حضرت شیخ عبد اللہ غرجستانی علیہ الرحمۃ
آپ شیخ رکن الدین علاؤ الدولہ کے مریدوں میں سے ہیں۔خرجستان کے دیہات میں ایک گاؤں کے رہنے والے ہیں۔آپ چھوٹے تھے کہ جب آپ کے والد فوت ہوچکے تھے۔ان کی والدہ نے دوسرے شخص سے نکاح کرلیاتھا۔ایک دن کچھ اس شخص سے ایسا امر ہو ۔۔۔۔
حضرت شیخ عبد اللہ غرجستانی علیہ الرحمۃ
آپ شیخ رکن الدین علاؤ الدولہ کے مریدوں میں سے ہیں۔خرجستان کے دیہات میں ایک گاؤں کے رہنے والے ہیں۔آپ چھوٹے تھے کہ جب آپ کے والد فوت ہوچکے تھے۔ان کی والدہ نے دوسرے شخص سے نکاح کرلیاتھا۔ایک دن کچھ اس شخص سے ایسا امر ہو گیاکہ اس نے کو وہم ہوگیا۔بھاگ کر گاؤں سے بار نکل آئے۔ان اطراف میں ایک بڑا درخت تھا،اس کے نیچے ایک پانی کا چشمہ تھا۔اس درخت پر چرھ کر اس کی شاخوں اور پتوں میں چھپ گئے۔اتفاقاً درویشوں کی ایک جماعت نے وہاں پر ڈیرہ کیا۔جب پانی کے چشمہ میں اس کا عکس دیکھا ،تو انہیں درخت سے اتار لیا،اور اپنے ساتھ لے گئے،ان کا گزر سمنان کی طرف ہوا۔شیخ کی خدمت میں سب گئے،اور اس کو بھی ہمراہ لے گئے ۔جب شیخ کی نگاہ اس پر پڑی۔فراست کے نور سے اس میں طریقت کے درس میں پوری قابلیت پائی۔جب درویش سفر کو چلے اپنے درویش بھیج کر اس کو واپس کرالیا۔ان درویشوں نے بہت ہی اضطراب کیا۔حتیٰ کہ حاکم وقت تک رجوع کیا ،مگر چونکہ شیخ کی حقانیت سب پر ظاہر تھی۔اس سے کچھ فائدہ نہ ہوا۔پس حضرت شیخ اس کی تربیت میں مشغول ہوئے۔شیخ کی عمدہ توجہ سے مقامات عالیہ تک پہنچ گئے۔جس قدر التفات و توجہ شیخ کو اس کے حال پر تھی۔معلوم نہیں کہ کسی اور ایسی ہوئی ہو۔چنانچہ ان رباعیوں سے کہ اس کو خطاب کر کہ کہی ہیں۔ظاہر ہوتا ہے،جب تکمیل وارشاد طالبین کے مرتبہ تک پہنچ گئے،تو ولایت طوس ان کے حوالہ ہوئی۔پھر وہ وہاں آکر طالبین کے ارشاد میں مشغول ہوئے۔بادشاہ وقت نے ان سے التماس کی کہ اس کے ساتھ بعض لڑائی میں کہ دشمنوں کو اس سے اتفاق پڑا تھا،ہمراہ رہیں۔آپ اس کے ہمراہ ہوگئے،اور اسی لڑائی میں شہادت کا مرتبہ حاصل کیا۔آپ کے جسم مبارک کو طوس میں لے گئے ۔آپ کا مزار وہاں ہے۔
(نفحاتُ الاُنس)