حضرت ابو عبد اللہ مختار بن محمد بن احمد ہروی علیہ الرحمۃ العزیز
آپ ہرات کے بزرگ مشائخ ہیں۔ علم ظاہرو باطن کے جامع تھے۔صاحب کرامات و ولایات تھے کہتے ہیں کہ ان کی قبر کی لوح پر ایسا لکھا ہوا پایا گیا ہے کہ ۲۹۷ ھ میں فوت ہوئے ہیں۔وہ فرماتے ہیں کھانا ایسا کھا کہ تو اس کو کھائے نہ یہ کہ وہ تجھے کھائے۔اگر تو اس کو کھائے گا تووہ تمام نوور ہوجائے گا تو سب دھواں بنے گا۔کپڑا ایسا پہن کہ رعونت فخر تکبر کو تیرے وجود میں جلادےنہ یہ کہ آگ ان بیماریو ں کو بھڑکادے۔وہ یہ بھی کہتے ہیں ہر کام میں کہ کرے ایسا ہو کہ اگر عزرائیل تجھ کو پائے تو اس کام سے اورکام کی طرف نہ ہونا پڑے اور اس کام میں تیرے تمام حالات تیرے ساتھ ہوں۔اگر چہ کھانا کھانا ہویا مباح عمل ہو جو کہ باطن خالصا" اللہ ہو اور تیری نیت اس میں حق سبحانہ تعالٰی کی رغا اور شرع کی محافظت ہو۔
وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اصل عبو دیت یہ ہے کہ تو بظاہر ایسا ہو کہ تجھ اے تمام باتیں ظاہری شریعت ھے مطابق ہوں اور باطن میں ایسا ہو کہ تجھ میں غیر کی یاد کی گنجائش نہ ہو۔آپ کے یار بہت تھے۔ سب صاحب ولایت و کرامت تھے۔جیسے ابو العلی بن مختار علوی حسینی ؓ ان سے بہت سی کرامات اور بے شمار خرق عادات منقول ہیں۔وہ بڑےمشہور امام ہیں۔ ان کی قبر ابو عبد اللہ ختار کے پاؤں کے نیچے کی طرف ہےاور وہ فقیہ ابو عثمان مرغری رحمتہ اللہ کے مثل تھے۔ نہایت شوق اور سوختگی کی وجہ سے ان کا نام شوق سوختہ رکھا گیا۔ان کے عجیب و غریب واقعات ہیں۔کہتے ہیں کہ جس روز امام کی ہرات میں وفات ہوئی وہ ہرات میں نہ تھے۔وہ مردالرور (یعنی مرغاب) میں تھے۔ان کو وہاں پرباطن میں بڑی مصیبت پڑی۔چناچہ بے طاقت ہو گئے۔ہرات میں آئے لوگوں نے کہا اسی وقت سید امام نے وفات پائی تھی۔ان کا اضطراب اسی وجہ سے تھا جب شوق سوختہ نے وفات پائی ان کو قبرستان چنانچہ باد میں عبد اللہ الواحد میں مسلم کے پاؤں کے بہت نیچے دفن کیا گیا۔
(نفحاتُ الاُنس)