حضرت احمد درویش رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ
ف۔۔۔ ۹۳۴ھ ۱۵۲۷ م
احمد بن مخدوم اسحاق ہالہ کندی ضلع حیدر آباد سندھ کے صاحبِ مقامات اور بلند مرتبت بزرگ تھے، زہد و تقویٰ اور شرافت و نجابت میں یکتائے روزگار تھے، گوشہ نشین اور عزلت پسند تھے، صاحبِ حال اور صاحبِ کشف تھے۔ کبھی کبھی محفلِ سماع میں بھی شریک ہوتے اور وجد وجذب کی کیفیات آپ پر طاری ہوجاتی تھیں۔
آپ کے والدِ گرامی مخدوم اسحاق اپنے دور کے مشہور صوفی اور درویش تھے، ہالہ کندی میں ان کے علم و فضل کا بڑا چرچا تھا، مخدوم احمد درویش نے ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی ، بعد میں بعض دیگر ناموَر حضرات سے علمی اکتساب کیا۔ بہ قدرِ ضرورت حصولِ علم کے بعد آپ نے تزکیۂ نفس اور صفائے باطن کی طرف توجّہ دی۔
آپ کے زہد و ورع، تقویٰ و تقدّس کی شہرت عالمگیر تھی یہاں تک کہ حکمرانانِ وقت بھی مخدوم احمد سے ملاقات کو اپنے لئے سعادت اور خوش بختی کا سبب سمجھتے تھے، سمہ خاندان کافر ماں روا جام نظام الدین نندا آپ کے عقیدت کیشوں میں سے تھا۔
اپنی وفات سے کچھ پہلے ایک روز آپ محفلِ سماع میں شرکت کے لیے ہالہ کندی سے نیرون کوٹ (حیدرآباد) تشریف لائے، قوّال نے نہایت سوز سے ایک بیت پڑھنا شروع کیا۔ جس کے سننے سے آپ پر وجدوحال کی کیفیت طاری ہوگئی اور اسی کیفیت میں ہی آپ کا وصال ہوگیا۔
آپ کی وفات ۹۳۴ھ میں ہوئی۔ یہ مرزا شاہ حسن ارغون کا دور تھا، آپ کا جسدِ خاکی حیدر آباد سے ہالہ کندی لایا گیا اور وہیں مدفون ہوئے، جنازے کے لانے والوں کا بیان ہے کہ جب ہم آپ کے جنازے کو اٹھاتے تھے تو ہمیں ذکرِ جلی کی آواز آتی تھی اور جب کسی منزل پر جنازے کو رکھ دیتے تو یہ آواز بند ہوجاتی۔ آپ کا مزارِ اقدس ہالہ کندی میں زیارت گاہِ خاص و عام ہے۔
کرامات:
صاحبِ حلقہ نے آپ کی چند کرامات نقل کی ہیں:
۱۔ ایک مرید کا بچہ سخت بیمار ہو گیا اس نے حضرت کو اپنے گھر مدعو کیا تاکہ بچے پر دم کریں اور اس کے لیے شفا کی دعا کریں ، حضرت مع دوسرے بزرگوں کے مرید کے گھر تشریف لائے مرید نے مہمانوں کے لیے ایک گائے ذبح کر کے تیار کی جب کھانا تیار ہوگیا تو قضاءِ الہٰی سے بچہ فوت ہوگیا، صاحبِ خانہ نے حضرت کو اس خیال سے اطلاع نہ دی کہ آپ اور آپ کے ساتھی یہ خبر سن کر کھانا نہ کھائیں گے ، جب کھانا پیش ہوا تو حضرت نے فرمایا ایک ایک پلیٹ میں دودو اصحاب شریک ہوجائیں، اتفاق یہ ہوا کہ جب حضرت کے سامنے پلیٹ آئی تو آپ کا ہم پیالہ کوئی نہ تھا ، حضرت نے اپنے ملازمِ خاص رکن بھرا کو حکم دیا کہ بچے کو (جو مرچکا تھا) بلالاؤ تاکہ میرے ساتھ کھائے ، صاحبِ خانہ نے ہر چند معذرت کی مگر حضرت نے بہ اصرار فرمایا کہ اس کوبلا کر لاؤ جب مجبوراً بچے کو بلانے کے لیے بستر کے پاس پہنچے تو بچہ زندہ تھا، وہ اٹھ کر آیا اور حضرت کے ساتھ کھانے میں شریک ہوگیا۔
(جدے فضاء الاولیاء، ص ۹۰۔۹۱)
۲۔ ایک قطعۂ زمین حضرت کو کسی مرید نے نذر کیا تھا ایک زمیں دار، جس کی زمین اس قطعے کے قریب تھی، کی نیّت خراب ہوگئی اور اس نے اس قطعۂ اراضی کو ہڑپ کر لینے کے تمام انتظامات مکمل کرلیے۔ جب حضرت کو اطلاع ہوئی توفرمایا:
اگر ہمّت ہے توہماری زمین میں کاشت کر کے دیکھے۔
پہلے دن جب اس نے زمین میں ہل چلایا تو اس کی پیٹھ پر ایک آبلہ نکل آیا، اس میں اتنا سخت درد ہوا کہ بے ہوش ہو کر وہیں گر پڑا۔
(تذکرہِ اولیاءِ سندھ)