حضرت شیخ ابو ذر ابوزجانی علیہ الرحمۃ
شیخ الاسلام کہتےہیں کہمیں نے ایک شخص کو دیکھا ہے کہ جس نے بوذربوزجانی کو دیکھا صیاد گور گیر کہتے ہیں کہ بونر جان میںمجھے بڑی تکلیف پہنچی تھی میں نے بہت ہی طلب کیا تب جا کر ان کو پایا میں نے بوذر کو دیکھا کہ وہ کرامات ظاہرہ والے ہیں ۔کہتے ہیں کہ بوذر جان میں ایک م ۔۔۔۔
حضرت شیخ ابو ذر ابوزجانی علیہ الرحمۃ
شیخ الاسلام کہتےہیں کہمیں نے ایک شخص کو دیکھا ہے کہ جس نے بوذربوزجانی کو دیکھا صیاد گور گیر کہتے ہیں کہ بونر جان میںمجھے بڑی تکلیف پہنچی تھی میں نے بہت ہی طلب کیا تب جا کر ان کو پایا میں نے بوذر کو دیکھا کہ وہ کرامات ظاہرہ والے ہیں ۔کہتے ہیں کہ بوذر جان میں ایک مدرسہ تھا جس میں کہ شیخ ابو ذر وہاں کے رہنے والوں کو اولیاء کہتے تھے۔ ایک دن اس مدرسہ کے دروازہ پر سوتے تھے۔مدرسہ کا چپڑاسی آیا کہنے لگا کہ آج طلباء کو کھانا نہیں ملا۔اس مدرسہ میں ایک توت کا درخت تھا۔ چپڑاسی سے کہا کہ جااس درخت کو جھاڑ۔چپڑاسی نے اس درخت کو جھاڑا جو پتھر جھڑا وہ خالص سونا تھے اور شیخ کے سامنے لایا۔کہا کہ جاؤ ان کے لیے کھانا خرید لاؤ۔ایک دن سبکتگین سلطان محمود کا باپ جس کی وفات ۳۸۷ ھ میں ہوئی ہے آپ کی زیارت کو آیا۔آپ نے اس کوسخت نصیحتیں فرمائیں۔ سلطان محمود ابھی بچہ تھا۔
اس کو شیخ کے سامنے لائے۔شیخ نے بڑی مہربانی کی اور اپنی گود میں بٹھلایا۔آپ کے اشعار میں سےیہ شعر ہے۔
لعرفنا من کان من حسبنا وسائرالناس لنا منکرون
یعنی البتہ ہم کو وہ لوگ پہچانتے ہیں جو کہ ہمارے حسب کے ہیں لیکن عام لوگ ہمارے منکر ہیں اور یہ بھی ان ے اشعار میں سے ہیں۔
تو بعلم ازل مرا دیدی دیدی آنگہ بعیب بحزیدی
تو بعلم آن و من بعیب ہماں رومکن آنچہخود پسندیدی
(نفحاتُ الاُنس)