حضرت شیخ ابو المغیث جمیل یمنی علیہ الرحمۃ
آپ بڑے عالی مقامات،عمدہ حالات اور کرامات والے تھے۔شروع میں ڈاکو تھے۔ایک قافلہ کے گھاٹ میں بیٹھے ہوئے تھے۔دفعتہً سنا کہ کوئی غیب سے کہتا ہے۔یاصاحب العین علیک عینی یعنی اے شخص جس کی آنکھ قافلہ پر ہے۔تجھ پر میری آنکھ لگی ہوئی ہے۔ان میں اس ابت نے پورا اثر کیا ۔جو کچھ ان کے پاس مال و اسباب تھا۔سب سے علیحدہ ہوگئےاور خدائے تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوگئےاور توبہ رجوع خدا کی طرف کرلیا۔شیخ ابن الد قلح کی صحبت میں پہنچے۔ان کا نفس پاکیزہ اور دل روشن ہوگیا۔ان سے خوارق عادات ظہور پانے لگے۔کہتے ہیں کہ ایک دن اس ارادہ سے جنگل کو نکلے کہ لکڑیاں لائیں۔دراز گوش کو اپنے ساتھ لیا۔اس درمیان میں کہ ایک جنگل میں لکڑیاں جمع کرتے تھے۔ان کے دراز گوش کو شیر نے پھاڑ دیا۔جب لکڑیاں لائے کہ اس کو لادیں۔دیکھا کہ ان کے دراز گوش کو شیر نے پھاڑ لیا ہے۔تب شیر کی طرف متوجہ ہوئے کہ میرے درازگوش کو تم نے پھاڑ لیا۔اب میں اپنی لکڑیاں کس پر لادوں گا۔مجھے خدا کی قسم ہے کہ ان کو تمہاری پشت پر ہی لادوں گا۔پس لکڑیاں کو جمع کیا اور شیر کی پیٹ پر لاد لیااور اس کو چلاتے تھے۔یہاں تک کہ شیر کے پاس پہنچادیں۔لکڑیاں اس سے لے لیں اور کہا،اب جہاں چاہے چلا جا۔ایک دن ان کے گھر والوں نےان سے قدر عطر طلب کیا۔بازار میں گئے کہ خریدیں۔ایک عطار کے پاس گئے اور اس سے بارے میں بات کی۔عطار نے کہا،میری دکان میں کوئی عطر نہیں ہے۔اسی وقت جو عطر اس کی دکان میں تھا،سب نابود ہوگیا۔عطار ان کے شیخ شیخ ابن الد فلح کے پاس آیا اور ان کی شکایت کی۔شیخ نے ان کو بلایا اور اس سبب سے کہ کرامت کا اظہار کیاتھا۔ان کو بہت کچھ ڈانٹا اور کہا کہ دو تلواریں ایک میان میں نہیں سما سکتیں۔تم میری صحبت سے دور ہو۔ہر چند ابوالمغیث نے منت عاجزی کی قبول نہ کیااور اس کی صحبت سے انکار کیا۔ابوالمغیث چلے گئےاور دوسرے شیخ کی طلب کرتے تھےکہ ان کی صحبت سے فائدہ حاصل کرے۔جس شیخ کے پاس جاتے وہ یہی کہتاکہ تم کو یہی کافی ہے۔تم شیخ کے محتاج نہیں ہو۔یہاں تک شیخ کبیر علی اہدل کی صحبت میں پہنچے۔شیخ نےان کو قبول کیا اور ابوالمغیث کہتے ہیں کہ جب میں ان کی صحبت میں پہنچا تو میں گویا قطرہ تھا،جو دریا میں جاپڑا۔یمن کے بادشاہ نے ان کےخادم کو مارڈالا۔جب ان کو خبر پہنچی تو خفا ہوئےاور کہا،مالی والحر استہ انا انزل عن الشباب واترک الزرع یعنی مجھے کیا ہوا کہ میں حفاظت کروں ۔میں پاسبانی سے علیحدہ ہوتا ہوں اور کھیتی کو چھوڑدیتا ہوں۔جب یہ کہا۔اسی وقت بادشاہ مارا گیا۔ایک دن فقراہ نے کہا کہ ہمیں گوشت کھانے کی خواہش ہے۔کہا،فلاں دن بازار کا دن ہے۔اس روزگوشت کھاؤگے،جب وہ دن آیا۔یہ خبر ملی کہ ڈاکوؤں نے قافلہ کو لوٹا ہے۔جب ایک گھڑی ہوچکی۔ایک ڈاکو آیا اور شیخ کے لیے گائے لایا۔شیخ نے فقراہ سے کہا کہ اس گائے کو ذبح کرو اور پکاؤ،لیکن اس کا سر جیسا ہے،ویسا رہنے دو۔اس کے بعد ایک اور شخص آیا اور ایک گیہوں کی بوری لایا۔شیخ نے کہا،اس کو پیسو اور روٹی پکاؤ۔جو کچھ شیخ نے فرمایا،کیا اس کے بعد شیخ نے فقراہ سے کہا،کھاؤ۔فقہاء کی ایک جماعت حاضر تھی۔ان سے بھی کہا گیا کہ دسترخوان پر آؤ۔وہ نہ آئے۔شیخ نے فقراہ سے کہا،تم کھاؤ۔کیونکہ فقہاء حرام نہیں کھایا کرتے۔جب فقراہ کھانے سے فارغ ہوئے تو اتفاقاً ایک شیخ شیخ کے پاس آیااور کہا،اے شیخ میں نے ایک گائے آپ کے فقراہ کے نذر کی تھی،لیکن ڈاکوؤں نے راستہ میں لوٹ لیا۔شیخ نے کہا کہ اگر اپنی گائے کے سر کو دیکھو گے تو پہچان لوگے؟اس نے کہا کہ ہاں۔شیخ نے فرمایا کہ گائے کی سری لاؤ۔جب لائے تو اس نے کہا کہ یہی میری گائے کی سری ہے۔اس کے بعد دوسرا شخص آیا اور کہا ،اے شیخ میں نے ایک بوری گیہوں کی شیخ فقراہ کی نذر کی تھی،لیکن ڈاکوؤں نے لوٹ لی۔آپ نے فرمایاکہ فقراہ کی نذر فقراہ کو پہنچ گئی۔جب فقہاء نے اس کو مشاہدہ کیا تو فقراہ کی موافقت کے ترک پر پشیمان ہوئے۔آپ ۶۵۱ھ میں فوت ہوئے۔
(نفحاتُ الاُنس)