حضرت ابو عبداللہ خاقان صوفی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
آپ بغداد کے کبار مشائخ میں سے تھے۔ بڑے صاحبِ کرامات اور صاحب مقامات جلیلہ تھے۔ ابن قصاب رازی فرماتے ہیں کہ میرا والد بغداد کے بڑے بازار میں دکانداری کرتے تھے۔ میں اگرچہ نو عمر تھا تاہم بعض اوقات دکان پر بیٹھا کرتا تھا۔ ایک دن میں دکان پر بیٹھا تھا ۔۔۔۔
حضرت ابو عبداللہ خاقان صوفی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
آپ بغداد کے کبار مشائخ میں سے تھے۔ بڑے صاحبِ کرامات اور صاحب مقامات جلیلہ تھے۔ ابن قصاب رازی فرماتے ہیں کہ میرا والد بغداد کے بڑے بازار میں دکانداری کرتے تھے۔ میں اگرچہ نو عمر تھا تاہم بعض اوقات دکان پر بیٹھا کرتا تھا۔ ایک دن میں دکان پر بیٹھا تھا کہ ایک شخص فقیرانہ لباس میں بازار سے گزرا، میں اس کے پیچھے گیا اور نہایت ادب سے سلام کیا۔ میرے پاس ایک دینار تھا، پیش کیا اس نے دینار لیا اور اپنی راہ لی میرے دل میں خیال آیا کہ میں نے دینار خواہ مخواہ ضائع کیا میں اسی خیال میں اس کے پیچھے پیچھے چلتا رہا وہ مسجد شویزیہ میں داخل ہونے لگا دروازے پر تین اور فقیر بیٹھے تھے۔ اس نے وہ دینار انہیں دے دیا اور خود نماز میں مشغول ہوگیا ان تینوں میں سے ایک نے دینار لیا اور بازار کی طرف چلا گیا۔ اب میں اس فقیر کے پیچھے پیچھے ہو لیا۔ اس نے اس دینار سے تینوں کے لیے کھانا خریدا اور واپس آکر سامنے رکھ کر کھانے لگے لیکن ابھی تک وہ شخص نماز میں ہی مشغول تھا وہ کھانے سے فارغ ہوئے تو وہ بھی نماز سے فارغ ہوگیا۔ اس نے انہیں کہا تمہیں معلوم ہے میں تمہارے کھانے میں کیوں شریک نہیں ہوا تھا۔ دراصل یہ دینار مجھے ایک بچے نے دیا تھا میں نماز کے دوران اس بچے کے لیے دعا مانگ رہا تھا اے اللہ اس بچے کو غلامی سے محفوظ رکھنا اب میری دعا قبول ہوئی ہے تو میں آیا ہوں، اس دن سے تمام دنیا کی دولت میری نظروں میں بے وقعت ہوگئی۔ یہ اس بزرگ کی دعا کا نتیجہ ہے یہ دعا کرنے والے بزرگ شیخ ابو عبداللہ خاقانی تھے۔
آپ کی وفات ۲۷۹ھ میں ہوئی۔
شیخ عبداللہ خاقانی ولی شد وصالش اہل دل قطب زماں ۲۷۹
|
|
رفت از دنیا چو در خلد بریں ہم بخواں ہادی حق مطولب دین ۲۷۹
|
(خزینۃ الاصفیاء)