حضرت ابوالمجد مجدود بن آدم حکیم سنائی علیہ الرحمۃ
آپ کی کنیت و نام ابو المجد مجد بن آدم ہے۔وہ اور شیخ رضی الدین کے باپ علی لالا دونوں چچا زاد بھائی تھے۔صوفیوں میں سے بڑے شاعر گذرے ہیں"اور لوگ ان کے شعروں کو اپنی تصنیفات میں بطور دلیل کرتے ہیں۔ان کی کتاب"حدیقہ الحقیقت"ان کی شعردانی ذوق اور ارباب معرفت کے وجد اور توحید کے کمال پر قاطع دلیل اور روشن برہان ہے۔خواجہ یوسف ہمدانی کے آپ مرید ہیں۔آپ کی توبہ کا یہ سبب تھا کہ سلطان محمود سبکتگین سردی کے موسم میں کفار کے بعض ملک لینےکے لیے غزنی سے باہر نکل آیا تھا۔سنائی نے اس کی تعریف میں قصیدہ کہا تھا۔اس کے پاس اس لیے جاتے تھے کہ پیش کریں۔ایک بھٹی کے دروازہ پر پہنچے وہاں ایک مجذوب محبوب تھا"جو کہ تکلیف کی حد سے ہاہر نکل گیا تھا۔جو لاخوار کے نام سے مشہور تھا۔کیونکہ وہ ہمیشہ رومی شراب پیا کرتا تھا۔اس کی آواز سنی کہ اپنے ساقی سے کہتا تھا کہ پیالہ بھر محمود سبکتگین کی قبر کے لیے کہ میں پیوں۔ساقی نے کہا کہ محمود ایک غازی مرد ہے"اسلام کا بادشاہ ہے۔اس نے کہا"وہ بڑا مردک ناخوش ہے۔جو کچھ کہ اس کے حکم کے نیچے ہے۔اس کو توضبط نہیں کرتا جاتا ہےکہ اور ملک لیوے" ایک پیالہ لیا اور پی لیا۔پھر کہا کہ اور پیالہ بھر سنائیک شاعر کی قبر کےلیے ساقی نے کہا کہ سنائی ایک فاضل لطیف الطبع مرد ہے۔کہا کہ اگر وہ لطیف الطبع مرد ہوتا تو کسی کام میں مشغول ہوتا"جواس کے کام آتا۔چند نے ہودہ شعر ایک کاغذ پر لکھے ہیں کہ اس کے کسی کام کے نہیں جانتا کہ اس کو کس کام کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔سنائی نے جب یہ بات سنی توان کا حال بدل گیا"اور اس شرابی کے تنبیہہ کرنے سے غفلت کی مستی سے ہوشیار ہوگئے۔پس اس راستہ میں پاؤں رکھا اور سلوک میں مشغول ہوئے۔مولانا جلال الدین رومی علیہ الرحمۃ کے اشعار میں مذکور ہے کہ خواجہ حکیم سنائی جس وقت کہ حالت نزع میں تھے،زبان میں کچھ کہہ رہے تھے۔جب حاضرین نے ان کے پاس کان رکھے،یہ شعر پڑھتے تھے۔
باز گشتم زانچہ گفتم زانکہ ہست درسخن معنی و در معنی سخن
ایک عزیز نے سنا تو کہا،عجب حال ہے کہ شعر سے توبہ کے وقت شعر ہی مشغول ہوئے۔آپ ہمیشہ گوشہ نشین اور قطع تعلق و دنیاوی میں رہے،دنیاداروں سے علیحدہ رہتے تھے۔ایک شخص بڑا جلاہ جلال والا تھا۔اس نے ارادہ کیا کہ آپ کی زیارت کے لیے خدمت میں حاضر ہو۔شیخ نے اس کو ایک خط لکھا،جو بہت سے لطیفوں پر مشتمل تھا۔مجملہ ان کے یہ تھا کہ اس دعا گو کی خدمت میں عقل و روح ہے،لیکن اس کی بناوٹ ایسی ضعیف ہے کہ خدمت گذاری کی طاقت اور عہدہ برآئی کی قوت نہیں۔ان الملوک اذادا خلو اقریۃ افسدوھا یعنی بادشاہ جب کسی گاؤں میں داخل ہوتے ہیں،تو اس کا ستیاناس کرتے ہیں۔سویہ پرانا نکہا جباروں کی درگاہ کی کیا طاقت رکھتا ہےاور اونٹنی جدائی کے دودھ کی بھوک ماری ہوئی ،شیروں کے پنجہ کا مقابلہ کیا کرسکتی ہے۔خدائے تعالیٰ جانتا ہے کہ جتنی دفعہ آپکی حشمت کا خیمہ اس زمین میں لگا ہے ،تو ا س ضعیف گوشہ نشین کا سامان عافیت عرب خانہ غولاں ہےاور قناعت کا اسباب خضر والیاس کے سپرد رہا ہے۔اب آپ کو اس بزرگی کی قسم کی ہے کہ جس کو خدائے تعالیٰ نے دین و دنیا میں بزرگ کیاہے۔اس گوشہ نشین کے گوشہ دل کو اپنی تعریف و عنایت سے خراب نہ کریں۔کیونکہ اس فقیر بندہ کی آنکھ حضور کی آنکھ کے لائق نہیں ہے۔آپ کے مقبولات میں یہ اشعار ہیں۔
(نفحاتُ الاُنس)