حضرت احمد بن الجعدو شیخ سعید ابوعیسیٰ کنیت علیہ الرحمۃ
امام یافعیؒ کہتے ہیں کہ بلادیمن میں دو شیخ تھے۔ایک شیخ کبیر عارف باللہ،شیخ احمد بن الجعداور دوسراشیخ کبیر عارف شیخ سعید ہر ایک کے صاحب اور شاگرد تھے۔ایک دن شیخ احمد نے اپنے اصحاب سے بعض گزشت ۔۔۔۔
حضرت احمد بن الجعدو شیخ سعید ابوعیسیٰ کنیت علیہ الرحمۃ
امام یافعیؒ کہتے ہیں کہ بلادیمن میں دو شیخ تھے۔ایک شیخ کبیر عارف باللہ،شیخ احمد بن الجعداور دوسراشیخ کبیر عارف شیخ سعید ہر ایک کے صاحب اور شاگرد تھے۔ایک دن شیخ احمد نے اپنے اصحاب سے بعض گزشتہ بزرگوں کی زیارت کا ارادہ ظاہر کیا اور شیخ سعید تک پہنچے ۔شیخ سعید نے بھی موافقت کی ۔جب کچھ اور چلے تو شیخ سعید ان کو موافقت سے پشیمان ہوکر واپس چلے گئے۔شیخ احمد اپنے ارادہ سے چلے گئےاور زیارت کی۔چند دن کے بعد شیخ سعید اصحاب کو لے کر باہر نکلے اور اسی زیارت کا ارادہ کیا۔شیخ احمد ان کو راستہ میں ملےاور باہم ملاقات ہوئی۔شیخ احمد نے شیخ سعد سے کہا کہ فقراء کا تم پر حق ثابت ہوچکا ہے۔کیونکہ اسی روز موافقت سے واپس آگئے تھے۔شیخ سعد نے کہا،مجھ پر کوئی حق واجب نہیں ہوا۔شیخ نے احمد کہا کہ ،جو ہم کو بٹھائے،ہم اس کو مبتلا کرتے ہیں۔ان دونوں بزرگوں کو جو کچھ کہ ایک نے دوسرے سے کہا تھا،پہنچ گیا۔شیخ احمد کو تو گنٹھیا ہوگیا اور ایک جگہ پر رہے۔یہاں تک کہ فوت ہوگئے۔اور شیخ سعد اس امر میں مبتلا ہوئے کہ اپنے بند کو اکھیڑتے تھےاور کاٹتے تھے۔یہاں تک کہ فوت ہوگئے۔امام یافعی ؒ کہتے ہیں کہ فقراء کا حال تیز تلوار سےبڑھ کر ہوتا ہے۔جب یہ لوگ حالات میں ایک دوسرے کے برابر ہوں تو ان کےحالات ایک دوسرے میں اثر کرتے ہیں اور اگر برابر نہ ہوں تو قوی کا حال ضعیف میں اثر کرجاتاہےاور کبھی ایسا بھی ہوتا ہےکہ پہلا حال اثر کرجاتا ہے اور پچھلا نہیں کرتا۔یعنی ظاہر امر ہے۔واللہ اعلم بحقیقۃ الحال۔
(نفحاتُ الاُنس)