حضرت میرے بھائی علی مصری رحمتہ اللہ تعالی
آپ ملک شام و روم میں شیخ تھے۔بہت سے ان کے مرید جمع ہو گئے تھے ۔چونکہ وہ ایک منصف مزاج شخص تھے۔مریدوں کی ایک جماعت سے جو کہ مستعد تھی۔کہا،اگر تم حق کے طالب ہو تو میں بھی اسی کا طالب ہوں۔میں نے کوئی مرشد نہیں پایاکہ جس کے پاس سلوک پورا کرتا۔میں نے اب خواب میں دیکھا ہے اور ظاہر بھی سنتا ہوں کہ خراسان میں ایک کامل مرشد ہیں۔اٹھو تاکہ ان کے پاس چلیں،اور ان سے ملیں۔مرشد کی خدمت میں چند دن سلوک پورا کریں،اور جو کچھ کے لوگ ہم پر گمان رکھتے ہیں۔اس کو حاصل کریں۔القصہ اس وجہ سے وہ آئے تھےاور شیخ(رکن الدین علاؤ الدولہ)کو مریدوں کے حلقہ میں اپنے مریدوں کی ایک جماعت کے ساتھ داخل ہوئے۔شیخ نے فرمایا کہ پہلے ان کا عقیدہ تمہارے ساتھ ہے۔اس کے بعد میرے ساتھ تمہارا وسیلہ ان کو نفع دے گا۔کیونکہ میرے نزدیک شیخ اور مصطفیؑ کے درمیان ہر چند کے خرقہ زیادہ ہوں گے۔راستہ زیادہ روشن اور سلوک زیادہ آسان ہوگا۔بخلاف اسناد حدیث کہ وہاں پر ہر چند واسطہ کمتر ہوگا۔حدیث زیادہ صحیح ہوگی۔کیونکہ وہاں جبکہ خبر ہے جس قر کم واسطہ زیادہ ہوں گے۔تغیر کا احتمال زیادہ ہوگا۔لیکن یہاں کہ خرقہ ہے جس قدر کہ مشائخ کا نور زیادہ ہوگا۔اسی قدر راستہ زیادہ روشن ہوگا،اور ان کی مدد زیادہ ہوگی۔ایک دن منصور حلاج کی حکایت پیش آگئی۔اخی علی مصری نے ان کے حال کی بابت دریافت کیا،حضرت شیخ نے اس کے بعد کہ ان کے بارے میں بہت سی باتیں فرمائیں۔یہ کہا کہ جن دنوں میں کہ میرا حال گرم تھا۔میں ان کی زیارت کو گیا تھا۔جب میں نے مراقبہ تو ان کی روح کو علیین میں عالی مقام پر پایا۔میں نے دعا مانگی۔اور کہا، خداوندا۔یہ کیا بات ہے۔فرعون نے انا ربکم الا علی۔یعنی میں تمہارا بڑا رب ہوں۔کہا اور حسین منصور نے انا الحق میں خدا ہوں کہا۔دونوں نے خدائی دعویٰ کیا۔مگر حسین کی روح تو اعلے علیینمیں پہنچی،اور فرعون کی روح سجین میں۔اس میں بھلا کیا حکمت ہے۔میرے باطن میں یہ ندا آئی کہ فرعون خود بینی میں پڑگیا،اور اس نے صرف اپنے آپ کو دیکھا ،ہم کو گم کردیا تھا۔حسین منصور نے سب کو چھوڑ کو ہم کو دیکھا اور اپنے آپ کو بھی گم کردیا۔دیکھ تو کس قدر فرق ہے۔
(نفحاتُ الاُنس)