حضرت ابوالحارث اولاسی رحمۃ اللہ علیہ
انکا نام فیض بن الخضر ہے سعد علوی ؒ کے شاگرد ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ ابتداء میں ابراھیم سعد کو میرا دیکھنا اس وجہ سے تھا کہ میں حج کے موسم کے بغیر اولاس سے مکہ معظمہ کے ارادے سےنکلا۔راستے میں مجھے تین شخص ملے میں نے کہا میں بھی تمہارے ہمراہ چلتا ہوں۔ان میں سے دو شخص تو جدا ہوگئے اور پھر میں رہا اور ایک اور شخص وہ ابراھیم سعد علوی شریف حسنی تھے۔مجھ سے کہنے لگے تم کہاں جاتے ہو میں نے کہا شام کو ۔انہوں نے کہا میں کوہ لگام کو جاتا ہوں اس کے بعدہم جدا ہوگئے۔لیکن ہمیشہ انکے خط مجھ کو آیا کرتے اور یہ بھی ابوالحارث کہتے ہیں کہ ایک دن ابراھیم بن سعد علوی کے ساتھ کوہ لگام سے آرہا تھا ۔ایک سپاہی نےایک عورت کے دراز گوشت کو پکڑا ہوا تھااس عورت نے ہم سے فریاد کی ابراھیم نے اس سپاہی سے کہا مگر اس نے قبو ل نہ کیا انہوں نے بد دعا کی وہ سپاہی اور عورت دونوں گر پڑے ۔بعد ازاں عورت تو کھڑی ہوگئی سپاہی مرگیا ۔میں نے کہا میں پھر تمہارا ساتھ نہ کروں گاکیونکہ تم مستجاب الدعواۃ ہو ۔میں ڈرتا ہوں کہ کہیں مجھ سے کوئی بے ادبی نہ ہوجائےاور تم بد دعا کرو۔کہا کہ تم اس سے بے خوف نہیں ہو میں نے کہ نہیں۔پھر وصیت کی اور کہا کہ جہاں تک ہوسکےدنیا کی تھڑی چیز پر قناعت کرو اور یہ بھی کہا کہ میں ایک دن اولاس میں بیٹھا ہوا تھا۔میرا دل کہیں باہر جانے کو چاہتا تھا میں باہر نکلا اور دیکھا کہ ایک شخص درختوں میں نماز پڑھتا ہے۔مجھے اس سے ڈر لگا جب اچھی طرح دیکھا تو ابراھیم سعد تھے۔انہوں نے نماز مختصر کی اور سلام دیا اور سمندر کے کنارہ پر آیا اور پانی کو ہلایا ۔بہت سی مچھلیاں ان کے سامنے قطار باندھ کر انکے سامنے آگئیں۔میرے دل میں گزرا کہ شکاری کہا ہے یہ سن کر سب بھاگ گیئں۔پھر انہوں نے کہا کہ اے ابوالحارث تو اس کام کا مرد نہیں۔تجھے چاہیئے کہ اس ریگستان سے چھپ جائے اور دنیا سے تھوڑی چیز پر قناعت کرے۔یہاں تک کہ تیری اجل آپہنچے یہ کہہ غائب ہوگیاپھر میں نے اسکو نہیں دیکھا اور ابو الحارث یہ بھی کہتے ہیں کہ میں نے ذوالنون کی شہرت سنی تو چند مسئلوں کے لیے انکی زیارت کا ارادہ کرلیا ۔جب میں مصر میں پہنچا تو لوگوں نے کہا کہ وہ تو کل انتقال کر چکے۔میں انکی قبر پر گیا انکی نماز جنازہ پڑھی اور وہیں بیٹھ گیا ،مجھے نیند آگئی۔انکو خواب میں دیکھا اور جو کچھ مشکل مسئلے مجھے پیش آئے تھےاس کی بابت پوچھا ۔انہوں نے سب کا جواب دیا۔
(نفحاتُ الاُنس)