حضرت عبدالرحمٰن خواجہ مجددی ٹکھڑائی علیہ الرحمۃ
و۱۲۴۴ھ ف ۱۳۲۵ھ
خواجہ حضرت عبدالرحمٰن بن خواجہ عبدالقیوم مجددی قندھاری علیہ الرحمۃ ۱۲۲۴ قندھار افغانستان میں تولد ہوئے، تمام علوم و فنون قندھار کے مختلف اساتذہ کرام سے حاصل کیے اور نقشبندیہ طریقہ ، باطنی کمالات اپنے والد ماجد سے حاصل کیے،اپنے والد کی وفات ۱۲۷۱ھ کے بعد ان کی مسند پر فائز ہوئے۔
حضرت خواجہ علیہ الرحمۃ خلق محمدی کے پورے کے پورے مجسمہ اور کامل نمونہ تھے، تواضع ، توکل، صبر ، رضا ،خدمت خلق اور خدائی، رحم و سخاوت ، تقوی ، طہارت اور شریعت پر استقامت اور ان کے علاوہ کتنی خوبیوں کے مالک تھے۔
(تذکرہ مشایخ سندھ جلد دوم ص ۴۷)
پہلی مر تبہ اپنے پورے اہل خانہ کو لیکر ۱۲۹۷ھ میں قندھار سے حرمین شریفین (زادھما اللہ عظمۃ و وقارا) تشریف لے گئے، مکمل پانچ سال ارض مقدسہ میں رہے، حضرت خواجہ علیہ الرحمۃ کوکتابوں سے از حد شغف تھا اگر کہیں نایاب کتاب کا سنتے تھے تو فوراً وہاں پہنچ جاتے اس کو قیمتاً خرید لیتے یا اس کی نقل کروالیتے تھے، کتابوں کی حفاظت کا بے حد خیال رکھتے تھے ، اور مطالعہ اور کتب بینی کا بھی شغل ہر وقت جاری رہتا تھا۔ اپنے فرزندوں اور دوستوں کو بھی حصول علم کی نصیحت و ہدایت کرتے رہتے تھے۔
اپنا حال چھپانے کی بہت کوشش کیا کرتے تھے اگر کوئی مرید یا دوست رو برو یا بذریعہ خط آپ کی تعریف کرتا تو آپ اس پر سخت ناراض ہوتے تھے، اتنے بے شمار اوصاف کا حامل ایک انسان خدا کا دوست ۷۱ سال کی عمر میں ۲ذو القعدہ ۱۳۱۵ھ بروز جمعہ اس عالم فنا سے دار بقاء کی طرف کوچ فرما گیا ، آپ کے بڑے فرزند حضرت مولانا خواجہ حسن جان مجددی علیہ الرحمۃ نے آپ کی سوانح پر ایک مستقل کتا ب تصنیف فرمائی ہے، ‘‘انیس المریدین’’ کے نام سے جس میں آپ کی عادات ، اخلاق اور کرامات کا تفصیل سے ذکر ہے۔ آپ کی وفات پر بہت سے شعراء نے مرثیے لکھے ان میں سے حافظ اسد اللہ شاہ لکھڑائی نے جو آپ کی تاریخ وفات پر قطعات لکھے ہیں وہ بے نظیر ہیں۔
(علامہ شاہ آغا جان و حافظ محمد ہاشم جان کے پوتے ہیں مولف)
وھو ھذا
ھاحزن آن مطلع سرورفت از جہاں
عمر۷۱ ۱۳۱۵ھ
واولا ہائی رحلت کرو آن عین الیقین
عمر۷۱ ۱۳۱۵ھ
پاک امجد چار سازی مقتدائے عارفاں
عمر ۷۱ وفات ۱۳۱۵ھ
بوئے احمد سروناز مرشد ہر انس و جاں
عمر ۷۱ ۱۳۱۵ھ
آپ کا مزاج گنجو ٹکر کھتر سے جو ملا کا تیار راستہ جاتا ہے اس پر ٹکھڑ کے قریب واقع ہے۔ اور زیارت خاص و عام ہے۔
(تذکرہ اولیاءِ سندھ )