علامہ حضرت علی محمد مھیری علیہ الرحمۃ
ف۱۳۶۷ھ
عاشق رسول ﷺ علامہ علی محمد رحمہ اللہ مھیری قوم سے آپ کا تعلق تھا ۔ آپ کے والد کا نام حافظ دھنی پرتو تھا ۔آپ نے قرآن مجید حافظ محم نوندانی سے پڑھا۔ بارہ سال عمر میں فارسی کی تعلیم کے لیے مخدوم عبدالرؤف نورنگ زادہ اور حافظ احمد میمن کھورداہی کے پاس آگئے۔ مخدوم عبدالرؤف کے پاس کچھ عرصہ ہی پڑھا تھا کہ مخدوم کا انتقال ہوگیا۔ اور حافظ احمد صاحب ہجرت کر کے درملوک شاہ تحصیل بٹھو رو میں آگئے مولانا حاجی علی محمد صاحب بھی وہاں پہنچ گئے اور حافظ احمد کے پاس فارسی مکمل کرلی۔ اس کے بعد عربی تعلیم کے یلے حضرت مولاناحامدا للہ کی خدمت میں سجاول میں حاضر ہوکر پڑھتے رہے۔ لیکن کچھ عرصہ کے بعد مولانا حامد اللہ حج کرنے چلے گئے۔ پھر حضرت مولانا علی محمد مھیری صاحب ٹنڈو حافظ شاہ میں مولانا محمد سلیمان کے ہاں پڑھنے کے لیے تشریف لے گئے جن کے یہاں سے آپ نے فراغت حاصل کی۔ جب حضرت مولانا حامد اللہ حرمین طیبین کی زیارت سے مشرف ہوکر واپس تشریف لائے تو مولانا علی محمد صاحب نے ان کے پاس حدیث شریف کا دورہ کیا اور سند فراغت بھی حاصل کی، تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد اپنے گاؤں بجاری میں درس و تدریس کا سلسلہ شروع کر دیا ۔ جو چار پانچ سالتک چلا ۔ جب حضرت مولانا حامد اللہ سجاول کو چھوڑ کر اپنے گاؤں بیلے میں آکر رہنے لگے تو مولانا علی محمد مھیری کو اپنے پاس بلوالیا اور افتاء کا کام آپ کے سپرد کر دیا جس کی وجہ سے آپ کے پاس پورے سندھ ،کچھ، کوہستان اور کھارے سے فتاویٰ آنے لگے۔ آپ کی فتویٰ نویسی چوں کہ مدلل ہوا کرتی چناں چہ پورے سندھ میں آپ کا چرچا ہونے لگا۔ حضرت مولانا صاحب کی دی ہوئی فتاویٰ جدا جدا ضخیم دو جلدوں میں مسودہ کی صورت میں موجود ہیں جو آپ کے تجر علمی پر دلالت کرتی ہیں۔
(سندھ جاسلامی درسگاہ ص ۵۱۰)
حضرت مولانا علی محمد مھیری ایک بہترین ادیب اور مداح رسول اکرمﷺتھے آپ کا اکثر کلام سرکار دو عالم ﷺ کی شان اقدس میں ہے او ہر روقت سرکار کی شان میں رطب اللسان رہتے تھے آپ صاحب تصانیف بھی تھے آپ کی تصنیف میں سے (۱) دیوان علی (۲) تفسیر سورہ انافتحنا۔(۳) سوانح شیطان (۴) مجموعہ فتویٰ (۵) ترجمہ ناول شیخ شبلی (۶) قصیدہ بردہ شریف کا تحت اللفظ اور منظور سندھی میں ترجمہ بہت مشہور ہیں۔
حضرت مولانا علی محمد مھیری نے ۲۱ شعبان ۱۳۶۷ھ میں وفات فرمائی۔ آپ کا مزار تاریخی درگاہ ملاحسن کے شمالی جانب تحصیل گونی ضلع بدین میں ہے۔
(تذکرہ اولیاءِ سندھ )