حضرت ابو السعود بن الشبل علیہ الرحمۃ
آپ بھی شیخ محی الدین عبدالقادر ؒ کے مرید ہیں۔فتوحات میں مذکور ہے کہ میں نے ایک سچے اور ثقہ شخص سے سنا کہ شیخ ابوالسعود سے جو کہ وقت کے امام تھے۔بیان کرتا تھا کہ وہ یہ فرماتے تھے،میں بغداد کے دجلہ کے کنارہ پر گزررہا تھا۔میرے دل میں آیا کہ خدائے تعالی کے ایسے بندے بھی ہیں،جو کہ پانی میں اس کی پر ستش کرتے ہیں۔ابھی میرے دل میں یہ خطرہ پورا نہ ہوا تھا کہ پانی بھٹ گیا اور ایک مرد ظاہر ہوا۔کہا،ہاں اےابو السعود خدائے تعالی کے ایسے مرد ہیں کہ پانی میں اس کی عبارت کرتے ہیں ۔میں انہیں میں سے ہوں۔میں ایک مرد ہوں۔تکریب کا رہنے والا ہوں۔وہاں سے باہر نکلا ہوں اور کہتا ہوں کہ پندرہ دن کے بعد وہاں پر فلاں حادثہ ہوگا۔جب پندرہ دن گزرے تو وہ حادثہ بعینہ ہوا۔جو اس نے کہا تھا۔فصوص میں مذکور ہے کہ شیخ ابو السعود نے اپنے مریدوں سے کہا کہ پندرہ سال ہوچکے ہیں کہ خدائے تعالی نے اپنے ملک میں تصرف دیا ہے،لیکن میں نے کوئی تصرف نہیں کیا۔ابن قاید نے ایک دن ان سے پوچھا کہ تم کیوں تصرف نہیں کرتے ہو؟کہا کہ میں نے تصرف کو خدائے تعالی کے سپرد کر دیا ہےکہ وہ جس طرح چاہے،تصرف کرے۔شیخ رکن الدین علاؤ الدولہ رحمتہ اللہ کہتے ہیں کہ امام احمد بن حنبل کے قبرستان میں میں نے توجہ کی تھی۔ایک برگ قبر پر جس کی قبر لوگوں کے نزدیک معین ہے،لیکن مجھے یقین تھاکہ وہ وہاں پر نہیں ہے۔میں اس قبر پر جایا کرتا تھا۔راستہ میں ایک گنبد ویران تھا۔میں نےکبھی نہ سنا تھا کہ وہاں پر بھی کوئی بزرگ ہے۔جب اس گنبد سے گزرا تو دیکھا کہ گنبد میں سے مجھے اشارہ ہوتا ہے۔کہا جاتے ہو؟آؤ اور ہماری بھی زیارت بھی کر جاؤ۔میں واپس آیا اور گنبد میں گیا۔وہاں پر میرا وقت خوش ہوا۔دیکھتا ہوں کہ اس بزرگ روح مجھ سے کہتی ہے کہ تم بھی ایسی زندگی بسر کرو،جس طرح میں نے کی تھی۔میں نے کہا،آپ نے کیسے بسر کی تھی؟کہا، جو کچھ کہ خدا کی طرف سے تجھے پہنچے ،اس کو قبول کرلے۔میں نے کہا،اگر قبول کرنے کے لائق تو قبول کروں گا۔کہا،خیر آج تم ایک چیز ملے گی۔اس کو قبول کرلینا۔کہا کہ ایسا ہی کروں گا۔جب شہر میں آیا اور اس قصہ شیخ نور الدین بعدالرحمٰن سے بیان کیا تو فرمایا،تم جانتے بھی ہو اس گنبد میں کون بزرگ لیٹے ہیں۔میں نے کہا نہیں۔کہا،ان کو ابو السعود کہتے ہیں۔وہ عجیب رکھتے تھے۔جو کچھ خدا سے ان کو ملتا تھا۔اس کو رد نہیں کرتے تھے اور کسی سے کچھ مانگتے نہ تھے۔لباس مکلف پہنے تھے اور کھانا بھی عمدہ کھاتے تھے۔ایک دن ایک شخص ان کے پاس آیا اور ان کے سر پر دستار دیکھی جو کہ دو سو دینار کی قیمت کی تھی وہ شخص اپنے دل میں کہنے لگا کہ یہ کیا اسراف ہے؟اسی دستار جس سے دوسو درویش کے کپڑے اور کھانا تیار ہو سکتا ہے۔اس کو ایک درویش کے سر پر کیوں رکھے۔ابو السعود اپنی روشن ضمیری سے معلوم کر گئے اور کہا کہ اے شخص اس دستار کو ہم نے خود سر پر نہیں باندھا،اگر تم چاہتے ہو تو اس کو لے جاؤاور بیچو اور درویشوں کے لیے کھانا وغیرہ لاؤ۔وہ شخص لے گیا اور اس کو بیچ ڈالا۔کھانا تیار کیا۔عصر کی نماز کے وقت جب آیا تو اسی دستار کو شیخ کے سر پر بندھی دیکھا اور تعجب کرنے لگا۔شیخ ابو السعود نے کہا،تم تعجب کیا کرتے ہو؟فلاں خواجہ سے پوچھو کہ اس دستار کو کہاں سے لائے ہو؟اس خواجہ نے کہا کہ میں پچھلے سال کشتی میں تھا۔مخالف ہوا چلی۔تب میں نے نذر مانی کہ اگر میں کشتی سے بہ سلامت نکلوں گا تو ایک عمدہ دستار شیخ کے لیے لے جاؤں گا۔اب چھ ماہ گزر گئے تھے کہ میں بغداد میں ایسی دستار جس کو میرا دل چاہتا تھا۔طلب کرتا تھا،مگر نہ ملتی تھی۔یہاں تک کہ آج میں نے یہ دستار فلاں دکان پر دیکھی۔تب میں نے کہا یہ دستار شیخ کے لائق ہے۔میں نے خریدی اور لے آیا۔اس کے بعد شیخ نے کہا ،دیکھا یہ شخص اوروں کی دستاریں لا کر ہمارے سر پر رکھ دیتا ہے۔اس شیخ کی اس قسم کی حکایات بہت ہے۔واللہ اعلم۔
(نفحاتُ الاُنس)