حضرت البہ پیر رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ
البہ پیر کا صل نام ’’جام مبارک‘‘ تھا۔ آپ جام نظام الدین کے بھانجےبھی تھے اور داماد بھی۔ ’’تذکرۃ المراد‘‘ میں مذکور ہے کہ مسجدِ صفّہ دراصل ہندوؤ ں کا مندر ت ۔۔۔۔
حضرت البہ پیر رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ
البہ پیر کا صل نام ’’جام مبارک‘‘ تھا۔ آپ جام نظام الدین کے بھانجےبھی تھے اور داماد بھی۔ ’’تذکرۃ المراد‘‘ میں مذکور ہے کہ مسجدِ صفّہ دراصل ہندوؤ ں کا مندر تھی۔ حضرت قطب الاقطاب سیّد مراد شیرازی نے اس کو منہدم کر دینے کا حکم دیا۔ ہندوؤں نے جام نندہ کے یہاں استغاثہ دائر کیا۔ جام نے البہ پیرکو سیّد مراد کی خدمت میں بھیجا تاکہ حکم واپس لیں، آپ جب ان کے آستانۂ عالیہ پر پہنچے تو نورانی چہرہ دیکھ کر ہمیشہ کے لیے آپ ہی کے ہو رہے اور آستانے پر مقیم ہوگئے۔ ایک مرتبہ پیر مراد کے حکم پر آستانے سے باہر مسواک لینے کے لیے نکلے، اب پیلو کے جس درخت کو مسواک کے لیے چھوتے، وہاں خزانہ نظر آتا، شام کو خالی ہاتھ واپس آئے۔ پیر مراد سے ناکامی کی وجہ عرض کی تو حضرت نے فرمایا جو دیکھا تھا اس میں سے کیوں نہ لائے؟ فرمایا: اس کا کیا کرتا اس سے تو گزر کر آیا ہوں (اشارہ تھا مال و دولت کی طرف ) اس واقعے کے بعد مراد نے آپ کو ’’البہ‘‘ یعنی ’’بے طمع‘‘ کا خطاب دیا، پیر البہ فنافی اللہ کی منزل پر فائز ہوئے۔ آپ کا مزار ٹھٹھہ میں ہے۔ پیر مراد ہر اتوار کو آپ کے مزار کی زیارت کو آتے تھے۔
(تحفۃ الکرام، ج ۳، ص ۲۴۷؛ تحفۃ الطاہرین، ص ۱۷۳)
(تذکرہِ اولیاءِ سندھ)