح معراج شریف بھی حضورﷺ کے ساتھ ہی مخصوص تھی لیکن اب آپ کے متبعین کو بھی یہ نصیب ہوسکتا ہے، اس جواب سے مخدوم عبدالرحیم از حد متاثر ہوکر ایک دم ‘‘لواری شریف’’ جاکر حضرت سلطان الاولیاء کے دست حق پرست پر بیعت کر کے مرید ہوگئے، حضرت موصوف نے تمام سلوک و تصوف کے منازل اپنے شیخ کامل کی عنایت و مہربانی سے طے کیے اور آپ نے وہ فیض حاصل کیا کہ جس پر شیخ کو بھی ناز تھا، حضرت مخدوم گرھوڑی اکثر طور پر یہ فرمایا کرتے تھے کہ مجھ کو اپنی ذات پر وہ فخر ناز تھا کہ شاید میرے جیسا تلاش کرنے کے باوجود بھی نہ ملے گا لیکن جب میں اپنے شیخ کے حضور حاضر ہوا تو میں نے اپنے آپ کو یوں محسوس کیا کہ جیسے کوئی جاہل ایک فاضل کے سامنے۔
(ڈاکٹر ھر چند گر بخشانی‘‘لواری جالال’’ پہلا ایڈیشن ص ۷۵)
مخدوم صاحب علیہ الرحمۃ نے جو کچھ اپنے شیخ کی شان میں فرمایا ہے وہ اس شعر سے عیاں ہوتا ہے۔
اے وجود ہر دو عالم شمس گیتی بے گماں
گاہ آدم گاہ احمد گہ بود محمد زماں
اے دونوں جہاں کے سورج اور دونوں جہاں کے وجود کبھی آدم، کبھی احمد اور کبھی احمد زماں ہیں۔
اپنے شیخ کی عنایت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
ڈکھٹان ڈٹھو چنڈ، اترتے عید تھی
جھڑیو پھڑیو جنڈ، گجے تھوگر ھوڑتے
اس شعر کا مطلب یہ ہے کہ لواری شریف، گر ھوڑی شریف کے جنوب میں ہے اس لیے مخدوم علیہ الرحمۃ کو (مرشد) چاند جنوب میں نظر آئے اور کہنے لگے کہ جنوب میں چاند نظر آیا تو شمال میں عید ہوئی او مرشد وہ بادل ہیں کہ بوندا باندی کرتے ہوئے گرجتے ہیں آکر ‘‘گرھوڑ’’ پر ۔
(خواجہ محمد سعید: نقال الضمائر مطبوعہ بمبئی ۱۲۹۸ھ ص ۹۶)
حضرت مخدوم عبدالر حیم علیہ الرحمۃ کا تعلق ‘‘قوم سے ہے، آپ کی ولادت ۱۱۵۲ھ میں ہوئی، آپ کے حالات مزید معلوم نہ ہوسکے۔ محترم ڈاکٹر نبی بخش بلوچ کی تحقیق کے مطابق اپ تھیو، کھپرو بستی ، ‘‘واڑ’’ میں پیدا ہوئے۔
(مقدمہ: شہید گرھوڑی کا سندھی کلام س ۷)
حضرت مخدوم عبد الرحیم علیہ الرحمۃ صاحب تصانیف بھی تھے، آپ کی تصانیف میں سے:
۱۔ میاں عبدالرحیم گرھوڑی کی سندھی
۲۔ سندھی صحیفا۔
۳۔ رسالہ گل نماء
۴۔ اور فتح الفصل مشہور ہیں۔
اور ان کے علاوہ آپ کی پیش گوئیاں بھی مشہور ہیں او جو آپ نےپیش گوئیاں فرمائی ہیں وہ سوفی صد صحیح ثابت ہوئی ہیں۔
حضرت مخدوم عبدالرحیم علیہ الرحمۃ کی شہادت کا واقعہ بڑا عجیب ہے۔ وہ اس طرح کہ اس زمانے میں خیر پور ریاست میں ہندوؤں کا ‘‘مہادیو’’ کے نام سے ایک بہت بڑا مندر تھا۔ اس مند کے سوامی او ر جادو گر اپنے کرشموں سے مسلمانوں کو اپنے مذہب سے ورغلا رہے تھے جب مخدوم صاحب نے یہ سنا آپ ان کے مقابلہ کے لیے روانہ ہوگئے ، وہاں پہنچتے ہی آپ نے ان کے خلاف جہاد کا اعلان کردیا۔ اللہ نے آپ کوظاہری و باطنی قوت سے فتح مبین عطا فرمائی۔لیکن چنددنوں کے بعد ‘‘لکھانو’’ نامی شخص جو گجو قوم سے تھا او ر ‘‘ستابو’’ نامی شخص جو چالیھا قوم سے تھا (اور یہ دونوں مسلمان ہونے کے باوجود بھی ان سوامیوں سے بے پناہ عقیدت رکھتے تھے) باادب آپ کی خدمت میں آئے اور اچانک آپ پر حملہ کردیا او آپ اسی موقعہ پر شہید ہوگئے۔ آپ کی شہادت ۱۱۹۲ھ /۱۷۷۸ء میں ہوئی ہے۔ آپ کی نعش کو ‘‘گر ھوڑ شریف ’’ اپنے اصلی گاؤں میں لا یا گیا اور وہیں آپ کودفن کیا گیا۔ ہر ماہ کی نوچندی پیرکو آپ کا عرس ہوتا ہے اور پورے سندھ و بیرون سندھ سے لوگ زیارتکے لیے آتے ہیں اور قلبی سکون حاصل کرتے ہیں۔
(شہید گرھوڑی جو سندھی کلام، ڈاکٹر نواز علی جتوئی ۱۹۸۳ء)
(تذکرہ اولیاءِ سندھ )