حضرت عبداللہ محمد بن ابراہیم قریشی بغدادی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
شیخ ابو عبداللہ محمد ؑ بن ابراہیم القریشی الہاشمی علیہ الرحمۃ
آپ امام العارفین ،دلیل الساکین ، صاحب احوال فاخرہ اور کرامات میں روشن ہیں۔آپ فرماتے ہیں۔العالم من نطق عن سرک واطلع علی عواقب امرک یعنی دراصل عالم وہ ہے کہ و تیرے دل کی باتیں کرے اور تیرے انجام پر مطلع ہو۔وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ایک دن منا میں تھا۔کہیں مجھے پانی نہ ملا اور میرے پاس کچھ بھی نہ تھاکہ جس سے پانی مول لوں۔میں جارہا تھا کہ کہیں کنواں ملے،جس سے پانی پئیوں ۔آخر میں ایک کنواں پایا۔جس پر عجمی لوگ جمع ہورہے تھےاور پانی کھینچتے تھے۔میں نے ان میں سے ایک شخص سے کہا کہ قدرے پانی اس لوٹا میں ڈال دو۔مجھ کو مارا اور لوٹے کو میرے ہاتھ سے چھین لیااور پھینک دیا۔یہاں تک کہ میں نے لے لیا اور بہت شکتہ خاطر ہوا۔میں نے دیکھا کہ چوبچہ میں میٹھا پانی ہے۔اس میں سے میں نے پانی لیا اور پیا۔مین نے لوٹے کو پانی سے بھر لیا اور دوستوں کے پاس لایا۔انہوں نے بھی اس سے پیا۔میں نے یہ قصہ ان سے بیان کیا۔یہ سب وہاں گئے۔تاکہ اس سے پانی لیں۔جب پھر گئے تو وہاں نہ پانی تھااور نہ اس اک کچھ اثر تھا۔میں نے یہ جانا کہ یہ خدا کی نشانیوں میں سے کوئی نشانی تھی۔وعن الشیخ بن الکسائی قال مرالشیخ ابو عبیداللہ علیہ الرحمۃ فی بعض قری مصرومعہ جماعہ من اصحابہ فو
جدواالقریۃ عامرۃ بالبیوت والبساتین ولم یروابھا احد افسئال الشیخ عن سبب خلوھا فقیل لہ انھا مشہورۃ بمسکن الجن ومن سکنھامن الناس اذوہ اذی قطیعا وقد تفرق اھلھا فی القری فقال الشیخ لبعض الفقراء نادیا علی صوتک فی ارجاء القریہ معاشرہ الجان قدامرکم القرشی ان تر تحلوا عن ھذہ القریۃ ثم لا تعودو الیھا ولا توذواو احد من اھلھا اینما کانواومن خالف منکم ھلک فقال الرجل ینادی والفقراء یسمعون من القریۃ جائتہ مرحال فقال الشیخ ارتحلواولم یبق منھم عنھااحد فتسامع اھل ھذا القریہ وجاؤ ھاو عمرت بالناس ولم یتازا حدمنھم من الجان بعد ذالک ومن کلامہ مافی الوجوداعز من الاخ فااللہ فاذاظفرت بہ فاشدد یدک علیہ ومن لم یحفظ الادب ادرکہ العطب ومن لم یصحب الفقراء بالادب حرم برکتم ومن اعظم النقم ورودالنقص علی العھد وھولایشعرمن لکم یکن فی قلبہ شاھدایستحیی منہ فی حرکاتہ لہ لم یتم لہ امرا یعنی شیخ ابن کسائی سے منقول ہے کہ شیخ ابو عبداللہ علیہ الرحمۃ مصر کے ایک گاؤں میں گئے اور ان کے ساتھ فقراء کی ایک جماعت تھی۔اس گاؤں کو گھروں اور باغوں سے تو آباد پایا،لیکن اس میں کوئی آدمی نہ تھا۔تب شیخ نے اس کے خالی رہنے کی بابت پوچھا تو آپ سے کہا گیاکہ یہ گاؤں جنوں کی جگہ مشہور ہےاور جو لوگ اس میں رہتے تھے۔ان کو بہت ستایا کرتے تھے۔اس لیے وہ گاؤں چھوڑ کر نکل گئےہیں۔تب شیخ نے اپنے ایک فقیر سے کہا کہ تم گاؤں کے اطراف میں پکار کر کہہ دو۔اے جنوں تم کو فرشی حکم دیتا ہے کہ اس گاؤں سے نکل جاؤ۔پھر کبھی یہاں نہ آنا اور یہاں کے کسی آدمی کو کہیں بھی ہو تکلیف نہ دینا۔جو تم سے ان کی مخالفت کرے گا۔ہلاک ہوگا۔وہ شخص پکارتا تھا اور فقراء سن رہے تھے۔شیخ نے کہا اب وہ چلے گئے ہیں اور ان میں سے کوئی بھی باقی نہیں رہا۔اس گاؤں والوں نے یہ واقعہ سنا تو سب آکر آباد ہوگئےاور جنوں سے پھر کسی نے بھی تکلیف نہ اٹھائی۔آپ کا یہ کلام ہے کہ وجود میں خدائی بھائی سے بڑھ کر کوئی عریز نہیں۔سو جب تو اس پر قابو پائےتو اس کو مضبوطی سے پکڑلے۔جو شخص کے ادب کی حفاظت نہیں کرتا۔وہ ہلاک ہوجاتا ہےاور جو شخص فقراء کا ادب نہیں کرتا۔ان کی برکت سے محروم رہتا ہے۔بہت بڑا گناہ و غضب الہٰی یہ ہے کہ عہدکا نقص ہو اور اس کو خبر نہ ہو۔جس کے دل میں ایسا شاہد نہیں۔جس سے وہ حیا کرے تو اس کا کام پورا نہ ہوگا۔آپ ۵۹۹ھ میں فوت ہوئے۔
(نفحاتُ الاُنس)