حضرت عبدالرحمٰن صاحب بھر چونڈوی
حضرت پیر عبدالرحمٰن بھر چونڈوی اس خانقاہ کے تیسرے شیخ تھے، عالم باعمل ولی کامل مجاہد اعظم تھے، آپ کی ولادت ۱۳۱۰ھ میں ہوئی مکتب کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد استاذ العماء سراج الفقہاء مفتی سراج احمد خانپوری کور آپ کی تعلیم کے لیے مقرر کیا گیا، نحو اور فقہ حنفی کی تعلیم انہی سے حاصل کی، جب مفتی صاحب واپس تشریف لے گئے تواتفا قاً حضرت مولانا عبدالکریم ساکن میانوالی (پنجاب) ضلع ہزارہ کے ایک مدرسہ سے اپنی تعلیم مکمل کر کے سیاحت کرتے ہوئے بھر چونڈی آئے، حضرت کے والد شیخ ثانی سفر پر تھے مگر صاحبزادہ صاحب کے ذوق علمی کا یہ عالم تھا کہ آپ نے عالم مذکور کو بھر چونڈی میں قیام پر راضی کرلیا اور اس سے بیضاوی شریف اور منطق کی بعض کتب شروع کردیں، جب شیخ ثانی واپس تشریف لائےتو عالم مذکور آپ سے بہت مانوس ہوئے، اور آپ کے ہاتھ پر بیعت کر کے وہیں رہ پڑے، چالیس سال یہ عالم اپنے شاگرد کے پاس رہے، مگر استاذ نے ہمیشہ اپنے شاگرد کو شیخ سمجھا اور شاگرد نے اپنے استاذ کو تمام عمر استاذ ہی سمجھا، آپ نہایت ہی سادہ زندگی گذارتے تھے، جاہ جلال سے سخت نفرت تھی۔
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
سیاسی جلسوں کے اسٹیجوں پر بھی ذکر و مرا قبے کی تلقین جاری رہتی تھی، نماز باجماعت کے ایسے پابند تھے کہ وہ شاید ہی بلا غذر شرعی کسی جماعت میں حکمت و موغطت کا پہلو کبھی ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے ایک مرتبہ غالباً کراچی سے بذریعہ ریل واپس تشریف لا رہے تھے ایک عورت تقریباً نیم عریاں مغربی لباس میں ڈبہ میں داخل ہوئی آپ نے نہایت سادہ مگر پر تاثیر انداز میں عریانیت کی برائیاس کے سامنے بیان کی اور اسلام میں عورت کا مقام بیان فرمایا پھر اپنا رومال عطا فرمایا کہ جس م کے برہنہ حصوں کے اس سے چھپالے روہڑی کے اسٹیشن پراتری تو حضرت کا رومال بستر کے ساتھ لے گئی اورعریانت سے ہمیشہ کے لیے تائب ہوگئی۔
اذان کے دوران گفتگو یا کسی کام میں مشغولیت کو سخت نا پسند فرماتے تھے کہ دعوت خداوندی کی تحقیر ہے، حکم یہ تھا کہ سونے والا جاگ جائے، چلنے والا ٹھہر جائے، ننگے سر والا سر کو ڈھانپ لے کھانے والا ہاتھ روک لے اور ہر شخص اذان کا جوا مسنون طریقے کے مطابق دے، تقبیل ابہامین کو مستحب گردانتے تھے ایک مرتبہ حضرت علامہ عبدالغفور ہزاروی نے چندہ کا اعلان کیا کسی نے سو دئیے کسی نے دو سو ، حضرت نے ایک روپیہ دیا، اس کا بھی حسب دستور اعلان ہوا، مگر آپ نے کسی قسم کی سبکی محسوس نہ فرمائی، جب جلسہ تین دن بعد ختم ہوا توحضرت غزالی زماں علامہ سید احمد سعید شاہ صاحب کاظمی سے اجازت چاہی اور مدرسہ کے لیے ہزار روپیہ عطا فرمایا، وہ جلوت کا چندہ تھا اور یہ خلوت کا۔
(عبدالرحمٰن ص ۱۵۴)
بارہ ربیع الاول شریف یعنی عید میلاد النبی ﷺ کے موقعہ پر بہت اہتمام فرماتے اپنے والد ماجد حضرت شیخ ثانی قدس سرہ کو معہ جماعت دعوت دیکر گھر پر لیجاتے تھے، کھانے سے پہلے تمام جماعت کے ہاتھ خود دھلاتے تھے خوبصورت برتنوں میں قسم قسم کے کھانے جماعت کو کھلاتے اور بڑی مسرت کا اظہار فرماتے تھے، ملکی معاملات میں اجتماعی کوششوں کے لیے جماعت اسلام قائم فرمائی اس جماعت نے سندھ کے مختلف علاقوں میں بڑی کامیاب کانفرنسیں منعقد کیں ، جماعت کی طرف سے ایک اخبار ‘‘الجماعۃ’’مولوی صدر الدین شاہ صاحب کی زیر ادارت نکالا گیا یہ شکار پور سندھ سے نکلتا تھا، اس کے لیے اپنا پریس خریدا گیا، صوبہ سندھ میں کانفرنس کا زور تھا، ابھی مسلم لیگ سیٹھ عبداللہ ہارون کے دفتر تک ہی محدود تھی مسلم لیگ کو صوبہ میں متعارف کھڑا کرانے کے لیے مولانا عبدالحامد بدایونی رحمۃ اللہ علیہ سیٹھ عبداللہ ہارون، اور خان بہادر کھڑا نے ایک عظیم الشان جلسہ کیا جس میں حضرت صاحب ، قائد اعظم محمد علی جناح، نواب زادہ لیاقت علی خان، نواب زادہ اسماعیل خان اور اسی قبیل کے بہت سے اکابر تھے اسی جلسہ کے بعد سندھ میں مسلم لیگ کا چرچہ ہوا ، اسمبلی کے آٹھ ممبران مسلم لیگ میں شامل ہوئے انہی سےپانچ ممبر حضرت صاحب کے کامیاب کرائے ہوئے تھے جو آپ کے حکم پر مسلم لیگ میں شامل ہوئے بعد میں اپنے مشائخ کوا یک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کے لیے حیدر آباد میں اجتماع کیا، جس کے نتیجہ میں سرہندی حضرات بھی مسلم لیگ کے ہمنوا ہوئے، پھر مسلم لیگ کی حمایت میں حضرت صاحب نے مسلسل جلسے منعقد کرائے جن میں غزالی زماں علامہ سید احمد سعید کاظمی صاحب اور پیر مغفور القادری وغیرہ تقریر کرتے تھے۔
بنارس کے کنیز فاطمہ باغ میں جب۲۷/ اپریل/۱۹۴۶ء کو آل انڈیا مسلم سنی کانفرنس منعقد ہوئی تو اس میں شرکت کے لیے حضرت سندھ سے پہنچے ، اس تاریخی کانفرنس میں مفتقہ طور پر یہ قرار داد منظور کی گئی کہ آل انڈیا سنی کانفرنس کایہ اجلاس مطالبہ پاکستان کی پر زور حمایت کرتا ہے اور اعلان کرتا ہے کہ علماء و مشائخ اہل سنت اسلامی حکومت کے قیام کی تحریک کو کامیاب بنانے کے یلے ہر امکانی قربانی کے لیے تیار ہیں اور اپنا فرض سمجھتے ہیں کہ ایک ایسی حکومت قائم کریں جو قرآن اورحدیث نبویہ کی روشنی میں فقہی اصولوں کے مطابق ہو۔
(خطبہ صدارت آل انڈیا سنی کانفرنس بنارس۲۹)
اسلامی حکومت لائحہ عمل تیار کرنے والی جو کمیٹی تیار کی گئی اس میں پیر خواجہ عبدالرحمٰن بھرچونڈوی شریف سند ھ کانام شامل تھا۔ سکھر میں مسجد منزل گاہ کے واگذار کرانے کے سلسلہ میں حضرت کی مساعی تاریخ کا حصہ ہیں اسی قصہ میں آپ کوکراچی کی سنٹرل جیل میں چھ سات ماہ تک مقید رکھا گیا۔ یہاں بھی تبلیغ اسلام کا سلسلہ جاری رہا ڈاکو چور اچکے بدمعاش اپ کے دست حق پرست پر تائب ہونے لگے۔
(عبدالرحمٰن ص ۱۸۴)
۹/جمادی الاول/۱۳۸۰ھ مطابق ۳۰/اکتوبر/ ۱۹۶۰ء اآپ نے وفات پائی اور بھر چونڈوی میں مدفون ہوئے، آپ کے آٹھ صاحبزادوں میں سے بڑے صاحبزادے سجادہ نشین ہیں۔
(تذکرہ اولیاءِ سندھ )