حضرت ابو الحسن تجار علیہ الرحمۃ
شیخ الاسلام کہتےہیں کہ وہ قہندس میں بڑھئی کا کام کرتے تھے ۔ مرد با رعب اور بزرگ تھے۔ کوئی ان کو پہچانتا نہ تھا ۔ایک دفعہ مکہ معظمہ میں ان کو دیکھا گیا پنجا ہ کو زہ بردار ان کے مرید تھے ۔مجھ سے بلال خادم مصری کی یہ حکایت کی تھے کہ حصری نے کہا لا تطلع الشمس الا بازنی یعنی آفتاب بغیر میرے حکم کے نہیں چڑھتا۔شیخ الاسلام کہتے ہیں کہ قاضی ابراھیم باخرزی نے مجھ سے کہا تھا ۔ میں نے اللہ تعالیٰ کو خواب میں دیکھا ہےاور کہا کہ خدا وندہ بندہ تجھ تک کب پہنچتا ہے ۔ کہا اس وقت کہ اسکو کوئی مانع نہ رہے۔جو مجھ سے باز رکھے۔شیخ الاسلام کہتے ہیں کہ مجھے شیخ ابو علی سیاہ کی زیارت نصیب نہیں ہوئی تھی لیکن جب میں خرقانی رحمۃ اللہ سے مل کر واپس آیا تو اتفاقًا شیخ عموان سے مل کر آ یا تھا۔ مجھ سے انکی حکایت کرتا تھا اور میں خرقانی کی حکایت سنتا تھا۔
ابو علی سیاہ مرد میں ایک بزرگ موجود تھے۔صاحب سخن و کرامات اور بڑی ولایت والے تھے۔ شیخ الاسلام کہتے ہیں کہ پیر محمد کشور طائب صادق بڑے جفا کش تھے۔ وصال (روز وصال یہ کہ رات دن روزہ رکھنا افطار نہ کرنا )کے روزے رکھا کرتے تھے۔ایک دفعہ وصال میں تھےمیں بھی انکے ساتھ تھا ۔ چالیس روز تک وصال کیا ۔ مجھ سے لوگ کہتے ہیں کہ انہوں نے ۸۰ روز تک روزہ وصال پورہ کیا ۔ بعض کہتے ہیں سو روز تک واللہ اعلم۔انہوں نے مجھ سے کہا تھا کہ اس پر تمہارا قیام ہوجائے تو مشرق مغرب میں تمہارے جیسا کوئی نہ ہو ۔ شیخ الاسلام کہتے ہیں کہ محمد شگرف ایک پیر با دبدبہ تھے ۔ دعوٰی قوت ملامت رکھتے تھے ۔ مجھ سے شیخ الاسلام نے کہا کہ میں دودفعہ ابو سعید ابو الخیر کہ پاس رہا ہوں ۔ انہوں نے اپنی دستار سر سے اتاری ہوئی تھی اور اپنی مصری گودڑھی مجھے دیدی۔ شلغم کو جوش دیکر میرے منہ میں ڈالتے تھے ۔ جب میں ان کے پاس گیا تھا میرے لیے کھڑے ہوئے تھے۔ میری اتنی تعظیم کرتے تھے کہ کسی اور کی ایسی کم کرتےلیکن مجھ کو ان سے اعتقاد میں مخالفت ہے۔طریقت میں پورے نہیں مشائخ کا طریقہ اختیار نہ کرتے تھے ۔بعض مشائخ وقت ان سے اچھی طرح پیش نہ آتے تھے۔
شیخ الاسلام کہتے ہیں احمد خضرویہ نے ایک دن با یزید کے سامنے کہایا رب ہماری امید اپنےسے مت کاٹ ۔ بایزید نے کہا یارب امیدیں اپنے سے قطع کر ۔شیخ الاسلام کہتے ہیں کہ جو کچھ احمد نے کہا وہ عام لوگوں کے لیے ہے اور جو کچھ با یزید نے کہا وہ خاص کا کام ہےکیونکر امید نقصان ہے۔امید نہ موجود پر ہوا کرتی ہے۔موجود چیز پر امید کب ہوتی ہے۔ابو بکر دقی کہتے ہیں و العافیہ التصوف لایکون یعنی آرام اور تصوف جمع نہیں ہوتے۔شیخ الاسلام کہتے ہیں کہ اگر صوفی ہو تو اپنے حالات کو متھم کرو کیونکہ دعوٰی ہے اور اپنے افعال کو متھم کرو کہ ریا ہےاور اپنے اقوال کو متھم کرو کہ بے معنی ہیں ۔ ایک جوان مرد جنگل میں بے قرار ہوا ۔کہا اگر مجھ کو سلامتی سے نکالےگا تو میں تجھ کو کبھی یاد نہ کرونگا ۔ جب جنگل سے باہر نکلا تو ایک شخص اسکو گھر میں لے گیا ۔کھنا دیا جو سیر ہو کر کھا یا اورمر گیا۔
شیخ الاسلام کہتے ہیں کہ اگر وہ زندہ رہتا تو یاد نہ کرتا توشریعت تباہ ہوجاتی اور اگر یاد کرتا تو اقرار تباہ ہوجاتا ۔وہ سچا تھااسکے شغل نے اسکی کفایت کی ۔اسنے ہنسی اور خواری سے نہیں کہا تھا کہ میں یاد نہ کروں گا۔اپنے یاد کی شرم سے ایسا کہا تھا۔ابو علی سیاہ علیہ الرحمۃ نے ایک مرد نے کہا تھا ہر چیز جاتی رہے تو بھی کچھ رہ جاتی ہے مگرشریعت کہ جب اس سے کوئیشیز جاتی رہے تو کچھ نہیں رہتی۔شیخ الاسلام کہتے ہیں کہ انہوں نے بہت اچھا کہا اور یہ اس طرح ہے۔شریعت پورا کام چاہتی ہے ۔شریعت میں زیادتی نقصان ہے ۔شریعت پانی کی طرح ہے پانی اندازہ کا چاہیےاگر بڑھ جائے گا تو اجاڑدے گا اور اگر کم ہوجاتا تو تمہیں سیراب نہ کرے گا۔مرتعش کہتے ہیں کہ میں نے اپنے آپ کو ہر گز کبھی خاص باطن کے ساتھ نہیں دیکھاتاوقتیکہ اپنے آپ کو بظاہرعام نہ دیکھا ہو۔
شیخ الاسلام کہتے ہیں مطلب یہ ہے کہ میری حقیقت درست نہیں ہوتی جب تک کہ میری شریعت صاف نہیں ہوتی۔شیخ الاسلام کی یہ عادت تھی کہ جو کچھ سنتے خواہ وہ عمدہ عادتیں ہوتیں اور افعال پسندیدہ تھے۔خواہ حدیث میں خواہ مشائخ کی حکایت میں البتہ ان کو ضرور کرتے۔وہ فرماتے ہیں کہ جو تم کو کوئی سنت پیغمبر ﷺ کی ملےاگر تم اس کو وظیفہ نہ بنا سکواور ہمیشہ نہ کر سکوبارے ایک دفعہ تو کروتاکہ تمہارا نام سینوں کے زمرہ میں کردیں۔علیٰ ہذانیک معاملہ اور احوال و اخلاق مشائخ کہ ان پر چلنے کے لیے ہم سے کہا گیا۔اگر سب نہ کر سکو بارے کچھ تو کرو۔ایک دفعہ میں راستہ میں جا رہا تھا۔ایک درویش نے مجھے خدا کی قسم دی کہ مجھ کو شلوار دے دووہ امام گھوڑے سے اتر پڑے اور اپنی شلواراس کو اتار کر دے دی۔لوگوں نے کہا یہ کیوں کیا۔یہ فقیر جھوٹے قریبی ہیں۔کہا میں یہ بات جانتا ہوں،لیکن جائز نہیں کہ خدا کی قسم مجھے دیں اور میں اس کی پرواہ نہ کروںاور اس کی مراد پوری نہ کروں۔
شیخ الاسلام نے کہا کہ میں نے بھی وہ کام کیا اس درویش کو شلوار دے دی اور شلوار کے بغیر وعظ کہتا رہا۔شیخ الاسلام کہتےہیں کہ میں نے اکثر عاریتی کپڑے سے مجلس قائم کی ہے اور اکثرگھاس کھا کر گزارہ کیاہے۔اکثر اینٹسرہانے رکھتا ہوںاور اس وقت میرے یار دوست شاگرد سب مالدارتونگر تھے۔جو کچھ میں ان سے مانگتاوہ دیتے لیکن میں کبھی ان سے مانگتا نہ تھااور ان پر نہ ظاہر کرتا تھا۔میں کہتا کیوں یہ خود نہیں جانتےکہ میں کچھ نہیں رکھتااور کسی سے کچھ نہیں مانگتامیں ابھی بچہ تھاکہ میرے باپ نے دنیا کو چھوڑدیا۔دنیا تمام خرچ کردی ہم کو رنج میں ڈال دیااورہماری درویشی کی ابتدااسی وقت سے تھی۔شیخ الاسلام کہتے ہیں کہ میں جاڑوں میں جبہ نہیں رکھتا تھا۔بڑی سردی پڑتیتھی۔میرے سارے گھر میں ایک اتنی بوریاں تھی کہ اس پر میں سوتا تھااور ان میں نہدے کا ایک ٹکڑا تھا جواوڑھا کرتا تھا۔
اگر پاؤں کو ڈھانکتا تھا تو سر ننگا ہو ہو جاتا تھا۔ایک اینٹ تھی جو سرکےنیچے رکھا کر تا تھا۔ایک میخ تھی کہ وعظ کےکپڑے اس پر لٹکادیا کرتا تھا۔ایک دن ایک عزیز آیامجھ کو اس حالت میں دیکھ کر انگلی دانتوں میں رکھی اور رونے لگا۔ایک گھڑی تک کھڑاروتا رہا۔پھر اپنے سر سے پگڑی اتار کر وہیں رکھ دی اور چل دیا۔شیخ الاسلام کہتے ہیں کہ مجھ کو اس قدر طاقت نہ تھی کہ مجلس کے قاریوں کو کچھ دیتااور کسی سے کچھ مانگتا نہ تھا۔میرے دل پر اس سے رنج رہتاتھا۔ایک شخص نے حضرت دانیال علیہ السلام کو خواب میں دیکھاکہ وہ فرماتے ہیں۔فلاں دکان عبداللہ کو دیدے کہ اسکی آمدنی ان قاریوں کو دیا کرے۔دانیال نے اس شغل کی کفایت کی اور وہ مرد اسکی آمدنی ا قاریوں کو دیا کرتا۔
شیخ الاسلام کہتے ہیں کہ مجھے کبھی تمام عمر اللہ عزوجل نے آدھے دن تک دنیا کی طلب میں نہ دیکھا تھا۔اب مجھ پر دنیا کھولتے ہیں لیکن میں اس میں سے اگر قبول نہ کروں گا تو کافر ہوں گا اور اگر دل پر اس کی کچھ قدر و عظمت ہو تب بھی کافر ہوں گا ۔ جب تک اس سے نہ چھوٹوں اور اسکا ضروری حصّہ مجھ سے نہ لے گئے ہوں اسکو مجھ پر نہ کھول دیا ہو۔اگر سلیمان علیہ السلام کا ملک ہی ہو تو مجھ کو اس چیز میں سے کہ میں نے دیکھی تھی اور مجھ کو اچھی معلوم ہوئی تھی اور ضروری تھی۔زمانہ میں میری آنکھ اور دل پر گزری تھی اور اسکو میرے لیے اسکو نقدی کردیا۔میں کہتا ہوں کہ یہ وہی ہےکہ میں ے فلاں وقت دیکھی تھی اور میرے دل پر گزری تھی۔ اس وقت کہ مجھے چاہیے تھی۔اب دیتا ہے ایک ترک تھا کہ جو شیخ کی مجلس کی ملازمت کیا کرتا تھا۔
شیخ الاسلام کے سر کے ڈھال کے برابر نور دیکھا کرتا تھا۔ ایک دن شیخ احمد کوفانی سے کہنے لگا کہ تو وہ نور کی ڈھال دیکھا کرتا ہے جو خواجہ کے سر پر ہے۔کہا کہ وہاں دیکھا کرتا ہوں شیخ الاسلام کہتے ہیں کہ کون نہ دیکھتا تھا لیکن اسکو ظاہر نہ کرتا تھا۔ترک سے نہ ہوسکاکہ دیکھیں اور کہیں کہ میں نہیں دیکھتا ہوں وہ ترک حج کو گیا اور واپس آیا اس کے بعد اس نور کو نہ دیکھا ۔شیخ الاسلام کہتے ہیں کہ وہ ترک کہنے لگا کہ میں اب وہ نور نہیں دیکھتا اسکا سبب کیا ہے۔میں نے کہا کہ اب تم نے اپنے آپ کو بخشا ہوا خیال کرلیا ہےاور بزرگ سمجھتا ہے کہ میں نے حج کیا ہے۔حاجی ہوں اس وقت ہمارا محتاج اور پیاسا تھا۔ شیخ الاسلام کہتے ہیں کہ ہر ایک کا ایک بت یعنی معشوق ہوا کرتا ہے۔ بہار کا وقت میرابت ہے کیونکہ میں بہار کو دوست رکھتا ہوں ۔ ایک دفعہ ہوا گرم ہوئی اور تمام پھول کھل چکے تھے مجھ کو چاہیے تھا کہ پھول دیکھتا کہ میری اآنکھیں خوش ہوں ۔دھوبیوں کے گھاٹ پر جایا کرتا ۔ باغیچہ میں گل لالہ کو دیکھا جو پیالہ کے برابر تھا بہت خوبصورت تھا کہ جس سے بڑھ کر لالہ ہو نہیں سکتا۔
شیخ الاسلام کہتے ہیں کہ ایک دفعہ میں سخت تنگ دل تھا ۔ اپنے گھر کے پاس ایک امر کے پاس کے سبب اندیشہ میں بیٹھا ہوا تھا سخت ہوا چلی اتنے میں ہشت پہلو کاغذ اوپر سے نیچے گرا ۔ سرخ خط سے اس پر لکھا ہوا تھا ۔ فرج فرج یعنی خوش ہو خوش ہو۔شیخ الاسلام کہتے ہیں کہ شیخ ابوالخیر تنیاتی آٹھ سال تک مکہ معظمہ میں مجاور رہے ہیں کچھ سوال نہ کرتے اور یہ بڑی سخت بات ہے۔کوئی شخص مکہ معظمہ میں کوئی چیز نہ رکھتا ہو اور پھر سوال نہ کرے ۔ ایک دفعہ آٹھ رات دن تک کچھ نہ کھایا تھا۔ بیماری اور بھوک دونوں پیدا ہوئیں سست ہوگئے۔حیلہ سے اپنےآپ کو مقام ابراھیم علیہ السلام تک پہنچایاکہ دو رکعت نماز پڑھی ۔سستی کی وجہ سے انکو نیند آگئی۔اللہ عزوجل کو خواب میں دیکھا کہ ان سے کہتا ہے کہ ت کیا چاہتے ہو کہا ملک پر شرافت ۔ کہا کہ اچھا میں نے دیدی اور کیا چاہتے ہو کہا حکمت۔کہا اچھا وہ بھی دی پھر جاگ اٹھے۔
شیخ الاسلام کہتے ہیں کہ ملک کی شرافت میں ان کو ایک یہ بات حاصل تھی کہ یہ کہتے تھے۔میں کئی سرون پر سفید خط سے سعید لکھا ہوادیکھتا ہوں اور کئی سروں پرشقی لکھا ہوا دیکھتا ہوں۔دوم یہ کہتے جو شخص کسی ولایت کاحج کو جاتاہے میں اس کو دیکھ لیتا ہوں ۔شیخ الاسلام کہتے ہیں کہ مجھ کو اس کی ضرورت نہیں کہ جان لو کہ شقی کون ہے۔کیونکہ اس میں کرامت کیا ہوئی۔یہی کہ ہو ایک غم کھانے لگے۔میں برائی میں کم یہ کام کرتا ہوں لیکن بہتری میں جلد مانتا ہوں اورایک نگاہ سے دیکھتا ہوں۔مرد کا مقام کہہ دیتا ہوں کہ جانوں یعنی اگع چاہوں تو جان لوں۔
شیخ الاسلام کہتے ہیں یہ مجھ کو اس بات کے لیے نہیں چھوڑتےکہ اہل ولایت کو ایک دوسرے سے جداکروں۔ایک دفعہ میں نے کہا جدا کرتا ہوں مجھ کواس پر نہ چھوڑا۔شیخ الاسلام کہتے ہیں کہ کوئی ایسا ہوتا ہے کہدانائی سے کہہ دے اور جان لے کہ کہتا ہے یعنی اگر چاہے جان لیتا ہے اور جو کچھ کہتا ہے دیکھتا ہے ۔یہ دیدار اس کو دینائی کے ساتھ ہمیشہ رہتا ہے اور کوئی ہوتا ہے کہ اس کو یہ دیدارکسی وقت ہو،اور کسی وقت نہ ہو۔گلبہ اور دبدبہ کے وقت کہتا ہے اور ہو سکتا ہے کہ وہ بات اس کی زبان پر ہو۔یہ حقیقت ہوتی ہے اور سچی دانائی لیکن اس کو اس سے واقفیت نہیں ہوتی۔تمہارے نزدیک کون سردار ہےکہا کہ وہ پہلا جس کی دانائی قدیم ہے اورصاحب ولایت ہے۔یہ اکثر ابدال ،ابرار،زاہدوں کو ہوا کرتا ہے ۔وہ پچھلا تحقیق یہ ہے کہ ایک دفعہ ممکن ہے کہ اس پرپوشیدہ ہو اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ اس پر ظاہر ہو۔اگر خوش طبعی سے کہے تو وہ حقیقت ہوتی ہے اور اگر غفلت میں کہے جب اس کو یاد رکھیں توویسا ہی ہوتا ہے۔جیسا ان سے کہا تھا جامع مقامات۔
شیخ الاسلام کہتے ہیں ایسا ہی ہوا کرتاہے شیخ الاسلام کہتے ہیں کہ ابوالحسن دراج یوسف بن حسین کی زیارت کےلیے رے میں آئے۔جس سے ان کا حال پوچھتےوہ کہتا کہ اس زندیق سے تمہارا کیا کام ہے۔جب ایک مہینہ کے بعد میں اس کے پاس آیا تو اس نے کہاکہ کوئی شعر تم کو یاد ہے۔اس نے کہا ہاں یاد ہے ۔پڑھا تو یوسف بن الحسین سماع میں شور کرنے لگےاور اس کی آنکھ سے ایک طوفان جاری ہوا۔کہا اے ابوالحسن تعجب نہ کر۔میں ایک چاند ہوں جورے میں پھرتا ہوں اور تم میرا حال دریافت کرتے ہو۔لوگ کہتے ہیں کہ اس بیت میں سے تمہارا کیاکام ہے۔صبح کے وقت میں قرآن پڑھ رہا تھا۔میری آنکھوں میں آنسوں نہ آئے لیکن تمہارے اس ایک بیت سےدیکھا کہ کیا حال ہوا۔شیخ الاسلام کہتے ہیں میں نہیں جانتا کہ اول سے اس نے اس کو پہچان لیا تھا۔مگر دھوکا دیتا تھااور نہ کہا یہاں تک کہ غلبہ کی حالت میں کہا۔اس غلبہ کے حال میں اپنے آپ کو درست کای اور یہ چاند ان بھلے چاندوں میں سے۔ان بھلوں میں سے وہ حکمتوں اور مکتبوں کی تفصیل جو کہ شیخ الاسلام کی زبان پر گزری تھی۔مشکل بلکہ محال ہے ان میں سے بہت گزر چلے ہیں اور شاید کہاور بھی انشاءاللہ تعالی آئیں۔اسی جگہ اسی قدر پر بس کی گئی۔ان کی وفات جمعہ کے دن۲۲ذی الحج۴۸۱ھ میں ہوئی اور ان کی عمر ۸۴ سال کی تھی۔
(نفحاتُ الاُنس)