ملک العلماء حضرت علامہ عطاء اللہ فیروز شاہی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
استاد العلماء حضرت علامہ مولانا عطاء اللہ فیروزی شاہی گوٹھ فیروز شاہ (تحصیل میہڑ ضلع دادو سندھ) میں تولد ہوئے۔ آپ کے دادا جان حضرت مکدوم مولانا عبدالمجید فیروز شاہی عالم اور عارف ہو گزرے ہیں۔ اس خاندان کا نسبی تعلق شیخ الاسلام غوث حضرت بہائوالدین زکریا سہروردی ملتانی قدس سرہ الاقدس (۶۶۱ھ) کے خلیفہ اکمل حضرت مخدوم عبداللہ پیروج علیہ الرحمۃ (فیروز شاہ) سے تھا۔
تعلیم وتربیت:
مولانا عطاء اللہ صٓحب نے ابتدائی تعلیم گوٹھ فیروز شاہ میں اپنے والد ماجد مولانا خیر محمد کے پاس حاصل کی۔ مولانا قاضی عبدالرئوف مورے والے کے پاس ’’شرح جامی‘‘ تک پڑھے۔ اس کے بعد اس وقت کی عظیم نامور مرکزی درسگاہ جو کہ شہداد کوٹ میں واقع تھی وہاں کا رخ کیاوہیں شیخ الاسلام، استاد الاساتذہ ، قطب الاقطاب بحر العلوم علامہ نور محمد فاروقی اور ان کے صاحبزادے اکبر استاد الکل علامۃ الدھر حضرت علامہ گل محمد شہداد کوٹی علیہم الرحمۃ کی خدمت عالیہ میں رہ کر علوم دین میں تکمیل کی اور دستار فضیلت سے سرفراز ہوئے۔
مولانا صاحب بہت ذکی محنتی اور علم حاسل کرنے کا انہیں انتہائی شوق تھا حتیٰ کہ دوران تعلیم اپنے عزیز رشتہ داروں دوست و احباب سے رابطہ نہ ہوتا تھا۔ اس سے آپ کے علم سے شوق جنون کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
درس و تدریس:
بعد فراغت اپنے گوٹھ فیروز شاہ میں دینی درسگاہ قائم کی اور زندگی بھر علم کے موتی لٹاتے رہے۔ دن میں تدریس اور رات میں نواف و معمولات کا ورد جاری رہتا۔ اس طرح ااپ دن رات عبادت میں رہتے تھے۔
اولاد:
مولانا صاحب کو نرینہ اولاد نہیں تھی۔ فقط ایک صاحبزادی تولد ہوئی جس کا مولانا عبدالرحمن صاحب سے عقد ہوا ۔ انہیں بھی اولاد نہیں ہوئی۔
عادات و خصائل:
مولانا صاحب مستجا بالدعوات تھے ، کشف و کرامت کے صاحب تھے۔ اپنے جدامجد حضرت خلیفہ پیروج سہروردی علیہ الرحمۃ کی مزور شریف پر ھاضری کے وقت سائل کی مشکل آسان کرواتے تھے۔ عوام الناس بڑی عقیدت سے پیش آتے تھے۔ مولانا میاں محمد آگرو صاحب نہایت ادیب ، فیاض، متقی و پرہیزگار تھے، مولانا صاحب پانے اس نونہال شاگرد کے لئے فرماتے ہیں: ’’اگر ادب (احترام) کو صورت ہوتی تو میاں محمد کی شکل ہوتی۔‘‘
مولانا صاحب کی کرامات آج بھی مشہور ہیں۔ ایک بار بارش نہ ہونے کے سبب نماز استسقاء پڑھائی، نماز پڑھانے کی دیر تھی ہاتھ اٹھائے اور تیز بارش شروع ہوگئی کہ نالے بہہ گئے۔ ایک بار دریا نے رخ گوتھ فیروز شاہ کی طرف کیا سیلاب کے خطرے کے پیش نظر پورا شہر خالی ہوگیا لیکن اس درویش نے اپنا جھونپڑا نہ چھوڑا اور آپ کے اشارے سے دریا نے اپنا رخ پھیر لیا اس طرح گوتھ فیروز شاہ تباہی سے بچ گیا۔
حضرت مولانا عطاء اللہ صاحب نسبت عالم ربانی تھے، مہمان نواز، مسافر نواز تھے، مہمانوں کی خدمت میں راحت محسوس کرتے تھے۔ عرب شریف سے عرب حضرات آپ کے پاس مہمان بن کر آتے آپ ان ک ابے حد احترام و کدمت بجالاتے، ہفتوں تک مہمان کے رکنے سے آپ کے چہرے پر شکن تک نہیں آتی تھی۔ کسی نے آپ سے دریافت کیا: عربوں سے محبت کرنے کا سبب کیا ہے؟ آپ نے فرمایا :’’ وہ شیر کے بچے ہیں۔ ان کی خدمت نہ کرنے سے ڈر لگتا ہے کہیں شیر نہ ناراض ہو۔‘‘ (مہران سوانح نمبر)
شیر سے مراد حضور پور نور ﷺ کی ذات گرامی ہے کیوں کہ آپ بھی عرب ہیں۔ عشاق حضرات کو آپ ﷺ کی اولاد ، خاندان، ملک، شہر صحابہ کرام بلکہ ہر وہ چیز جس کا آپ کی ذات اقدس سے نسبت ہے عزیز و محبوب ہے۔ عاشقوں کے انداز ہی نرالے ہیں۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ راوی ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: عرب سے محبت کرو، تین باتوں کے سبب سے ، ایک تو یہ کہ میں عرب میں سے ہوں دوسری یہ کہ قرآن عربی زبان میں ہے تیسری یہ کہ جنتیوں کی زبان عربی ہے (بیہقی)
حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : اپنی اولاد کو تین چیزیں سکھائو۔
۱۔ اپنے آقا ﷺ سے محبت
۲۔ اہل بیت کی محبت
۳۔ اور قرآن کا پڑھنا (جامع الصغیر، کثیر العمال، دیلمی، مختار الاحادیث)
آپ عاشق زار تھے اسی لئے عشق و سوز کو بڑھانے کیلئے ’’محفل نعت‘‘ کا اکثر اہتمام فرماتے تھے۔ آپ کے شاگرد حضرت مولانا محمد ہاشم نوابشاہی بتاتے ہیں کہ روزانہ تہجد کے وقت مجھے نیند سے اٹھاتے تھے اور خود نوافل میں مشغول ہوجاتے اور میں صوفیانہ غزل، نعت، مولود شریف اپنی سریری آواز میں پڑھتا تھا ۔ اگر مجھے نیند آجاتی تو جگا دیتے تھے۔
آپ نعت شریف کو محبوب رکھتے تھے ، نعت آپ کی روحانی غذا تھی، جس کے سننے سے روح میں راحت، دل میں سرور پاتے
تلامذہ:
آپ کے بے شمار شاگر دہیں ان میں بعض کے اسماء گرامی درج ذیل ہیں:
٭ مولانا مفتی حامد اللہ میمن
گوٹھ بیلو تحصیل سجاول ضلع ٹھٹھہ
٭ حضرت مولانا محمد ہاشم انصاری
خطیب جامع مسجد نوابشاہ
٭ حضرت مخدوم غلام محمد ملکانی
بانی درگاہ ملکانی شریف دادو
٭ مولانا محمد اسماعیل سومرو
٭ مولانا محمد آگرو
نزد گوٹھ فیروز شاہ
٭ مولانا احمد ڈاہری
گوٹھ کرم پور تحصیل سیوہن شریف
٭ مولانا حزب اللہ
ہالانی
٭ مولانا اللہ دتہ
ٹنڈو شہبازی تحصیل سیوہن
٭ مولانا حافظ محمد صادق گلال
گوٹھ تھرڑی محبت تحصیل میہڑ
٭ مولانا رضا محمد
دولت پور تحصیل مورو
٭ مولانا محمد ملوک
نزد میہڑ
٭ مولانا محمد صدیق
نزد سیوہن شریف
وصال:
عاشق خیر الوریٰ ، ملک العلمائ، علامہ عطا اللہ فیروزشاہی نے ۱۶ ، رجب المرجب ۱۳۲۵ھ/۱۹۰۷ء کو وصال کیا ۔ آپ کا مزار پر انوار گوٹھ فیروز شاہ تحصیل میہڑ میں مرجع خلائق ہے۔ مزار شریف پر زائرین کی آسانی و سہولت کیلئے ایک کمرہ بنا ہوا ہے۔ مولانا ہدایت اللہ ہالا والے نے آپ کی وفات پر قطعہ تاریخ فارسی زبان میں رقم کیا اور ہاتھوں سے کاشی کی اینٹ پ رمنقش کراکے مزار شیرف پر کتبہ لگوایا۔
مولانا ہدایت اللہ نے تاریخ کا مادہ ’’مغفرہ‘‘ (۱۳۲۵ھ) سے نکالا اور مولوی دین محمد ادیبؔ نے سال وصال ’’تذکرہ‘‘ (۱۳۲۵ھ) سے نکالا ۔ (ماخوذ: مہران سوانح ۱۹۵۷ئ)
(انوارِ علماءِ اہلسنت سندھ)