حضرت احمد بن ہوتی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ
بلند پایہ بزرگ اور مستجاب الدعوات ولی تھے، کبھی کبھی حلقۂ سماع میں جاتے تو وجد کی کیفیت طاری ہوجاتی تھی۔ ان کے بھائی محمد، جو خود بھی صاحبِ کمال ولی تھے، ہمیشہ ساتھ رہتے تھے؛ لوگ دور دور سے ان کی خدم ۔۔۔۔
حضرت احمد بن ہوتی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ
بلند پایہ بزرگ اور مستجاب الدعوات ولی تھے، کبھی کبھی حلقۂ سماع میں جاتے تو وجد کی کیفیت طاری ہوجاتی تھی۔ ان کے بھائی محمد، جو خود بھی صاحبِ کمال ولی تھے، ہمیشہ ساتھ رہتے تھے؛ لوگ دور دور سے ان کی خدمت میں دعا کرانے کے لیے حاضر ہوتے تھے۔
ایک مرتبہ بارش نہ ہونے کی وجہ سے قحط سالی کی سی صورت پیدا ہوگئی، لوگ آپ کی خدمت میں دعا کرانے کے لیے حاضر ہوئے۔ اُس وقت حلقۂ سماع منعقد تھا، اتفاقاً رکن الدین ولد دتّہ، جو خود بھی ایک عظیم صوفی بزرگ تھے، حلقے میں آگئے؛ اُن کی ہیبت سے حلقۂ سماع میں کھلبلی مچ گئی، مگر حضرت نے مطلق آنے والےکی طرف دھیان نہ دیا۔ جب حضرت سے وجد کی کیفیت زائل ہوئی تو آپ نے بے ترتیبی اور سراسیمگی کا سبب دریافت کیا، لوگوں نے شیخ رکن الدین کی آمد سے مطلع کیا۔ آپ نے حکم دیا کہ حلقۂ سماع دوبارہ ترتیب دیا جائے دیکھتے ہیں ہمارے حلقے کو کون بگاڑتا ہے، شیخ رکن الدین دور ہی سے یہ سب کچھ دیکھتے اور سنتے رہے۔ اس اثنا میں بعض حضرات نے شیخ رکن الدین کو یہ فرماتے سنا کہ
اس سال بارش کا ایک قطرہ بھی نہیں گرے گا۔
یہ سن کر حاضرین پر مزید ناامّیدی طاری ہوگئی ، مریدوں نے حضرت سے جاکر شیخ رکن الدین کی بات نقل کردی، حضرت نے فرمایادرویش نے جو (کارکنانِ قضا وقدر سے) سنا تھا وہ کہہ دیا مگر دوسری مجلس (کارکنان قضا و قدر کی) جس میں بارش کرنے کا فیصلہ ہوا تھا اس میں یہ درویش موجود نہ تھا، کہتےہیں بہ مصداقِ فرمانِ الہٰی:
وَ ہُوَ الَّذِیْ یُنَزِّلُ الْغَیْثَ مِنۡۢ بَعْدِ مَا قَنَطُوْا﴿۲۸﴾ (اَلشُّوْرٰی: آیت ۲۸)
ترجمہ: اور وہی ہے کہ مینہ اتارتا ہے ان کے ناامّید ہونے پر۔ (کنز الایمان)
ابرِ رحمت خوب گھن گرج کے ساتھ برسا اور ہر طرف سبزی و شادابی پھیل گئی۔ آپ کا مزارِ پُرانوار والدِ ماجد کے پہلو میں موریان کے مقام پر واقع ہے۔
(حدیقۃ الاولیاء، ص ۱۱۳)
(تذکرہِ اولیاءِ سندھ)