قمر رضا بریلوی، نبیرۂ اعلیٰ حضرت، علامہ محمد، رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
اللہ ہی کا ہے جو اس نے دیا اور جو اس نے لیا اور ہر شے کی اس کے یہاں ایک مقدار مقرر ہے، دنیا میں جو آیا ہے اسے ایک نہ ایک دن فیصلہ کل نفس ذائقۃ الموت کے تحت جانا ہے، ہر دن ہزاروں آتے ہیں اور ہزاروں جاتے ہیں نہ ان کا آنا کوئی بڑی خوشی کی بات ،
نہ انکا جانا کوئی بڑا صدمہ شمار، پر بندگانِ خُدا میں سے کوئی فرد ایسا ہوتا ہے کہ جس کے آنے سے اَن گنت لوگوں کو خوشی ہوتی ہے اور جانے پر بےشمار آنکھیں اشکبار، یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ چن لیتا ہے، ان کے دلوں میں اپنی اور اپنے محبوب منزہ عن العیوب علیہ الف الف صلوٰۃ والسلام کی الفت و محبت نقش فرمادیتا ہے، اور ان کا انتخاب دینِ مبین کی خدمت کے لئے فرماتا ہے، اب خواہ وہ خدمتِ دین بصورتِ خدمتِ خلق ہو جیسا کہ ابدالِ کرام انجام دیتے ہیں یا وہ خدمتِ دین بصورتِ استنباط مسائل شرعیہ ، تدریس و تصنیفات کتب دینیہ یا تقاریر بعنوان اصلاح عقائد و اعمال کے ہوں جیسے کہ فقہائے کرام و علماء اکرام انجام دیتے ہیں، مذکورہ ہر دو طریق پر خدمت اصلاً خدمت دین ہی ہے۔
انہی منتخب اور خوش بخت لوگوں میں سے ایک نبیرۂ اعلیٰ حضرت و حجۃالاسلام ، نواسۂ حضور مفتی اعظم عالم اسلام، شہزادۂ مفسر اعظم ہند یعنی حضور قمر ملّت علامہ ڈاکٹر قمر رضا خاں صاحب کی ذات مسعود ہے، جن کے داغِ فراق نے جو زخم دیا ہے اس کا اندمال جلد ممکن نہیں۔
مقصد تحریر اینکہ چند سطور بطور مضمون حضور قمر ملت کے حوالے سے پیش کروں، یوں تو خانوادۂ اعلیٰ حضرت کا ہر فرد بذاتِ خود متعارف ہے اور پھر موصوف کے تو کیا کہنے؟… کیا بتاؤں کہ وہ کون تھے؟… کیا تھے؟… کیسے تھے؟ … بس شرافت نفس کا اعلیٰ کردار تھے… تواضع وانکسار کا مہکتا گلزار تھے… قرابت داروں کا مونس و غمخوار تھے…بس ایک مصرعے میں تو وہ ایسے تھے کہ
جو کچھ کہا تیرا حسن ہوگیا محدود
ان کی شخصیت کا مکمل تعارف تو اس مصرعے سے ہوگیا پر تقاضائے مضمون ہیں کچھ اور بھی… جس کے پیش نظر یہ حقیر مزید پر مجبور بھی۔
مولد و مسکن:
حضرت محلہ سوداگران رضا نگر سے متصل محلہ خواجہ قطب بریلی شریف میں بتاریخ 14جولائی1946ءاور ہجری کے اعتبار سے 14 شعبان 1365ھ پیدا ہوئے۔
نام و نسب شریف:
محمد قمر رضا بن محمد ابراہیم رضا۲ بن محمد حامد رضا۳ بن امام احمد رضا خاں۱ بن علامہ نقی علی خان۲ بن علامہ رضا علی خان۱ علیہم الرحمۃ الرضوان۔
تعلیم و تربیت:
خاندانی دستور کے مطابق چار سال چار ماہ چار دن کی عمر مبارک میں حضرت کی رسم بسم اللہ خوانی ہوئی، اس کے بعد ابتدائی تعلیم والد ماجد مفسر اعظم ہند علیہ الرحمۃ المنان سے ہی حاصل کی، بعد ازیں عربی فارسی اور دینیات کی تعلیم یاد گار اعلیٰ حضرت جامعہ رضویہ منظر اسلام سے حاصل کی۔
علی گڑھ روانگی:
دینی تعلیم کے بعد تقریباً 1966ءمیں عصری تعلیم کیلئے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی تشریف لےگئے۔۲
بیعت و خلافت:
شعور کی منزل پر پہنچ کر تقریباً 1960ءمیں سرکار مفتیٔ اعظم عالم اسلام علیہ الرحمۃ الرضوانسے بیعت ہوئے، 1984ءمیں اہلِ سلسلہ حضرات کے پُرزَور اصرار پر بیعت و ارشاد کی طرف مائل ہوئے اور حضرت صدر العلماء بدر العرفاءنے سلسلہ رضویہ کے فروغ کیلئے خلافت و اجازت سے نوازا اور تعویذات کی مشق بھی کرائی، علاوہ ازیں علوم دینیات کی تکمیل بھی ان سے ہی کی۔
عقد نکاح:
حضور قمر ملت اعلیٰ حضرت سے نسباً نجیب الطرفین ہیں، ایک تو خود عالم دین بھی ہوئے اور اعلیٰ حضرت سے ایسی قربت، ان دو فضیلتوں کا اجتماع اس بات کا متقاضی تھا کہ حضرت کا ہمسفر اور ہم راز بھی اسی شان کا مالک ہو، چنانچہ یہ تقاضہ بھی پورا ہوا اور حضرت کا نکاح 12 جنوری1975ءمیں نواسئ حضور مفتی اعظم عالم اسلام سے ہوا، جنہوں نے اپنی پوری زندگی حضرت کے ساتھ نہایت ذمہ داری اور پاسداری سے گزاردی، خود حضرت بھی اس کا اظہار اکثر فرمایا کرتے تھے اس طور پر کہ کوئی بھی کام مثلاً بچوں کی تعلیم و تربیت ، شادی بیاہ اور جملہ خانگی معاملات جو حسن انجام کو پہنچتے اور اس پر کوئی انہیں مبارکباد پیش کرتا تو بطور چاہت و محبت یوں فرماتے کہ ’’یہ سب میری بیوی کی کرامت ہے‘‘، اور کیوں نہ فرماتے کہ یہ وہی نواسی ہیں کہ جنہیں ایک دفعہ حضور مفتی اعظم ہند نے گود میں اٹھا کر فرمایا ’’یہ بہت خوش نصیب بچی ہے‘‘، سونے پہ سہاگہ یہ رہا کہ یہ نکاح خود حضور مفتی اعظم ہند نے پڑھایا۔
اولادو امجاد:
حضرت کے تین شہزادے اور ایک شہزادی ہے چاروں ہی شادی شدہ ہیں۔
شہزادۂ اکبر:
حضرت مولانا عمر رضا خاں صاحب قبلہ دامت برکاتہم، اردو ادب اور انگلش میں ڈبل MAہیں، حال ہی میں B.Edبھی کیا ہے، علم ریاضی میں ملکہ انہیں موروثی ہے، اس حقیر نے ان سے اس فن کو پڑھا ہے اگر مستقل پڑھتا تو یقینا ماہر ہوجاتا پر عدم معیت کی وجہ عدم مہارت بنی، علاوہ ازیں مُروّجہ درسِ نظامی میں آپ نے مشکوٰۃ المصابیح تک پڑھا ہے جو مدارس میں چھٹے درجے میں پڑھائی جاتی ہے، بقیہ تعلیم وبوجہ علالت رہ گئی لیکن مولانا اسے تکمیل کے مراحل میں لانے کا عزم رکھتے ہیں، دعا ہے کہ مولا تعالیٰ انہیں اس میں کامیابی عطا فرمائے، آپ کے دو شہزادے بنام محمد انور رضا، محمد رضا اور ایک شہزادی بنام رداء فاطمہ ہے۔
شہزادہ متوسط و اصغر:
مولانا عامر رضا خان صاحب اور جناب مولاناعاصم رضا خان صاحب یہ دونوں صاحبزادگان کمپیوٹر فیلڈ میں خاص مہارت رکھتے ہیں، عامر رضا خان صاحب خوش گلو ثناء خواں ہیں آپ کا ایک شہزادہ بنام محمد مصطفی رضا ہے، اور عاصم رضا خان صاحب
قرأت بہت اچھی کرتے ہیں آپ کا نکاح ہو چکا ہے رخصتی عمل میں نہیں آئی ہے۔
دختر نیک اختر:
حضرت کی ایک شہزادی ہے جو چند رپور مہاراشٹر میں سید حمیر حسن صاحب سے منسوب ہے آپ کی دوسری شہزادی بنام صوفیہ ہے۔
رشد و ہدایت و تبلیغی اسفار:
مذہب مہذب اہلسنت و جماعت کی ترویج اور نشر و اشاعت کیلئے آپ نے ملک و بیرون ملک کے سفر 1984ءسے تادم زیست فرمائے، جن میں قابل ذکر عراق، عرب، پاکستان، یوپی، سری لنکا کے علاوہ بہار، بنگال، جھارکھنڈ، آسام، گجرات، راجھستان، مہاراشٹر، ایم پی آندھرا پردیش اور کشمیر وغیرہ صوبائی اور ملکی سطح پر آپ نے بیشمار سفر کرکے سلسلہ رضویہ کو بے پناہ فروغ بخشا۔ آپ اکثر دَورے دیہاتوں اور نواحی بستیوں میں فرماتے تھے، چنانچہ آج آپ کے مریدین کی تعداد لاکھوں میں ہے۔۲
فضائل و کمالات:
حضرت نہایت ذہین تھے، ذکاوت تو انہیں اپنے جَدِّ اعلیٰ امام اہلسنت سے ورثے میں ملی تھی، عربی، فارسی، اردو، ہندی اور انگریزی زبانوں کے علاوہ آپ کوسائنس، ریاضی ، علم الاعداد اور تاریخ گوئی وغیرہ علوم پر یدطولی حاصل تھا، حتیٰ کہ حضور تاج الشریعہ سے بھی اگر کسی نے کہا کہ حضور کسی کتاب کا یا ادارے کا تاریخی نام تجویز فرمائیں تو حضرت بھی یہی فرماتے کہ یہ کام قمر میاں سے لو، شمسی تاریخ سے قمری تاریخ بلا تردد نکال دیا کرتے تھے۔۱
اپنے آپ میں ایک فعال اور متحرک تنظیم کی حیثیت رکھتے تھے، ہزاروں غیر مسلم آپ کے نورانی چہرے کو دیکھ کر مسلمان ہوگئے،۲
ایک موقع پر آپ کسی انجان بستی یا گاؤں سے گزر رہے تھے اسی اثناء میں آپ نے گاڑی رکوائی اور فرمایا کہ یہاں کوئی تکلیف زدہ ہے، اور اتر کر خود ہی بغیر کسی رہنمائی کے اس گھر کو پہنچ گئے، اس گھر کے رہائشی بد مذہب تھے ان کا اکلوتا بچہ جو بسببِ عَلالت حالت مرگ کو جا پہنچا تھا، حضرت نے اس پر دم فرمایا وہ اسی وقت ٹھیک ہوگیا، یہ کرامت دیکھ کر سب اسی وقت سُنّی صحیح العقیدہ مسلمان ہوگئے اور حضرت سے بیعت بھی ہوگئے، آپ مُستجابُ الدعوات تھے اور آپ کی دعا نہایت سَریعُ الاثر ہوا کرتی تھی، جس بیمار پر بھی آپ دم فرماتے اگر مشیتِ ایزدی میں اس کی زندگی بصحت و عافیت ہے تو اسی وقت ٹھیک ہوجاتا ، خود اس حقیر کے والدمحترم جو بلڈ پریشر کے شکار تھے ایک دفعہ حضرت نے بذریعہ ٹیلی فون کان میں دعا پڑھی تب سے اب تک بفضلہ تعالیٰ و بحمدہٖ تعالی و بعونہ تعالیٰ بلڈ پریشر کی شکایت نہیں ہوئی، الحمد للہ! خود اس حقیر کے کئی کام انہی کی دعا سے بنے ایسے کام جو بظاہر نا ممکن نظر آتے تھے حضرت کا یہ فرمانا ہوتا تھا کہ ’’ہوجائے گا‘‘ ہو کر ہی رہتا تھا، ایک دفعہ ایسا ہوا کہ ایک سائل حاضرِ خدمت ہوا اور کہنا ہی چاہتا تھا کہ حضرت نے فوراً فرمایا تیرا یہ مسئلہ ہے اور اس کا حل یہ ہے، اس واقعہ کا یہ حقیر عینی شاہد ہے۔
وصال کی پیشنگوئی:
آپ اپنے وصال کی خبر یں بھی کئی بار دے چکے تھے، مثلاً جب ڈھائی تین سال قبل ہم بریلی شریف میں تھے تو واپسی پر حضرت ہمیں دہلی تک چھوڑنے آئے یہ کہہ کر کہ میں تم لوگوں کو آخری بار چھوڑ آؤں، اور پاکستان میں جب فون پر بات ہوتی تھی تو عاصم رضا خان صاحب کی شادی کے حوالے سے فرماتے تھے کہ اس کی شادی تو تم لوگ کرو گے میں تو نہیں ہونگا، ہم کبھی ان کی بات سمجھ ہی نہ سکے، ایک حافظ صاحب نے حضرت سے مُصَلّیٰ سنانے کے لئے مسجد میں جگہ مانگی حضرت نے انہیں اپنا موبائل نمبر دے دیا اور فرمایا تم بریلی آجانا میرے بچے تمہارا کام کرادیں گے میرے پاس اب وقت نہیں ہے، قبل از وصال جہاں دَور ے پرسے آئے تھے وہاں اپنے مریدین ، معتقدین اور متوسلین کو بھی اس بات سے آگاہ فرما دیا تھا کہ یہ ہماری آخری ملاقات ہے۔
آپ نہایت شفیق اور مہربان تھے، اپنے مریدین پر بھی اتنے شفیق تھے جیسے کوئی باپ اپنے حقیقی بچوں پر ہوتا ہے، کئی لوگوں کی شادیاں آپ نے اپنے خرچے پر کرائیں، خدمت خلق کو اپنی حیات کا نصب العین بنا لیا تھا، آپ ایک دارالعلوم بھی اپنی جیب خاص سے چلا رہے تھے، آپ نہایت منکسر المزاج اور شہرت سے دور رہنے والے تھے، یہی وجہ ہے کہ آپ کے ان معاملا ت کا علم آپ کے اہل خانہ کو بعد از وصال ہوا، المختصر آپ گوناگوں خوبیوں کے مالک تھے جن کا احاطہ اس مختصر سی تحریر میں ممکن نہیں، چند الفاظ میں آپ ’’اشد اء علی الکفار رحماء بینھم‘‘ اور ’’الحب فی اللہ والبغض فی اللہ‘‘ کی جیتی جاگتی تفسیر تھے یہی وجہ ہے کہ آپ اس شان سے گئے کہ ایک نے خواب میں دیکھا کہ حضور غوث اعظم کا جنازہ جارہا ہے اور حضرت تاج الشریعۃ دامت برکاتہم العالیہ فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ قمر میاں کو اعلیٰ حضرت لینے آئے ہیں۔
وصالِ پُر ملال:
بروایت شہزادۂ اکبر مولانا عمر رضا خان صاحب آپ کافی وقت سے ’’شوگر‘‘ اور ’’ہارٹ ‘‘ کے مریض تھے۱
اس کے باوجود آپ تبلیغی اسفار برابر فرمارہے تھے، 24جون کو رات میں آپ کی طبیعت معمول کے مطابق کچھ ناساز تھی اور شوگر بڑھی ہوئی تھی۲
لہٰذا ڈاکٹر نے دوا دے کر آرام کی تلقین کرتے ہوئے کہا کہ پریشانی کی کوئی بات نہیں ۔ دوسرے دن 25جون، 2012ء بمطابق 5 شعبان 1433ھ کو معمول کے مطابق شوگر بڑھ گئی ایک بجے رات کا کھانا کھایا اور پھر ڈیڑھ بجے رات خلف اکبر مولانا عمر رضا خان صاحب نے دوا کھلا کر ان کے کمرے میں لٹا دیا، صبح کو جب نماز فجر کو بیدار نہ ہوئے تو خادم کو تشویش ہوئی اس نے آپ کو جگانا چاہا اس عمل سے پتہ چلا کہ آپ ابدی نیند سوگئے،۳
اہل خانہ کے تو پیروں تلے زمین نکل گئی، آناً فاناً میں اس حادثہ جانکاہ کی خبر وحشت اثر موبائل فون، ایس ایم ایس، اور انٹرنیٹ کے ذریعے ملک و بیرون ملک جنگل کی آگ کی طرح پھیلتی چلی گئی، حضور صاحب سجادہ نشین۱مدظلہٗ العالی نے اس خبر کو سن کر فوراً کلمات ترجیع پڑھ کر نمناک اور گلوگیر آواز میں جامعہ منظر اسلام کی دو روزہ تعطیل اور قرآن خوانی برائے ایصال ثواب کا حکم صادر فرمایا،
کراچی دارالعلوم امجدیہ میں بھی ایصال ثواب کی محفل منعقد کی گئی، قمرِ ملّت کا پردہ فرمانا نہ صرف خانوادۂ اعلیٰ حضرت کا نقصان بلکہ پوری سُنِّیت کا نقصان ہے، قمرِ ملّت اب ہم میں نہیں رہے، یہ ایک ایسی تلخ حقیقت ہے کہ جس کی تلخی نے نہ جانے کتنے دلوں کو غم و حزن میں ڈبو دیا ہے۔
نماز جنازہ و تدفین:
27جون بروز بدھ بعد نماز عصر اسلامیہ انٹر کالج میدان میں نماز جنازہ کا اعلان کیا گیا تھا، لہٰذا اعلان کے مطابق حضور صاحب سجادہ اور خاندان کے دیگر بزرگوں کی موجودگی میں انتہائی شان و شوکت کے ساتھ جلوسِ جنازہ، کعبہ کے بدرالدجیٰ تم پہ کروڑوں درود کے مقدس و باعظمت نغموں کے سائے میں خواجہ قطب سے بی بی جی مسجد اور بہاری پور ہوتا ہوا اسلامیہ میدان میں پہنچا ،جہاں ہر طرف عشاق کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر، ٹوپی و عمامہ اور سفید و پاکیزہ لباس میں ملبوس ایک روحانی و نورانی منظر پیش کر رہا تھا۲
قمرِ ملّت کی وصیّت کے مطابق حضرت کی نماز جنازہ حضرت کے برادر اکبر حضور تاج الشریعہ بدرالطریقہ حضرت مفتی محمد اختر رضا خاں ازہری مدظلہ النورانی نے پڑھائی،۱
مغرب کے وقت قبہ رضویہ کے اندر تدفین عمل میں آئی۲
اور رات گئے مٹی دینے کا سلسلہ جاری رہا۔
قبلہ قمر رضا خاں صاحب نے اپنے پسماندگان میں اپنی اہلیہ ، ایک شہزادی اور تین شہزادوں کوچھوڑا ہے، مولیٰ تعالیٰ سے دعا ہے کہ موصوف کے شہزادگان کو ان کا صحیح جانشین بنائے اور ان کے لواحقین، معتقدین ، مریدین، متوسلین کو صبرِ جمیل و اجرِ جزیل عطا فرمائے ۔ آمین بجاہ سیّد الامین والمرسلین
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزۂ نور ستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
آہ نبیرہ اعلیٰ حضرت علامہ ڈاکٹر محمد قمر رضا بریلوی
از: حضرت علامہ مولانا محمد حسن علی الرضوی میلسی[1]
یہ خبر اندوہ اثر نہایت رنج و ملال کے ساتھ پڑھی جائے گی کہ نبیرۂ اعلیٰ حضرت یعنی سیّدنا حجۃ الاسلام مولانا شاہ محمد حامد رضا خان صاحب بریلوی کے پوتے شیخ الشیوخ العالم مفتی اعظم علامہ الشاہ مصطفیٰ رضا خان صاحب نوری بریلوی قدس سرہٗ کے نواسے ریحان ملت علامہ مفتی ریحان رضا خان صاحب اور تاج الشریعہ علامہ مفتی محمد اختر رضا ازہری میاں قادری رضوی کے برادر عزیزی، مفسر اعظم مولانا شاہ علامہ محمد ابراہیم رضا خان جیلانی میاں کے فرزند دلبند گذشتہ ماہ دیار علم فضل شہر عشق و محبت مرکز اہلسنّت بریلی شریف میں وصال فرماگئے۔ انا للہ ونا الیہ راجعون۔
تاج الشریعہ فقیہ الہند جانشین مفتی اعظم حضرت علامہ مفتی محمد اختر رضا خان صاحب قادری ازہری مدظلہ العالی نے نماز جنازہ پڑھائی۔ مدینہ طیبہ سے جناب محب محترم محب مسلک اعلیٰ حضرت الحاج محمد عبدالرزاق راجہ بھائی قادری رضوی زید مجدہٗ کی اطلاع کے مطابق حضرت صاحبزادہ محمد قمر رضا علیہ الرحمۃ کو خانقاۂِ عالیہ رضویہ میں اپنے عظیم المرتبت والد گرامی مفسر اعظم جیلانی میاں اور سیّدنا حضور مفتی اعظم کے مقدس مزاروں کے درمیان میں دفن کیا گیا جو بڑی نعمت و بڑی سعادت اور خوش بختی ہے۔ علامہ محمد قمر رضا اپنے جد امجد سیدنا حجۃ الاسلام کے خدا داد حسن و جمال کے مظہر اور حضرت تاج الشریعہ کے ہم شبیہہ ہم شکل تھے۔
آپ کا تاریخی نام قمر رضا بحساب ابجد 1433ھ جو سن وفات پر دال ہے جو آپ کے جدّ امجد کی کرامت فراست و بصیرت کا مظہر و عکاس ہے۔ آپ متبع سنت و شریعت بحساب ابجد فن تاریخ گوئی میں کمال اور ید طولیٰ رکھتے تھے۔ سیدنا اعلیٰ حضرت کی اولاد و امجاد پر یہ سرکار رسالت و سرکار غوثیت کا کرم اور فیضانِ اتم ہے کہ آج آٹھ پشتو ں سے فاضل ابن فاضل ابن فاضل محقق ابن محقق محقق ابن محقق اور متبع سنت و شریعت چلے آرہے ہیں۔علامہ مفتی محمد ریحان رضا خاں ریحانی کی اولاد میں الحاج علامہ سبحان رضا سبحانی میاں مہتمم منظر اسلام سجادہ نشین اور عالمی مبلغِ اسلام خطیبِ ایشیا و یورپ علامہ توصیف رضا خاں بریلوی اور پھر علامہ مفتی محمد اختر رضا ازہری میاں مدظلہ کے خلف گرامی مولانا علامہ امجد رضا خان بریلوی اور الحاج مولانا علامہ سبحان رضا سبحانی میاں مدظلہ کے صاحبزادہ والا جاہ مولانا احسن رضا نوری رضوی بھی مستند فاضل و عالم دین ہیں۔ اس طرح نو دس پشتوں تک عالم و فاضل ہوتے چلے آرہے ہیں ۔ مولیٰ عزوجل آستانہ رضویہ کو سدا بہار رکھے ۔ آمین
الفقیر: محمد حسن علی الرضوی غفرلہ
میلسی، پنجاب
قمر ملت، مشکبار شخصیت
علامہ نسیم احمد صدیقی نوری مدظلہ
اللہ سبحانہ تعالیٰ عزوجل نے عالمین تخلیق فرمائے، اور تمام عوالم میں مختلف النوع مخلوق تخلیق فرمائیں، عالمین میں واضح طور پر دو قسمیں ہیں،
اول....... کائنات (غیر مادّی)
دوم....... کائنات (مادّی)
اول: غیر مادّی کائنات میں بغیر سبب اور بلا تعین وقت تخلیقی عمل ہوتا رہتا ہے، نیز عمل تخلیق___ اکملیت کا سفر بھی بغیر جاری رہتا ہے۔
دوم: ہماری مادّی کائنات میں ہر عمل سبب سے اور وقت سے ظہور پذیر ہوتا ہے،نیز کمال درجات کے حصول کا سفر ارتقاء کے انداز میں بتدریج طے ہوتا ہے۔
اس اجمال کی تفصیل اور وضاحت یوں کی جاسکتی ہے کہ غیر مادّی کائنات کی مخلوق میں تقویم و توقیت اثر انداز نہیں ہوتے اور نہ ہی ان میں قوت نمو پائی جاتی ہے۔ جبکہ ہماری مادّی کائنات میں اعمال و اشغال کا مدارگردش لیل و نہار پر ہے۔ مخلوق میں نشونما کی قوت کارفرما ہوتی ہے، اسی باعث قدیم و جدید کا نظریہ رائج ہے۔ نباتات، حیوانات، اور انسان و جنات سب میں پیدائش اور اموات کا نظام قائم ہے، بچپن، لڑکپن، جوانی اور بڑھاپا، ان ادوار سے سب کو گزرنا پڑتا ہے۔ راقم کا موضوعِ سخن ’’انسان‘‘ہے لہٰذا صرف انسان کی خصوصیات زیر بحث ہیں ۔ انسانی زندگی مختلف ادوار سے گزرتی ہے۔ مقدار حیات میں تفاوت کے باعث بعض اجسام آغوش لحد سے قریب اور بعض بعید اور اکثر آسودۂ خاک ہوگئے ہیں۔
انسانی تاریخ میں نیکی و بدی، عدل و ظلم، ایثار و خود غرضی اور ملنساری و بے کیفی کا امتزاج لیے افراد،معاشرہ میں موجود رہے ہیں، موجود ہیں اور رہیں گے، ہاں البتہ ہر دو صفات (مثبت و منفی) سے متصف افراد کے مابین پیمانۂ توازن میں مد و جزر کا رجحان رہتا ہے۔
قارئین محترم!
اگر ظلم و نا انصافی اور خود غرضی و انانیت کے عفریت کے مقابل انسان دوست کے مسکراتے اور غموں کے بانٹتے چہرے نہ ہوتے تو ہماری آج کی دنیا خوں آشام ڈائنوسار ہی کی آماجگاہ ہوتی۔ انسانی خرد مندی کا یہ تقاضا بھی تھا کہ انسان اپنے خالق کی عطا کردہ قوت مدرکہ کی بنیاد پر اچھائی اور برائی میں امتیاز کی صلاحیت سے مالا مال ہو۔
مختلف اوصاف و خصائل کے باعث انسانوں اور جنات میں درجہ بندی ہے۔ انسیت و مؤدّت ایسے فطری اوصاف ہیں، جو انسانی جبلّت کا حصہ ہیں اور اللہ تعالیٰ نے انسانی تخلیق میں یہ عنصر شامل رکھا ہے۔ اسی باعث بعض انسان اس مرتبہ کے حامل ہوتے ہیں جو کسی آسمانی خبر کے بغیر فطری طور پر رنگ فطرت اور تخلیقی جبلّت سے آراستہ ہوتے ہیں، ایسے انسان اپنی زندگی کو دنیا میں دوسروں سے بے نیاز ہوکر گزاردیتے ہیں۔ جبکہ بعض اہل دنیا کے لیے ا پنی زندگی کو پاکیزہ اور مثالی بنالیتے ہیں ___ لیکن فقیر بندۂ بے توقیر اپنے قارئین کو ایسے عظیم اور قابل رشک انسانوں میں سے ایک ایسے مونس، محسن، انسان کی خوبصورت زندگی کے مختلف گوشوں سے متعارف کرانے کی سعادت عظمیٰ حاصل کر رہا ہے، جو ابدی و دائمی کامیابی کے لیے دنیا کو، امتحان گاہ اور آخرت کی کھیتی سمجھتے ہیں۔ ترک آسائش اور جملہ آزمائش کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ مبتلائے ظلمت کے لیے خورشید و قمر__بے اماں کے لیے سایہ دار شجر__ مصطفائی ملت کا فرید دہر__ پُر فتن زمانہ کا وحید عصر__ پر نور بشرہ، متبسم چہرہ__ خوش مزاج__ آشنائے سماج__ عالم علوم قدیمہ و جدیدہ__مرشد و داعئ طالبین مجاہدہ__وسیع الجہت__عظیم المرتبت__ عالی منزلت__ کثیر البرکت__ سادہ طبیعت__ نیک طینت__ یہ ہیں قمر ملت__ حضرت محمد قمر رضا کے بارے میں متذکرہ تمہیدی کلمات جو رقم کیے گئے ہیں، درحقیقت موصوف کے محاسن اس سے بھی سوا ہیں۔
قارئین محترم!
حضرت قمر ملت محمد قمر رضا خان کی شخصیت ہمہ صفت تھی، خوش خلق اور خوش خُلق تھے، عمدہ خصائص سے معمور، عیوب و نقائص سے دور تھے۔ حضرت قمر رضا کی مبارک زندگی کے شب و روز کا مشاہدہ کرنے والوں کا یہ کہنا ہے کہ مرحوم کے ترتیب دیئے گئے نظام الاوقات میں بہت برکت تھی، اور اس امر کی دلیل یہ ہے کہ ہجوم مشتاقاں سے ملاقات کی کثرت، دور دراز کے اسفار کی کثرت، تبلیغی مشاغل کی کثرت، جس انداز و اعتبار سے آپ کی ذات سے ہویدا تھی، خانوادۂ اعلیٰ حضرت میں یہ شان حضور مفتی اعظم قدس السرہ کے بعد آپ کا ہی طرۂ امتیاز رہی ہے۔
اس مضمون کا مقصد بھی محض سوانح عمری ترتیب دینا نہیں، بلکہ مومنانہ و عالمانہ صفات سے متصف ہوکر زندگی کے شب و روز کا ایک ایک لمحہ دین مصطفےٰﷺ کی خدمت میں مصروف ہوکر جس انداز میں گزارا ہے اور دین کے ابلاغ کے لیے کٹھن سے کٹھن اور دشوار سے دشوار جو سفر کیے ہیں، اُن اسفار کو زینت قرطاس بنایا ہے۔
حضرت قمر ملت اپنی شکل و صورت اور وجاہت و قامت میں اپنے برادر اکبر شیخ الاسلام و المسلمین، زین العلماء والدین، تاج الشریعہ، بدر الطریقہ، حضرت علامہ مفتی محمد اختر رضا خاں الازہری مدظلہ العالی کے مثل و عکس تھے۔
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا محدث بریلوی کی اولاد و امجاد میں شہزادگان:
حجۃ الاسلام حضرت العلام مولانا حامد رضا خاں، مفتی اعظم عالم اسلام حضرت العلام محمد مصطفیٰ رضا خاں فقیہہ بریلوی علیہما الرحمۃ اولاد ذکور کے علاوہ اولاد اناث تمام متبع سنت ہی رہے ہیں۔ تاہم سماج کی ناقدانہ نگاہوں میں جملہ اخلاف ذکور ہی کے معمولات ہوتے ہیں، اس اعتبار سے یہ امر لائق صد تحسین ہے کہ دور حاضرہ میں فواحشات منکرہ اور خواہشات باطلہ کے باجود میرے عالی مرتبت اعلیٰ حضرت کے پوتے، پڑ پوتے، نواسے، پڑنواسے وغیرہ سب کا شمار، مدنی تاجدارﷺ کے عاشقوں اور مطیعوں میں ہوتا ہے، نیز اپنی استعداد و قابلیت اور روحانیت کے موافق ابلاغ دین میں اور وابستگان سلسلہ (رضویہ، نوریہ و برکاتیہ) کو فیضیاب کرنے میں ہمہ تن مصروف و مشغول ہیں۔ اعلیٰ حضرت کے کنبہ کے افراد مختلف جہات میں اپنے جد کریم کے مظہر ہیں۔ راقم السطور، زیر نظر مضمون میں چمن اعلیٰ حضرت میں سے فی الوقت عدیم الفرصتی کے باعث صرف ایک مہکتے پھول کو چُن کر اُس کی مہکار کو گلدستہ بناکر وابستگان سلسلۂ رضویہ اور تمام اہلسنت و جماعت کے ابراجِ عقیدت کی زینت بنانا چاہتا ہے۔ یعنی صرف حضرت قمر ملت محمد قمر رضا خاں کا مبارک ذکر کرنا چاہتا ہے۔ آسمان اعلیٰ حضرت کی علمی کہکشاں پر مرقومہ مضمون کی طرح اعلیٰ حضرت کی نسبی کہکشاں کا تعارف انشاء اللہ تعالیٰ باقاعدہ تحقیقی کتاب میں پیش کیا جائے گا۔
قارئین محترم!
انوار العلوم کی توانائی کا سورج ’’اعلیٰ حضرت‘‘ ہیں، اور سنی رضوی بریلوی سولر سسٹم کا چاند،’’قمر رضا‘‘ ہیں۔فقیر حقیر بندۂ بے توقیر کے ممدوح محترم متذکرہ سطور میں رقم کردہ جملہ کی مناسبت سے اس طور اعلیٰ حضرت کے مظہر ہیں کہ لاکھوں مسلمانوں کے ہاتھوں کوپکڑ کر انہیں اعلیٰ حضرت کے وسیلہ سے،سرکار ولیوں کے سردار حضور غوث الاعظم کے دامن سے وابستہ کردیا ۔ یہ امر باعث حیرت ہے کہ اعلیٰ حضرت کی عمر شریف ہی کی طرح حضرت قمر رضا کی عمر بھی ۶۸ برس ہی ہوئی۔ 1365ھ کے شعبان کی 14تاریخ تا 1433ھ شعبان کی 5تاریخ تک 68 سالہ دورانیہ میں خورشید اعلیٰ حضرت کا__’’قمر‘‘ مختلف جغرافیائے عالم کے مطلع پر طلوع ہوتا رہا ۔ شاعر مشرق ڈاکٹر محمد اقبال کے ایک مطلع کے مصداق ۔۔
چین و عرب ہمارا، ہندوستاں ہمارا
مسلم ہیں ہم وطن ہے، سارا جہاں ہمارا
1405ھ تا 1433ھ یعنی 28 سال کے طویل عرصہ پر محیط تبلیغی اسفار فرمائے حتیٰ کہ اپنے وصال بہ کمال تک سفر میں مصروف عمل رہے۔
ولادت کے موقع پر اقوام عالم اور برصغیر کا ماحول:
دوسری جنگ عظیم کے بعد جب متحدہ ہندستان کے دینی، سیاسی، معاشی، تعلیمی اور تمدنی حالات نہایت دگرگوں تھے، سلطنت عثمانیہ کا شیرازہ بکھر چکا تھا، پے درپے جغرافیائے عرب کے تھوڑے تھوڑے رقبوں پر مشتمل نئی نئی اسلامی ریاستیں، برطانوی سامراج کے اشاروں پر تشکیل پا رہی تھیں۔ 1365ھ کی ربیع الاول شریف بمطابق فروری 1946ء کے مہینے میں ’’لبنان‘‘ نے اور جمادی الاول بمطابق اپریل 1946ء میں’’شام‘‘ نے آزاد ریاست کی حیثیت سے اپنی شناخت قائم کی۔ 1947ء میں ’’فلسطین‘‘ پر یہودیوں نے قبضہ کیا۔ تشکیلِ پاکستان کا عمل مکمل ہوا۔ سلطنتِ خداداد ’’حیدرآباد دکن‘‘ پر بھارت نے غاصبانہ قبضہ کیا۔ 27 دسمبر 1949ء میں ’’انڈونیشیا‘‘ آزاد ہوا۔ جب کہ ’’لیبیا‘‘ 1951ء میں فرانسیسی تسلّط سے آزاد ہوا۔
برطانوی سامراج نے یہ سازش تیار کی تھی کہ عربوں کو چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم کرکے بعض ریاستوں میں وہابیت اور بعض میں اہل تشیع کا غلبہ قائم کیاجائے۔ انگریزوں ہی نے ’’مصر‘‘ کے شاہ فاروق کو جلا وطن کردیا، اور یہاں بھی اصلاح کے نام پر وہابیت کو فروغ دینے کی کوشش کی۔
حصول پاکستان کی تحریک اپنے شباب پر تھی۔ 24 تا 27جمادی الاول 1365ھ بمطابق 27تا 30 اپریل 1946ء آل انڈیا سنی کانفرنس نہایت تزک و احتشام سے بنارس میں منعقد ہوئی۔ اس کانفرنس میں فکر امام احمد رضا بریلوی قدس السرہٗ کی متابعت و پیروی کرنے والے غیر منقسم ہندوستان کے اطراف و اکناف (قریب و دور) سے کثیر تعداد میں علماء و عوام اہلسنت شریک ہوئے۔ محتاط انداز سے مشاہدہ کرنے اور روایت بیان کرنے والوں کے مطابق ائمہ و خطباء مساجد اور علماء و اساتذہ کے علاوہ مشائخ کی تعداد پانچ ہزار سے زیادہ تھی، اس کانفرنس میں یہ تاریخی قرارداد منظور کی گئی کہ ’’قائد مسلم لیگ جناح صاحب اگر کبھی مطالبۂ پاکستان سے دستبردار ہو بھی گئے تاہم اہلسنت و جماعت پاکستان حاصل کرکے ہی دم لیں گے۔ ‘‘یہ تاریخی قرار داد امیر ملت سیّد جماعت علی شاہ محدث علی پوری کی تجویز و تائید سے محدث اعظم ہند علامہ سیّد محمد محدث اعظم کچھوچھوی نے پیش کی تھی۔
آل انڈیا سنی کانفرنس کے مرکزی اجلاس بنارس کے بعد اضلاع کی سطح پر بھی منعقد ہونے والی سنی کانفرنسوں کے تسلسل میں مکمل جغرافیائے ہند کے بیس کروڑ سنی مسلمانوں نے حصول پاکستان کو اپنا مقصد اور نصب العین قرار دیا۔ انڈین نیشنل کانگریس کو بھی مسترد کردیا۔ اس کے منشور یعنی ہندو مسلم اتحاد یا بھائی چارگی کے غیر فطری اور غیر منطقی نظریات اور نعروں کو قطعی مسترد کر دیا گیا۔
اس غیر فطری و غیر منطقی اتحاد کے داعیان، ابو الکلام آزاد، حسین احمد ٹانڈوی، محمود الحسن دیوبندی، کفایت اللہ دہلوی، عطاء اللہ بخاری، حفظ الرحمن سیوھاروی، عبید اللہ سندھی، تاج محمود امروٹی، مفتی محمود، عبدالحق اکوڑہ خٹک، حبیب الرحمٰن اعظمی، شمس الحق افغانی، احمد سعیدناظم جمعیۃ علماء ہند، حبیب الرحمن لدھیانوی، وغیرہ دیوبندی، وہابی راہنماؤں کی دریدہ ذہنیوں اورریشہ دوانیوں سے اسلامیان بر صغیر آگاہ ہوئے۔ ان کے نعرے ’’ہندو مسلم بھائی بھائی‘‘ یعنی اقوام اوطان سے پہچانی جاتی ہیں۔ ان نعروں کی زبردست مذمت کی گئی۔ شاعر مشرق ڈاکٹر محمد اقبال نے اسی موقع پر یہ تاریخی قطعہ ارشاد فرمایا تھا :
حسن ز بصرہ، بلال از حبش، صہیب از روم
زدیوبند حسین احمد ایں چہ بوالعجبی است
سرود بر سر منبر کہ ملت از وطن است
چہ بے خبرز مقام محمد عربی است
بمصطفٰی برساں خویش را کہ دیں ھمہ اوست
اگر باو نر سیدی تمام بولہبی است
مندرجہ تاریخی قطعہ کا مصرعہ اولیٰ کے متبادل دوسرا مصرعہ مندرجہ ذیل زیادہ معروف ہے۔
’’عجم ھنوز نداند رموزدیں ورنہ‘‘
شاعر مشرق، مصور پاکستان ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے اپنے اشعار کے ذریعے برصغیر میں بعض موقع پرستوں اور ابن الوقت افراد کے مکروہ افکار و خیالات کی مزید یوں عکاسی کی ہے۔
ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے
گفتار سیاست میں وطن اور ہی کچھ ہے
ارشاد نبوت میں وطن اور ہی کچھ ہے
اقوام میں مخلوق خدا بنتی ہے اس سے
قومیت اسلام کی جڑ کٹتی ہے اس سے
متذکرہ اشعار او راس کے علاوہ مزید کئی نظمیں علامہ اقبال نے کانگریسی ملاؤں (یعنی دارالعلوم دیوبند کے اساتذہ) کی مذمت میں کہے ہیں کہ جنہوں نے گاندھی اور نہرو کو اپنا رہنما اور رسول السلام مانا ہے۔
قارئین محترم!
فقیر راقم الحروف نے اِس اعتبار سے اُس دور کا اجمالی تعارف پیش کیا، تاکہ برصغیر میں پیش آمدہ مسائل اور ماحولیات کے سمندر میں کتنے ھشت پہل آکٹوپس، مہیب جوار بھاٹے اور مدو جزر پیدا ہورہے تھے۔ ایسے ہی ماحول میں سُنّی کانفرنس بنارس کے ٹھیک ڈھائی ماہ بعد ’’حضرت محمدقمر رضا‘‘ کی ولادت بریلی شریف میں ہوئی۔ قمری تقویم کے اعتبار سے 14، شعبان 1365ھ اور شمسی تقویم کے اعتبار سے 14 جولائی 1946ء یکشنبہ (اتوار) کے دن ہوئی۔
حضرت محمد قمر رضا جب اس دنیائے فانی میں تشریف لائے تو آپ کے والد محترم حضور مفسر اعظم کی عمر شریف انتالیس (39) سال کی ہوگئی تھی۔ برادر اکبر حضرت ریحان ملت ریحان رضا صاحب سے تیرہ(13) سال چھوٹے اور منجھلے بھائی حضور تاج الشریعہ حضرت مفتی محمد اختر رضا الازہری دام فیضہ القوی سے تین(3) سال چھوٹے تھے۔ جبکہ حضرت مولانا محمد منّان رضا صاحب مدظلہ العالی سے چند سال بڑے تھے۔ حضرت منان رضا عرف منّانی میاں نہایت منکسر المزاج شخصیت کے حامل ہیں۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اسی پیراگراف میں فقیر راقم الحروف دونوں بڑے برادران کی تاریخ ولادت قمری ہجری کلینڈر اور شمسی تقویم کے مطابق نقل کردے،تاکہ متحقق ہوجائے تاہم کوئی سقم یا استدراک ہو تو فقیر کی اصلاح بھی ہو جائے۔
حضرت ریحان ملت، کنز البرکت علامہ محمد ریحان رضا خاں رحمانی میاں نور اللہ مرقدہٗ کی تاریخ ولادت 18؍ ذی الحجہ 1352ھ / 4 اپریل 1934ء بروز منگل ہے جبکہ حضرت کا وصال پر ملال18 رمضان المبارک 1405ھ/ 7 جون 1985ء بروز جمعۃ المبارک ہوا۔
شیخ الاسلام والمسلمین، تاج الشریعۃ جبل الاستقامۃ مفتیٔ اسلام محترم المقام حضرت محمد اختررضا خاں الازہری دام فیضہ القوی 24؍ذی القعدہ 1362ھ/ 22؍ نومبر 1943ء بروز پیر منصۂ شہود پر ظاہر ہوئے۔
علوم دینیہ سے آراستگی:
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا محدث بریلوی قدس السرہٗ القوی کی رسم بسم اللہ خوانی سے متعلق یہ روایت معروف ہے کہ ’’جد کریم، محتشم و فہیم حضرت علامہ محمد رضا علی خاںنے فرمایا! ہمارے خاندان میں بزرگوں سے اخذ کردہ طریقہ رائج ہے کہ جب بچہ یا بچی 4سال 4ماہ اور 4 دن کے ہوجاتے ہیں تو باقاعدہ درس دینے کے لیے وحی الٰہی کے حروف سکھائے جاتے ہیں۔‘‘ چنانچہ اسی انداز میں ہمارے ممدوح محترم قمر ملت کی عمر شریف جب چار سال، چار ماہ اور چار دن ہوئی تو اسلاف کے طریقے کے مطابق رسم بسم اللہ خوانی کا آغاز گھر ہی میں ہوا۔ گھر کا ماحول خالص دینی اور اعلیٰ اخلاقی اقدار پر استوار تھا، آغوش مادر بھی پاکیزہ، شفقت پدری بھی پاکیزہ، نسبی شرافت اور خاندانی نجابت کے سرایت یا فتہ اثرات نے عہد طفولیت ہی میں ’’تعمیر شخصیت کی جہات‘‘ پُراَزشوق دیدار ہونا شروع ہوگئیں تھیں۔
خاندانی روایت کے مطابق یہ رسم بسم اللہ خوانی، یوم الاحد (اتوار) 18 ذی الحج 1369ھ/ یکم اکتوبر1950ء میں منعقد ہوئی، یوم الاحد یعنی یکشنبہ ہی حضرت کی ولادت باسعادت کا یوم ہے۔ حضور مفسر اعظم ابراہیم رضا جیلانی میاں وعنّابہٖ نے بسم اللہ شریف پڑھائی اور حروف عربیہ کی پہچان کرائی۔
قارئین محترم کے علم میں یہ امر بھی پیش نظر رہے کہ حضور مفسر اعظم (والد محترم قمر رضا خاں) کی بسم اللہ خوانی کی رسم، مقتدر علماء و اکابرین اہلسنت کی موجودگی میں ہوئی تھی اور اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قدس السرہٗ العزیز نے نہ صرف ’’بسم اللہ خوانی‘‘ فرمائی بلکہ بیعت لے کر داخل سلسلہ بھی فرمایا۔ نیز خلافت و اجازت سے بھی سرفراز فرمایاتھا۔۱
یہ واقعہ 14؍ شعبان المعظم بروز بدھ/10؍ اگست 1911ء کا ہے۔ اسی موقع پر فرمایا تھا ’’میرا پوتا میری زبان ہوگا‘‘۔۲
دینی ماحول کے فیوضات،خانوادۂ اعلیٰ حضرت کے تجلیات اور مفسر اعظم کی تعلیمات میں بہ سرعت و عجلت، قلیل مدت میں زیور تعلیم و تریبت سے آراستہ ہوگئے۔ والد محترم مفسر اعظم کے علاوہ برادر اکبر حضرت ریحان ملت سے بھی علوم دینیہ کا اکتساب کیا۔
عربی و فارسی کی کتب پڑھنے ہی کے دوران اکیڈمی کلاس میں بھی داخلہ لے کر علوم جدیدہ کی تحصیل پر مکمل توجہ فرمائی ۔اٹھارہ (18) سال کی عمر تک مبادیات شرعیہ (علوم تفسیر و احادیث اور فقہ) کے علاوہ عقائد اہلسنت پر عقلی دلائل اور مناظرانہ علوم کا فہم اپنے والد محترم سے حاصل کیا۔
قارئین کرام!
آپ اس اہم امر سے یقینا مطلع و آگاہ ہیں، کہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا محدث بریلوی قدس السرہ القوی نے اپنے نبیرہ محترم حضرت ابراہیم رضا جیلانی میاں کو اپنی زبان قرار دیا تھا۔
اس قول مبارکہ کو ملحوظ رکھتے ہوئے غور فرمائیں کہ جس کسی نے (بڑا ہو یا بچہ عالم ہو یا سَقّہ) بھی اعلیٰ حضرت کی محافل وعظ و ارشاد میں محض ایک یا دو مرتبہ شریک ہوگیا تو وہ باقاعدہ سند یافتہ عالم نہ ہوتے ہوئے بھی علوم دینیہ سے بہرہ مند ہو جاتا تھا۔
تو غور فرمائیں جو خانوادۂ اعلیٰ حضرت ہی سے متعلق ہو، نبیرۂ محترم کا جگر گوشہ ہو تو کیا فقیر راقم الحروف یہ نہیں لکھ سکتا، کہ گویا قمر رضا صاحب نے اپنے والد کے سامنے زانوئے ادب طے نہیں کیے، بلکہ مذکور الصدر السطور اصول کے مطابق اعلیٰ حضرت ہی سے براہ راست شرف تلمذ حاصل کرلیا۔ اسی اعزاز سے سرفراز ہونے کے باعث حضرت قمر ملت، عقائد اہلسنت کے حق ہونے پر قرآن و احادیث سے اور فقہاء کے اقوال سے دلائل کے انبار لگادیتے تھے۔
جامعہ رضویہ منظر اسلام سے بھی علوم دینیہ کا اکتساب کیا۔ اس دوران ایف اے تک تعلیم اپنے شہر (بریلی شریف) کے اسکول اور کالج سے حاصل کر چکے تھے۔ علی گڑھ مسلم یونیوسٹی جانے کا ارادہ جب ظاہر کیا تو والد محترم حضرت مفسر اعظم جیلانی میاں نے منع فرمایا، یا یہ فرمایا: ’’میرے وصال کے بعد چلے جانا‘‘۔
چنانچہ ترجمان اعلیٰ حضرت ہم زبان اعلیٰ حضرت،مفسر اعظم جیلانی میاں نے 12 صفر 1385ھ/ 13 جون 1965ء کو وصال باکمال فرمایا ۔ والد گرامی کی وفات حسرت آیات کے بعد انہی کی وصیت کے مطابق حضرت قمر ملت 1966ء میں اعلیٰ تعلیم کے لیے ’’علی گڑھ مسلم یونیورسٹی‘‘ تشریف لے گئے اس وقت حضرت کی عمر شریف اکیس (21) سال تھی۔ اس طرح علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے علوم جدیدہ و مروجہ سے بھی آراستہ ہو گئے۔
سلاسل تصوف و طریقت سے وابستگی:
حضرت قمر رضانے اپنے والد گرامی حضور مفسر اعظم کی ہدایت کے بموجب نیز اپنی قلبی خواہش کے پیش نظر سن بلوغت کی منزل خطا و صواب پر پہنچتے ہی مفتی اعظم، فقیہہ عالم، مرشد کامل و محتشم، سند الفقہاء، زینت الاصفیاء، حضرت ولی نعمت، عظیم المرتبت، ابو البرکات آل رحمن محی الدین محمد مصطفی رضا خاں فقیہہ بریلوی قدس السرہ القوی سے بیعت ارادت کی نسبت حاصل کر لی تھی۔
اس وقت حضرت قمر رضا کی عمر شریف پندرہ(۱۵) برس تھی اور قمری تقویم کے اعتبار سے 1380ھ جبکہ شمسی تقویم کے اعتبار سے 1960ء کا سال تھا۔
حضور مفتی اعظم فقیہہ عالم رضی اللہ المنعم سے محض بیعت تبرک کے فیض سے متعلق مقتدر علماء و مشائخ کہتے ہیں کہ ایسے کامل و اکمل فیوضات و برکات کا تجربہ و مشاہدہ رہا ہے، کہ جسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ تو فقیر راقم السطور کے مخاطب
محترم قارئین!
آپ پر کیسے واضح ہو سکتا ہے؟ کہ بیعت ارادت کے تجلیات و ثمرات کا لفظوں میں احاطہ ممکن نہیں__ پھر قمر ملت کا شرف__ فضل__ سعادت__ میں صدہا صد، ہزار ہا ہزار اور لکھوں لکھا چند اضافہ ہوا، جب خانوادۂ رضا کے جدّ کریم حضرت قدوۃ الواصلین استاذ العلماء والفاضلین حضرت علامہ مفتیٔ اعظم روہیل کھنڈ محمد رضا علی خاں کے اولاد و امجاد میں دوسری شاخ، استاذ زمن حضرت مولانا حسن رضا کے نبیرۂ محترم اور حضرت علامہ حسنین رضا کے منجھلے فرزند، صدر العلماء، سیّد الاتقیاء، ولی نعمت، فیض درجات حضرت علامہ و مولانا شیخ الحدیث و التفسیر تحسین رضا خاں قادری رضوی نے سند خلافت و اجازت سے سرفراز فرمایا۔ اعلیٰ حضرت عظیم البرکت کے سالانہ عرس مقدس کے موقع پر 1405ھ میں اپنا خلیفہ بنا کر سر پر عمامہ شریف باندھا۔ اس اعتبار سے اعلیٰ حضرت قدس السرہٗ کے فیض رضا کے ساتھ ساتھ برادر اعلیٰ حضرت مولانا حسن رضا خان کے فیوضات کا سلسلہ بھی جاری ہوا۔ اور قمر ملت علیہ الرحمت گویا’’مرج البحرین یلتقیٰن‘‘ کا مظہر ہوگئے۔
حضرت سیّد الاتقیا و صدر العلماء کی باطنی توجہات و التفات کے زیر اثر بہت جلد علوم طریقت میں کامل ہوگئے تھے اور حضرت تحسین رضا صاحب کے اصرار پر ڈاکٹر قمر رضا صاحب نے خواہشمندوں اور معتقدوں کو داخل سلسلہ کرنا شروع کیا۔
فقیر راقم الحروف یہ حسن ظن رکھتا ہے کہ متذکرہ بزرگوں نے اپنے اکابر و اسلاف کے انداز میں یقیناً تاکید فرمائی ہوگی، کہ خواستگاران بیعت کو مایوس نہ کرنا بلکہ فوراً داخل سلسلہ فرمانا۔ اسی لیے حضرت قمر ملت نے شائقین و طالبین کو کبھی منع نہیں فرمایا، بلکہ بیعت فرما کر نہایت مشفقانہ طرز عمل سے وابستگان سلسلہ کو اپنے بچوں کی طرح سرپرستی سے متمتع فرماتے تھے۔ اپنے مریدین سے نذر قبول فرمانے میں تردد و احتراز کا عنصر شامل رکھتے۔ پیران طریقت کے عام سماجی رویوں کے برعکس حضرت قمر رضا مریدین کی کسمپرسی اور بے سروسامانی کا مشاہدہ فرماتے یا محض مطلع ہوتے، تو ان کے لیے اور ان کے خاندان کے لیے راشن وغیرہ کا اہتمام اپنی جیب خاص سے کرتے تھے۔ خواہ وہ بریلی یو پی کا رہنے والا ہو یا بہار شریف کا یا مہاراشٹر کا۔
قمر ملت کی خدادد ذہانت و قابلیت:
اعلیٰ حضرت کے انداز میں علم الاعداد اور تاریخ تخریج کرنے کی مہارت تامہ حاصل کی۔بچوں کے تاریخی نام رکھنے کے لیے والدین اکثر،حضرت قمر رضا سے رجوع کرتے تھے، جبکہ اداروں اور درسگاہوں کے سال تاسیس کی مناسبت سے تاریخی نام تجویز فرما دیتے تھے۔ اگر حضور تاج الشریعہ سے کوئی اس امر میں رجوع کرتا، تو حضرت مفتئ اسلام شیخ الاسلام مدظلہ بھی یہ ہدایت فرماتے کہ قمر میاں سے ملو۔
اللہ تبارک و تعالیٰ جل شانہ کے فضل و کرم سے امام العلماء حضرت علامہ مولانا رضاعلی خاں کی اولاد و امجاد میں ذہانت وفطانت اور دینی خدمات کے جذبات اعلیٰ درجے پر ودیعت ہوئے ہیں، اور یہ صدقہ ہے اس غیرت ایمانی اور فیوضات وجدانی کا کہ جو عشق رسولﷺ کے دریائے رحمت میں غوطہ زن ہوئے بغیرحاصل و میسر نہیں ہوتا۔ خانوادۂ اعلیٰ حضرت میں سلف تا خلف یعنی گذشتہ اور آئندہ پاکیزہ اور حلال و طیب رزق سے روح و جسم کو قوت نمو حاصل ہوتی رہی ہے۔ اسی کے زیر اثر بصیرت، فراست، ذہانت، ادراک و شعور، طبعی میلان اور وہبی وجدان، توانا درتوانا ہوئے ہیں۔ اسی باعث توالد و تناسل کی مختلف منازل میں کبھی اعلیٰ حضرت کی صورت، تو کبھی استاذ زمن مولانا حسن رضا، کبھی مولانارضا علی خان تو کبھی مولانا نقی علی خاں اور کبھی مفتی اعظم قدس السرہٗ کے عکوس، مختلف نفوس میں یہ علائق خصوصی، خلائق نسبتی محسوس کرتے ہیں۔ اسی اصول کے تحت، قمر ملت حضرت محمد قمر رضا کی ذات میں، جدّ کریم مولانا رضا علی خاں کا انداز وعظ و نصیحت اور اعلیٰ حضرت کی ذہانت خصوصاً تاریخ گوئی پر عبور و مہارت کی دولت وراثت ہی میں منتقل ہوئی تھیں۔
مسلک اعلیٰ حضرت کی بیباک ترجمانی:
مسلک حقہ کے ابلاغ کے لیے اپنی مبارک زندگی کے 28 سال وقف کردیئے، آرام ترک کردیا۔ اللہ اکبر...اللہ اکبر... سفر کے تسلسل کا یہ عالم رہا کہ ابھی ابھی بہار شریف سے بریلی شریف پہنچے ہیں، ہونا تو یہ چاہئے کہ دو چار دن آرام کرلیں، اہلیہ اور بچوں کی ضرورت معلوم کرلیں، اور ان کی ضروریات کو پورا کریں___ نہیں___ نہیں___ بس___خاندان کے بزرگوں کی بارگاہ میں حاضری___ اعلیٰ حضرت کے مزار پر انوار پر حاضری___ تبلیغی اسفار کے دوران کسی شہر سے دی جانے والی امانتیں
(یعنی دارالعلوم منظر اسلام یا مظہر اسلام کے عطیات/ یا بزرگوں کے نذرانے و تحائف یا سلام و پیغام) حقداروں تک پہنچا کر، اگلے ہی روز یا صبح پہنچے تو بوقت دوپہر یا شام پھر تبلیغی سفر پر روانہ ہوگئے۔
ہندوستان کے طول و عرض میں حضرت قمر رضا کے سادہ و دلنشین خطابات کی دھوم تھی۔ دور دراز و غیر متمدن گاؤں دیہات میں بھی آپ وعظ و ارشاد کے لیے تشریف لے جایا کرتے تھے حتیٰ کہ ان شہروں میں بھی جہاں مسلم آبادی کا شرح تناسب ہندو آبادی کے مقابلہ میں دو فیصد یا چار فیصد سے زیادہ نہ ہوتا تھا۔ عام طور پر خطباء واعظین جلسوں کی تواریخ دیتے وقت بڑی شان سے اپنی شرائط بیان کرتے اور پھر منواتے بھی ہیں۔ لیکن قمر رضا نے کبھی بھی کوئی شرط نہیں رکھی۔ آمد و رفت کے لیے فضائی، ٹرین یا بس کے سفر کے اخراجات کی وصولی کا اصرار نہیں کیا، اور نہ ہی منتظمین جلسہ سے یہ مطالبہ کیا کہ بریلی شریف میں میری قیام گاہ تک، کار وغیرہ لائی جائے۔ تقریر کے لیے نذرانے کا مطالبہ بھی کبھی نہیں کیا۔ منتظمین نے جو قیام و طعام کا بندوبست کیا بس اسی پر صبر و شکر اور قناعت کو اختیار کیا۔
آپ کے خطابات سننے والے یہ شہادت دیتے ہیں کہ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے ’’تمہید ایمان‘‘____’’الکوکبۃ الشہابیۃ‘‘____’’تجلی الیقین‘‘ ____’’الدولۃ المکیۃ‘‘____’’منیر العین‘‘____’’لمعۃ الضحیٰ‘‘ ____ ’’الامن والعلٰی‘‘____’’صلات الصفاء بنور المصطفیٰ‘‘____ ’’اتیان الارواح‘‘ ____’’بدر الانوار‘‘____ اور ’’خالص الاعتقاد‘‘ پڑھائی جارہی ہو۔
جب مسلمانوں کی اصلاح یعنی فسق و فجور سے بچنے بچانے کا بیان ہو رہا ہو تو سینکڑوں افراد توبہ کرتے اور راہ سنت پر عازم ہو جاتے، بے نمازی پابند صلوٰۃ ہوجاتا اور چہروں کو داڑھی سے تزئین حاصل ہوجاتی۔
قریہ، قریہ... بستی، بستی... ذکر نبی کا عام کرو:
حضرت قمر ملت کی مبارک زندگی کا سب سے اہم کارنامہ یہی ہے، کہ نبی پاک صاحب لولاکﷺ کا چرچا کرنے کے لیے نہ موسم کے سرد و گرم کو ملحوظ خاطر رکھا____ نہ قریب و دور کی مسافتوں کی پرواہ کی____ اعلیٰ حضرت کے تبلیغی مشن یعنی بدمذھبوں اور گستاخوں کی سرکوبی کے لیے، سر زمین ہند، بنگلہ دیش، سری لنکا اور پاکستان کے دورے فرمائے۔
فقیر راقم الحروف بیرون ممالک کے عالمی تبلیغی دوروں سے قبل ہندوستان کے قریب و دور کے اسفار کا تذکرہ کرنا چاہتا ہے۔ ملکی سطح پر چاروں سمتوں میں حتیٰ کہ انتہائی مشرق اور انتہائی جنوب، بحرعرب، بحر ہند اور خلیج بنگال تک سفر فرماتے تھے۔
عام مبلغین یہاں آنے سے گریز کرتے تھے۔ دوروں میں کثرت سے صوبہ بہار شریف، صوبہ چھتیس گڑھ، صوبہ جھار کھنڈ (جنوبی بہار میں نیا صوبہ)، گجرات، آندھرا پردیش، مہاراشٹر، اڑیسہ، مدھیہ پردیش اور کرناٹکہ کے کئی شہروں میں تبلیغ کی غرض سے تشریف لے جاتے تھے۔ صوبہ اتر پردیش (Uttar Pardesh) تو اپنا ہی صوبہ تھا کہ اسی میں بریلی شریف واقع ہے، اسے ہی U.P بھی کہتے ہیں، اس کے چھوٹے و بڑے تمام شہروں اور قصبوں مثلاً غازی پور، جونپور، اعظم گڑھ، فیض آباد، سلطان پور، ضلع بستی، بہڑائچ، بنارس، مرزا پور، الٰہ آباد، باندہ، سنبھل، ٹانڈہ، سیتا پور، مغل سرائے، لکھنؤ، کانپور، شاہجہانپور، رامپور، فرخ آباد، جھانسی، آگرہ، مراد آباد، علی گڑھ، بدایوں، گورکھپور، لکھیم پور، پیلی بھیت، بارہ بنکی، سندیلہ، متھرا، اٹاوہ، مظفر نگر، سہارنپور، بجنور، کاسگنج وغیرہ میں عقائد و اعمال کی اصلاح کے لیے تبلیغی دورے فرمائے۔
شمالی و مشرقی صوبہ جات:
صوبہ بہار شریف، صوبہ چھتیس گڑھ، صوبہ جھار کھنڈ اور صوبہ مغربی بنگال کے شہروں اور قصبوں مثلاً پٹنہ، مونگیر، دیوگڑھ، عظیم گنج، جمشید پور، رانچی، گیا، دربھنگہ، بھاگلپور، جہان آباد، مظفر پور، پورنیا، کٹیہر، مدھو بنی، ہوڑہ، رانی گنج، کرشنا نگر، کھڑگ پور، میدنی پور، برد دھامن، بنکوڑہ، چکرا دھرپور، جھمری، تلیا، جانکی پور، دانا پور۔ وغیرہ میں آج بھی آپ کو آپ کے وعظ و نصیحت اور بذلہ سنجی کے حوالہ سے یاد کیا جاتا ہے۔
انڈیا کا وسطی اور مشرقی علاقہ:
مدھیہ پردیش(Madhya Pradesh)اور اُڑیسہ(Orissa) کے شہروں جبلپور، بھوپال، چھندواڑہ، برہانپور، کھنڈوہ، چندرا پور، رائے پور، سمبھل پور، بھوپا نیشور، سرسمہا پور، سیوڑہ، نانپارہ (نواپارہ) بیلاس پور، بھوانی پٹنہ، جلیشور، تلچھر، تتلا گڑھ، عمر کوٹ، لالتپور، چھترا پور، اجے گڑھ، ستنا، بیجور، پنّا، ساگر، گوالیار، بھنڈ مورینہ، موہانہ، شیو پوری، گونا، اشوک نگر، دیواس، اِندور۔ وغیرہ علاقوں میں بھی آپ کے ہزاروں مرید ہیں اور یہاں تبلیغ کے لیے مختلف تاریخوں میں موسم کے سردو گرم کا لحاظ کیے بغیر تشریف لے جاتے تھے۔
مغربی سرحدی علاقہ صوبہ راجستھان:
راجستھان، سنگلاخ وادیوں پر مشتمل ہے، ہندو بکثرت یہاں آباد ہیں، اس کے تمام شہروں مثلاً اجمیر شریف، جودھ پور، کشن گڑھ، گنگانگر، ہنومان گڑھ، انوپ گڑھ، راج گڑھ، بیکانیر، جیسلمیر، پوکران، پالی، ٹونک، جے پور، الور، اودھے پور، چتر گڑھ، بھرت پور، بھلواڑہ، پنڈواڑہ، کوٹا۔ وغیرہ میں بھی تشریف لے جاتے تھے۔
جس طرح ’’بہار شریف‘‘ اور صوبہ جنوبی بہار (جھار کھنڈ) کے اکثر شہروں کے تبلیغی اسفار متعد د مرتبہ فرماتے، اسی طرح صوبہ ’’گجرات‘‘ اور ’’مہاراشٹر‘‘ کے تبلیغی اسفار کثرت سے فرمائے۔ اور ان صوبوں میں مسلک امام احمد رضا کو بہت فروغ حاصل ہوا ہے۔ اب جبکہ بدعقیدگی کا زہر مختلف بلاد و امصار میں عالمی سطح پر پھیل رہا ہے، تو ایسے پر آشوب ماحول میں مفسدوں اور خارجیوں نے بھی خود کو ’’اہلسنت‘‘ یا ’’سنی حنفی‘‘ کہنا شروع کردیا ہے اپنے رجسٹرڈ ٹائٹل ’’وہابی‘‘، ’’غیر مقلد‘‘، ’’دیوبندی‘‘، ’’مودودی جماعتی‘‘، ’’تبلیغی‘‘ کے استعمال سےضرورتاً اور مصلحتاً گریز بھی کرنا شروع کردیا ہے۔
افراط و تفریط کے اس ماحول میں سنی تشخص کی بقا کے لیے ضروری ہے، کہ امام احمد رضا محدث بریلوی کے دامن کو تھام لیں۔ دنیا و آخرت میں کامیابی و کامرانی سے ہمکنار ہو کر مسرت و شادمانی کو اپنے نصیب کا حصہ بنالیں۔ اسی لیے ’’سنی تشخص‘‘ کو بحال و برقرار رکھنے کے لیے متذکرہ جغرافیہ میں ’’ٹی۔ٹی۔ایس‘‘ یعنی ’’ٹناٹن سُنی‘‘ کی اصطلاح مروّج ہوگئی ہے۔ اس اصطلاح کے استعمال سے ’’نام نہاد سُنی‘‘، ’’پلپلا سُنی‘‘، ’’گلابی سُنی‘‘، اور ’’صلح کلی کا داعی سُنی‘‘، ’’منہاجی (طاہری) سُنی‘‘، (تفضیلی شیعہ کی طرح) ’’تفضیلی سُنی‘‘، اکھاڑہ و تعزیاتی سُنّی، سنی آبائی خانقاہوں پر قابض ’’ڈرامائی سُنّی‘‘، سب بے نقاب (Expose)ہو جاتے ہیں۔
گجرات:
صوبہ گجرات کے شہروں مثلاً : احمد آباد، گاندھی نگر، سریندر نگر، راجکوٹ، موربی، جام نگر، جوناگڑھ، پور بندر، گوندل، اُپلیٹا، جیتپور، کتیانہ، بانٹوا، بھاؤ ناگر، گودھرا، پٹن، پالنپور، چھوٹا اودھے پور، ویدودارا، بھروچ، سورت، منڈل، ویجاپور، رادھن پور، آنند، پٹن، کھمبھالیہ، نوساری، سِدّھاپور، امرپلی، ویراول، مانڈوی۔ میں مسلکی و نظریاتی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کا عمل تسلسل سے جاری رکھا۔
بحر عرب سے متصل مغربی صوبہ:
صوبہ مہاراشٹر کے اکثر شہروں مثلاً ناگپور، امراواتی، وردھا، چندرا پور، گونڈیا، بھاندرا، یَوٹمال، پربھنی، احمد نگر، ناسک، بھیونڈی، ممبئی، کلیان، اداس نگر، امرناتھ، اورنگ آباد، جالنا، سولہ پور، عثمان آباد، تالجاپور، ناندیر، ہڑ گاؤں، بلدانہ، کھام گاؤں، ملکا پور، نندر بار، بھساوال۔ وغیرہ میں بھی عید میلاد النبیﷺ اور گیارہویں شریف کے بڑے بڑے جلسوں سے خطاب فرماتے تھے۔
حضرت قمر رضا اور ’’ہند‘‘ کے مقامات مقدسہ:
حضرت قمر رضا نور اللہ مرقدہٗ ہندوستان کے تبلیغی دوروں میں ’’بحر ہند‘‘ کے جنوبی ساحلوں تک بھی تشریف لے جاتے تھے۔ بحر ہند کے جنوبی ساحلوں کو ماضی میں ’’باب مکہ‘‘ یا ’’باب عرب‘‘ کہا جاتا تھا ۔ ان ساحلوں سے یمن کی بندر گاہ ’’عدن‘‘ اور موجودہ مملکۃ العربیۃ السعودیہ کی بندرگاہوں ’’جیزان‘‘، ’’جدہ‘‘ اور ’’ینبوع‘‘ تک بذریعہ بحری جہاز تجارت ہوتی تھی۔ اسی لئے یہ امر یقینی ہے کہ عرب وہند کے تعلقات اور تجارتی روابط اول بحری راستوں سے قائم ہوئے۔ ازاں بعد زمینی رابطے تشکیل پائے۔ بعض مؤرخین کا یہ خیال کہ نوجوان جرنیل محمد بن قاسم جنوب ایشیا بالخصوص بر عظیم، سر زمین ہند میں تشریف لانے والے سب سے پہلے مسلمان تھے۔ یہ خیال درست نہیں معلوم ہوتا، کیونکہ محمد بن قاسم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ 92ھ/711ء میں سندھ کی سر زمین پر تشریف لائے۔ جبکہ محمد بن قاسم سے پچانوے سال قبل نور اسلام ’’معجزۂ شق القمر‘‘ کی عظیم نورانی ضیا پاشیوں سے جنوبی ہند یعنی دکھن منور ہو چکا تھا۔ ہندوستان کے جنوبی جغرافیہ کو انتظامی اعتبار سے مشرقی گھاٹ (Eastren Ghats) اور مغربی گھاٹ (WestrenGhats) میں تقسیم کرکے مراٹھی، تامل، تیلگو، کنّاڈا، دراوڑی اور ملیالم زبان و تہذیب کے بنیادی ضوابط کے حوالوں سے چار صوبوں میں ترتیب دیا ہے:
اول:آندھراپردیش (Andhra Pardesh)
دوم: کرناٹکہ (Karnataka)
سوم: کیرالہ (Kerala)
چہارم: تامل ناڈو (Tamil Nadu)
ان چاروں صوبوں میں بھی مسلک امام احمد رضا محدث بریلوی کا پرچم لہرانے کا اعزاز حضرت مولانا محمد قمر رضا کو حاصل ہوا۔
جنوبی ہند کے ان علاقوں یعنی مہاراشٹر، آندھرا پردیش، کرناٹکہ، کیرالہ اور تامل ناڈو میں بحمدہٖ تعالیٰ مسلمانوں کی آبادی اوسطاً 35 فیصد ہے اور نہایت راسخ العقیدہ مسلمان ہیں، مسلک حقہ اور مذہب مہذب اہلسنّت و جماعت سے وابستہ ہیں، اس تفصیل کو اجمالاً یوں کہہ سکتے ہیں کہ جنوبی ہند کے مسلمان، اعلیٰ حضرت امام احمد رضا محدث بریلوی کے مسلک پر ثابت قدمی سے عامل ہیں۔ ملت اسلامیہ کے ان افراد میں ’’حنفی‘‘ کم اور ’’شافعی‘‘ زیادہ ہیں۔ معجزہ ’’شق القمر‘‘ کے نتائج و ثمرات ہیں، کہ عرب تاجروں کو یہاں سہولیات حاصل ہوئیں۔ عرب تاجروں کی آمد، قیام، میل جول اور اسلامی ثقافت کے مشاہدات نے قبولیت اسلام میں بتدریج اضافہ ہی کیا۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان لکھتے ہیں ’’جنوبی ہند کے باشندے بہت ذی فہم اور تعلیم یافتہ ہیں۔ ہندوستان کی اربوں ڈالر کی آئی ٹی انڈسٹری اس علاقہ میں ہے۔۱‘‘ شیخ زید اسلامک سینٹر کراچی یونیورسٹی کے ڈائریکٹر محترم ڈاکٹر پروفیسر نور احمد شاہتاز صاحب دام فیضہٗ نے بھی متذکرہ امر کے حوالہ سے فرمایا، ’’شق القمر کے معجزہ کو یہاں مشاہدہ کیا گیا ہے، اسی باعث یہاں کے راجہ اور شہزادگان نیز عوام مشرف بہ اسلام ہوئے اور علوم اسلامیہ کے ساتھ ساتھ ٹیکنالوجی کے جدید علوم سے بھی آراستہ ہوئے۔ راسخ العقیدگی بھی ان کا وصف خاص ہے۔‘‘
قارئین محترم!
رسول اکرم ﷺ کے ’’معجزہ شق القمر‘‘ کے بعض شاہدین جغرافیائے ہند سے باہر بھی متحقق ہیں۔
پیر محمد کرم شاہ الازہری لکھتے ہیں کہ ابن کثیر دمشقی نے لکھا ہے، ’’بہت سے باہر سے آنے والے مسافروں نے بتایا کہ انہوں نے ہندوستان میں ایک مندر دیکھا ہے جس کے اوپر ایک کتبہ ہے جس میں لکھا ہے کہ اس مندر کی بنیاد اس رات کو رکھی گئی جس رات کو چاند شق ہوا تھا۔۱
بیرون عرب کے ان شاہدین کا تعلق ’’ہندوستان‘‘، ’’سری لنکا ‘‘ اور ’’چین‘‘ کے بعض علاقوں سے ہے، کہ جنہوں نے معجزہ کی شب میں چودھویں کے چاند (بدر کامل) کو دولخت ہو کر مشرق اور مغرب کی جانب دونوں ٹکڑوں کو جاتے ہوئے دیکھا، ازاں بعد دونوں ٹکڑوں کو آپس میں یکجا ہوتے ہوئے دیکھا۔ نصف شب کے موقع پر اکثر لوگ محو خواب ہوتے ہیں، تاہم اس کے باجود ہزاروں افراد نے اس معجزۂ عظیمہ کو دیکھا، اس امر پر شاہدین کے بیانات پر ہی یقین نہیں ہونا چاہیے، بے شک وہ ثقہ ہوں یا غیر ثقہ۔ بلکہ اس لیے یقین ہونا چاہیے، کہ قرآن مجید میں سورۃ القمر میں ہے:
اِقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُO وَاِنْ یَّرَوْا اٰیَةً یُّعْرِضُوْا وَ یَقُوْلُوْا سِحْرٌ مُّسْتَمِرٌّO وَکَذَّبُوْا وَ اتَّبَعُوْٓا اَھْوَآءَ ھُمْ وَکُلُّ اَمْرٍ مُّسْتَقِرٌّO۲
’’(ترجمہ) پاس آئی قیامت اور شق ہوگیا چاند اور اگر دیکھیں کوئی نشانی تو منہ پھیرتے اور کہتے ہیں یہ تو جادو ہے چلا آتا اور انھوں نے جھٹلایا اور اپنی خواہشوں کے پیچھے ہوئے اور ہر کام قرار پاچکا ہے۔‘‘۳
اگر چہ ہمارے پاس شاہدین کی تعداد کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے مگر معجزہ کے ظہور کے وقت جو تاجر حضرات مکۃ المکرمہ سے باہر تھے جب مکہ آئے تو مشرکین نے ان سے سوال کیا تو انھوں نے (جو شام، یمن اور حبشہ سے پہنچے تھے) شق القمر دیکھنے کا اعتراف کیا۔ متعدد مفسرین، محدثین، مؤرخین اور سیرت نگاروں نے اسے بیان کیا ہے۔ ان مسافروں کا شق القمر دیکھ لیا جانا، ان لوگوں کی بہ نسبت زیادہ قرین قیاس ہے کہ جو اپنے گھروں میں شب باشی میں مصروف ہوں۔ جبکہ یہ مسافر بدر کامل کی روشنی سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے مصروفِ سفر رہے ہوں۔ خواص میں سے تین ہندی راجاؤں کے بارے میں تاریخی اعتبار سے ریکارڈ موجود ہے کہ جنہوں نے ’’معجزۂ شق القمر‘‘ کا مشاہدہ کیا تھا۔ ان شاہدین میں شامل راجاؤں کی تفصیل درج ذیل ہے:
ہندو ریاست ’’بھوپال‘‘ کے راجا ’’بھوجپال‘‘ (اسی کو ’’مالوہ‘‘ کا راجا بھی کہتے ہیں)۔
ہندوستان کے جنوب کا جغرافیہ، جو مشرقی گھاٹ (Eastern Ghats)اور مغربی گھاٹ(Western Ghats)میں تقسیم ہوتا ہے۔ یہاں مراٹھی اور تامل صوبے موجود ہیں ان میں (سابقہ مالابار)
موجودہ ’’کیرالہ‘‘ کے راجا ’’چیرامن پیرومل‘‘ نے بھی معجزۂ ’’شق القمر‘‘ دیکھا تھا۔ اسی راجا کو ’’زمورن چکرورتی سماری‘‘ بھی کہتے ہیں، اس کی ریاست ’’مشرقی گھاٹ ‘‘ اور ’’مغربی گھاٹ‘‘ پر قائم تھی۔
’’مدراس‘‘ کے جنوب مشرقی ساحل سے لے کر ’’منگلور‘‘ کے جنوب مغربی ساحل تک اور بحر ہند کے انتہائی جنوبی ساحلوں ’’ٹریونڈرم‘‘ اور ’’میلا پلوام‘‘ تک متذکرہ ریاست محیط تھی۔ اس ریاست کے شاہی سلسلہ کو ’’پلاوا‘‘ کہا جاتا تھا۔
سری لنکا (سیلون) کے راجا (جو غالباً بدھ مت کا پیروکار تھا اور ’’کینڈی‘‘ میں محل نشیں تھا) نے بھی معجزہ ’’شق القمر‘‘ دیکھا تھا۔ یہ واقعہ مکۃالمکرمہ میں نزول قرآن اور بعثت نبوی کے ساتویں یا آٹھویں سال بمطابق 617ء پیش آیا۔
شق القمر کی ایک شہادت اور:
چین میں ایک قدیم عمارت پر ایک پرانا کتبہ کندہ شدہ نصب ہے، کہ یہ کتبہ اس سال تحریر کیا گیا جس سال آسمان پر چاند کو دو ٹکڑے ہوتے دیکھا گیا۔ کتبہ میں چینی تاریخیں لکھی گئی ہیں۔ جب زمانہ کا تعین آج کی تاریخوں کے حساب سے کیا جائے، تو صحیح طور پر 617ء کا سال برآمد ہوتا ہے، جو کہ ’’شق القمر‘‘ کا سال ہے۔۱
متذکرہ تینوں راجاؤں کے مقدر میں دولت ’’اسلام‘‘ لکھی گئی۔ اس کی تفصیل فقیر راقم الحروف بعنوان ’’بوجہل ہوا ششدر شگافتہ ہوا قمر‘‘ میں لکھنا چاہتا ہے (انشاء اللہ) مکۃ المکرمہ میں نازل ہونے والی سورۃ القمر کی ابتدائی آیات مقدسہ کی تفسیر میں امام المفسرین حضرت علامہ ابی جعفر محمد بن جریر الطبری (متوفی310ھ/ 923ء) نے ’’معجزۂ شق القمر‘‘ سے متعلق مختلف طرق کے ساتھ 37 احادیث مبارکہ نقل کی ہیں، نیز چند احادیث وہ بھی نقل کی ہیں، جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ’’معجزۂ شق القمر‘‘ اپنے ظہور میں دو مرتبہ پیش آیا۔۲
بعض محدثین میں امام مسلم قشیری (متوفی 261ھ/ 875ء)، امام عبدالرزاق صنعانی (متوفی211ھ/ 867ء)، امام حاکم نیشاپوری (متوفی 405ھ/ 1015ء)، امام ابوعبداللہ محمد بن احمد ذھبی (متوفی718ھ/ 1318ء)، امام احمد بن حسین بیہقی (458ھ/1066ء) نے دو مرتبہ وقوع کو بیان کیا ہے۔
حدیث شق القمر :
راقم الحروف اپنے قارئین محترم کو ’’معجزۂ شق القمر‘‘ کی متفقہ و مفصلۂ حدیث شریف سیاق و سباق کے ساتھ بغرض ملاحظہ و مطالعہ نقل کرتا ہے:
’’واخرج ابو نعیم فی الحلیۃ من طریق عطاء والضحاک عن ابن عباس فی قولہ (اقتربت الساعۃ وانشق القمر) قال اجتمع المشرکون علی عھد رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہٖ وسلم منھم الولید بن المغیرۃ وابوجھل بن ہشام والعاص بن وائل والعاص بن ہشام والاسود بن عبد یغوث والاسود بن المطلب وزمعۃ بن الاسود والنضر بن الحرث، فقالوا للنبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ ٖ وسلم : ان کنت صادقاً فشق لنا القمر فرقتین نصفاً علی ابی قبیس ونصفاً علی قعیقعان، فقال لھم النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم: (ان فعلت تؤمنوا قالو: نعم، وکانت لیلۃ بدر فسأل رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہٖ وسلم ربہ ان یعطیہ ما سألوا فأمسی القمر قد مثل نصفاً علی ابی قبیس ونصفاً علی قعیقعان، ورسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہٖ وسلم ینادی یا ابا سلمۃ بن عبد الاسد والارقم بن ابی الارقم اشھدوا‘‘
(ترجمہ) امام ابو نعیم اصفہانی نے ’’حلیۃ الاولیاء‘‘ میں حضرت عطاء والضحاک (ر) کے طریق سے حضرت ابن عباس سے مروی (سورۃ القمر کی آیت مقدسہ ’’اقتربت الساعۃ وانشق القمر‘‘) ہے، رسول اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام سے بعض مشرکین ولید بن مغیرہ، ابو جھل بن ہشام، عاص بن وائل، عاص بن ہشام، اسود بن عبد یغوث، اسود بن المطلب، زمعۃ بن اسود اور النضر بن الحرث نے جمع ہوکر سوال کیا: آپ اگر سچے نبی ہیں، تو ہمارے لیے بطور نشانی چاند کو اس طرح شق فرمادیں، کہ اس کا ایک ٹکڑا ابو قبیس پہاڑ پر جبکہ دوسرا ٹکڑا قعیقعان پہاڑ پر آجائے۔ ان سے نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم نے فرمایا: اگر میں ایسا کردوں تو کیا تم ایمان لاؤ گے؟ انھوں نے کہا: ہم ایمان لائیں گے۔ یہ چاند کی چودھویں شب تھی۔ رسول اللہﷺ نے اپنے رب کی بارگاہ میں سوال کیا کہ مشرکین کے مطالبہ کو پورا کرنے کے لیے مجھے عطا فرما، اس پر چاند دو ٹکڑے ہوگیا۔ اس کا ایک ٹکڑا جبل ابی قبیس پر اور دوسرا ٹکڑا جبل قعیقعان پر نظر آ رہا تھا جبکہ رسول اللہﷺ پکار پکار کر فرما رہے تھے اے ابوسلمہ بن عبدالاسد! اور اے ارقم بن ابی الارقم گواہ ہوجاؤ۔
اس عظیم ’’معجزہ شق القمر‘‘ کے بارے میں، حضرت علامہ اسمٰعیل حقی کی ایک تجزیاتی و موازناتی تحریر کا ایک جملہ نہایت خوبصورت ہے، ’’حضرت موسیٰ کلیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کے لیے سمندر کا شق ہونا، متعجب نہیں کیونکہ سمندر مرکوب اور ملموس ہے یعنی انسان اس پر سواری کرتا ہے، نیز اپنے ہاتھ سے چھو بھی سکتا ہے، جبکہ ’’چاند‘‘ تو دستِ انسان سے بعید ہے۱۔
دو مرتبہ وقوع شق القمر کی روایت کے الفاظ یوں ہیں:
’’حدثنا قتادۃ عن انس ان اھل مکۃ سابوا رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم اَنْ یُّرِیْھِمْ اٰیَۃً فَاَرَاھُمْ اِنْشِقَاقَ الْقَمَرِ مَرَّتَیْنِ‘‘.۲
(ترجمہ) حضرت انس حضرت قتادہ سے سماعت کرکے فرماتے ہیں، اہل مکہ کے سوال پر رسول اکرمﷺ نے ان لوگوں کو چاند کے دو ٹکڑے کرکے دو مرتبہ دکھادیا۔
جبکہ اس روایت کی تحقیق میں فقیہ الہند حضرت علامہ مفتی محمد شریف الحق امجدی (متوفی1421ھ/ 2000ء) روایات میں تطبیق دیتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’مسلم میں یہ ہے کہ انھیں چاند کے دو ٹکڑے ہونے کو دو مرتبہ دکھایا اور یہی مصنف عبدالرزاق میں بھی ہے۔ لیکن بخاری و مسلم دونوں کی روایتیں اس پر متفق ہیں کہ فرقتین (یعنی دو ٹکڑے) فرمایا تھا اور ایک روایت میں فلقتین (یعنی دو ٹکڑے)۔ اس لیے دونوں روایتوں میں تطبیق کے لیے یہ کہا جاسکتا ہے کہ ’’مرتین‘‘ سے مراد ’’فرقتین‘‘ ہے۔ اس لیے علماءِ حدیث میں سے کسی نے بھی اس واقعہ کے دوبارہ ہونے کا قول نہیں کیا ہے‘‘۔۳
علامہ ابی الفضل شہاب الدین محمود الآلوسی البغدادی (المتوفی1270ھ/ 1853ء) ’’فَاَراھُمْ انشِقَاقَ الْقَمَرِ مَرَّتَیْنِ‘‘ پر گفتگو کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’فانشق القمر نصفین نصفاً علی الصفا ونصفاً عَلَی الْمَرْوَۃ فنظروا ثم قالوا بابصارھم فمسحوھا ثم اعاد والنظر فنظروا ثم مسحوا أعینھم ثم نظروا فقالوا ما ھٰذا الا سحر فَاَنزل اللہ تعالٰی (اقتربت الساعۃ وانشق القمر) فلو قال احد ھٰولاءِ رأیت القمر منشقًا ثلاث مرات علی معنی تعداد الرؤیۃ صح بلا غبار ولم یقتض تعدد الانشقاق فلیخرج کلام ابن مسعود علی ھذا الطرز لیجمع بین الروایات۔۱
(ترجمہ) پس چاند دو ٹکڑے ہوگیا، نصف صفا پر اور نصف مروہ پر تھا، جب یہ منظر دیکھا تو پھر کہنے لگے: ان کی آنکھوں کو دھوکہ ہوا ہے، پس انھوں نے آنکھوں کو مسل کر دیکھا اور بار بار آنکھوں کو مسلا، اگر کوئی ایک یہ بھی کہتا کہ میں نے تین مرتبہ شق ہوتے دیکھا، جب بھی صحیح ہوتا، اس کا مطلب یہ نہ ہوتا کہ واقعی چاند تین بار دو ٹکڑے ہوگیا ہے۔ پس اسی انداز پر حضرت ابن مسعود کے کلام کو سمجھا جائے، تاکہ روایات کے درمیان تناقض نہ ہو۔
بعض علماء اسلام مثلاً حافظ ابوالفضل زین الدین عراقی (متوفی806ھ/ 1404ء) معجزۂ ’’شق القمر‘‘ کے دو مرتبہ وقوع و منعقد ہونے پر اصرار کرتے ہیں، ممکن ہے کہ دیگر علماءِ اسلام رحمہم اللہ اجمعین مثلاً امام مسلم (متوفی 261ھ/ 875ء) امام بیہقی (متوفی 458ھ/ 1066ء)، امام حاکم (متوفی 405ھ/ 1015ء) اور حضرت شیخ محمد اسمٰعیل نبہانی یوسف بن (متوفی 1350ھ/ 1931ء) کی طرح ’’شق القمر‘‘ کے دو مرتبہ وقوع کی محض روایت نقل کرتے ہوں، حافظ عراقی کی طرح اصرار نہیں کرتے ہوں۔ حافظ زین الدین عراقی، دو مرتبہ۱ وقوع پر اصرار اس لیے کرتے ہیں کہ وہ فرماتے ہیں: ایک مرتبہ مشرکین کے سوال (طلب معجزہ) پر ’’شق القمر‘‘ ہوا، دوسری مرتبہ یہودیوں۲ کے سوال کو پورا کرنے کے لیے معجزہ ظاہر ہوا۔ پہلی مرتبہ کے ظہور میں جبل نور (یعنی حرا) کے دونوں جانب، چاند کے نصف، نصف ٹکڑے نظر آ رہے تھے۔ دوسری مرتبہ جب شق القمر کا معجزہ وقوع پذیر ہوا، تو جبل ابی قبیس کی جانب نصف چاند اور جبل قعیقعان کی جانب دوسرا نصف ٹکڑا چلا گیا تھا، جبکہ یہودیوں کا مطالبہ بھی یہی تھا کہ اسی انداز میں معجزہ ظاہر ہو۔ اگر روایت کے الفاظ مختلفہ پر غور کیا جائے، تو پھر بعض روایت میں یہ بھی ہے کہ ظہور شق القمر کے وقت نصف چاند مشرق اور نصف چاند مغرب میں چلا گیا۔ اس روایت کو بیان کرنے میں ایک معمر صحابی ’’بابا رتن الھندی‘‘۱ کے علاوہ ’’راجہ بھوجپال‘‘ (حاکم ریاست مالوہ)۲۔ راجہ چیرومان مالا بار۱ (حاکم ریاست پلاوا) اور راجہ سری لنکا (حاکم ریاست سراندیپ)۲ بھی شامل ہیں۔
متذکرہ موافقین کے علاوہ معاندین بھی ہیں جن کا مختصر تعارف سطور ذیل میں کیا جاتا ہے۔
منکرین ’’شق القمر‘‘:
اس فہرست میں نیچری فرقہ کے ’’سر سید احمد خان‘‘، فرقہ منکرین احادیث کے ’’پرویز‘‘، غیر مقلدین، وہابیوں اور دیوبندیوں کے پیشوا ’’شاہ ولی اللہ دہلوی‘‘، ندوۃ العلماء کے بانی ’’شبلی نعمانی‘‘، انہی کے رفیق خاص ’’الطاف حسین حالی‘‘، فرقہ جماعت اسلامی کے بانی ’’ابوالاعلیٰ مودودی‘‘، اخوان المسلمون کے ’’سیّد قطب مصری (قتیل)‘‘ ’’احمد مصطفےٰ مراغی‘‘، ’’جاوید غامدی‘‘، ’’ذاکر نائیک‘‘، ’’ابوالجلال ندوی‘‘، وغیرہ..... اور بعض ایسے بھی ہیں جو ’’شق القمر‘‘ کے وقوع کو تو مانتے ہیں، لیکن اسے رسول اکرمﷺ کا معجزہ نہیں مانتے، مثلاً امین احسن اصلاحی، حمید الدین فراہی، ڈاکٹر اسرار(یعنی پُراسرار) اور مولوی غلام اللہ خان وغیرہ۔ یہ ماننا بھی ان کی مجبوری ہے کہ ’’نص قطعی‘‘ یعنی قرآن مجید سے ثابت ہے، وگرنہ کلام الٰہی کا انکار دائرۂ اسلام سے خارج کردیتا ہے۔۱
رسول اکرمﷺ کے منیٰ میں تشریف رکھنے کا قول زیادہ اہم ہے اور جمہور علماء کا بھی یہی مؤقف ہے، حضرت سیّدنا عبداللہ ابن مسعود نے بھی روایت کرتے ہوئے یہی کہا کہ ’’ہم حضور اقدسﷺ کے ہمراہ منیٰ میں تھے‘‘۔ امام محمد طاہر بن عاشور (المتوفی1393ھ/ 1973ء) نے سورۃ القمر کی تفسیر میں خوبصورت قول لکھا ہے، ’’اگر کوئی ’’معجزہ شق القمر‘‘ اور ’’نزول سورۃ القمر‘‘ کی ترتیب میں تقدیم و تاخیر کی بحث کرے، تو اس پر واضح ہو کہ حضرت انس کی روایت میں ہے کہ پہلے معجزہ ظاہر ہوا، ازاں بعد سورۃ القمر کا نزول ہوا، اور ہونا بھی یہی چاہیے کہ قیامت کے قریب آنے کی نشانی ’’شق القمر‘‘ ہے۔ لہٰذا پہلے خبر ظاہر اور وقوع ہوگی، پھر قیامت آئے گی۔ اس اصول سے معجزہ پہلے وقوع پذیر ہوا پھر سورۃ القمر نازل ہوئی۔۱
شق القمر کی تاریخ:
امام محمد طاہر بن عاشور(المتوفی1393ھ/ 1973ء) فرماتے ہیں، ماہ ذی الحجہ کی چودھویں شب تھی، لوگ منیٰ میں جمع تھے، یوم النفر کی رات تھی۔ ہجرت سے پانچ سال قبل یعنی اعلان نبوت کے آٹھویں سال یہ واقعہ پیش آیا تھا۔۲
شمسی تقویم کے اعتبار سے 617ء کا سال تھا۔ ائمہ اہلبیت میں درجۂ اجتہاد پر فائز حضرت سیّدنا امام جعفر صادق فرماتے ہیں، ’’معجزۂ شق القمر ذی الحجہ کے مہینے میں چودھویں شب میں پیش آیا‘‘۔ کسی قدیم مندر میں سنسکرت زبان میں ایک کتاب قیام پاکستان سے قبل دستیاب ہوئی تھی، جس میں ’’شق القمر‘‘ کا واقعہ لکھا ہوا ہے۔۱
جدید تائیدات و تحقیقات شق القمر:
اسلامی انسائیکلوپیڈیا میں ہے، ’’معتزلہ اس معجزہ سے انکار کرتے ہیں لیکن بیسویں صدی کے نصف آخر میں جب امریکی خلا باز چاند پر اُترے تو واپسی پر انھوں نے چاند پر قیام کے بارے میں اپنے مشاہدات بیان کرتے ہوئے کہا: کہ انہوں نے چاند پر ایک ایسی دراڑ دیکھی جو نگاہ کی حد سے بھی آگے چلی جاتی ہے۔ معجزۂ شق القمر کے تیرہ سو سال بعد ایک غیر مسلم خلا باز کا یہ تائیدی بیان اس روایت کو نہ ماننے والوں کے لیے لمحۂ فکر پیدا کرتا ہے‘‘۔۲
ممتاز نعت گو اور مزاح نگار خالد عرفان کہتے ہیں:
انگشت کے نشاں نمایاں ہیں چاند پر
دیکھے ہیں آدمی نے جو منظر ثبوت ہیں
شق القمر سے ٹکڑے ہوئی سطح ماہتاب
آرہے ہیں چاند سے جو پتھر ثبوت ہیں۳
قارئین محترم!
فقیر راقم الحروف نے اگست1998ء میں امریکہ کے دورہ پر دیکھا تھا کہ نیویارک میں واقع U.N.O ہیڈ کوارٹر میں موجود ایک جار میں ’’رو پہلی مٹی‘‘ (یعنی چاند سے لائی گئی مٹی) کا ڈھیلہ عام نمائش کے لیے رکھا گیا ہے، جس سے متعلق یہ دعویٰ ہے، کہ 1969ء میں ’’اپولو۔اا‘‘ (Appolo:11) میں جانے والے خلانورد۱ اُس دراڑ سے مٹی کے ڈھیلے اُٹھا کر لائے تھے۔ جسے ’’عرب دراڑ‘‘ کہتے ہیں۔
جنوبی ہند میں متبرک مقام او رمبلغ اسلام:
راقم الحروف کے ممدوحِ محترم، مبلّغ اسلام حضرت محمد قمر رضا خاں کے تبلیغی اسفار کی پانچ اہم خصوصیات ہیں۔
اول:
یہ کہ آپ اصلاح و تبلیغ کے درس کے لیے جہاں بھی تشریف لے گئے، اس کی تاریخی اہمیت کا علم ضرور حاصل کرتے۔
دوم:
یہ کہ مقدس مقامات کی زیارات کے لیے اور اولیاء کرام کے مزارات پر ضرور حاضری دیا کرتے۔
سوم:
یہ کہ مطلوبہ شہر/ گاؤں، جدید سہولیات سے محروم ہے۔ یہ امر آپ کے سفر میں مانع نہیں ہوتا۔
چہارم:
یہ کہ آج کے متمدن دور میں، مبلّغ/ خطیب اور واعظ کے سفری ذرائع ہوائی جہاز/ بحری جہاز/ ٹرین/ بس/ کار/ موٹر سائیکل/ تانگہ.... جی ہاں....جی ہاں.... اس سے کم پر کوئی راضی نہیں ہوتا، مگر بریلی کے بوریہ نشین مجدد اعظم رضا کا قمر رضا، اس پر بھی راضی ہے کہ خدمت دین اور عشق مصطفےٰﷺ کی تعلیم کے لیے، ’’مجھے پیدل لے چلو.... سائیکل پر لے چلو.... بیل گاڑی پر لے چلو.... میں تیار ہوں۔
پنجم:
یہ کہ ایک سفر کے بعد یہ نہیں کہنا کہ پچھلے سال یا چھ ماہ پہلے بھی، ’’میں گیا تھا اب وہاں نہیں جانا، بھئی بڑی مشقت اُٹھائی تھی‘‘۔ کٹھن سے کٹھن سفر کے بعد بھی سفر کا اعادہ کرنا، آپ کا طرّۂ امتیاز تھا۔ اور یہی سادگی آپ کا حسن اور پہچان ہے۔
مبلغ اسلام، جنوبی ہند کے سفر میں اُن اہم مقدس و متبرک مقامات پر بھی حاضر ہوئے ہیں، جن کا تذکرہ ابھی گذشتہ صفحات میں گزرا ہے۔
صوبہ آندھرا پردیش:
صوبہ ’’آندھرا پردیش‘‘ کے اضلاع میں صدر مقام ’’حیدرآباد‘‘ کے علاوہ ’’سکندرآباد‘‘، ’’نظام آباد‘‘، ’’آصف آباد‘‘، ’’کریم نگر‘‘، ’’چتوڑ‘‘، ’’محبوب نگر‘‘، ’’آننت پور‘‘، ’’ورنگل‘‘، ’’کوٹاگوڈیم‘‘ (Kottagudem)، ’’کرنول‘‘ (Kurnool)، ’’نانڈیال‘‘ (Nandyal)۔ وغیرہ میں متعدد بار تشریف لائے۔
صوبہ کرناٹکہ:
اس صوبہ میں ماشاء اللہ مسلم آبادی 35فیصد سے زائد ہے۔ یہاں مسلمانوں کی لٹریری شرح 100 فیصد ہے۔ یہاں کے مقدس مقام اور دریائے کاویری بہت مشہور ہیں۔
منگلور اور اس کے قریب ’’کاسرگوڈ‘‘ (یہاں برصغیر کی سب سے پہلی مسجد ’’چیرامان پیرومل‘‘ نامی 5ھجری یا 8ھجری/ 629ء میں قائم ہوئی اور یہیں قریب ہی حضرت مالک بن دینار کی درگاہ شریف اور مسجد بھی واقع ہے)۔ حضرت قمر رضا اس تاریخی مقام پر بھی حاضر ہوئے اور صوبہ ’’کرناٹکہ‘‘ (Karnataka) کے صدر مقام ’’بنگلور‘‘ کے علاوہ ’’بیدر‘‘، ’’گلبرگہ‘‘، ’’بیجا پور‘‘، ’’میسور‘‘، ’’منڈیا‘‘، ’’سکالیشپورہ‘‘، ’’شیموگا‘‘، ’’ٹمکر‘‘، ’’ننجان گڑھ‘‘، ’’رائیچور‘‘، ’’چنچھولی‘‘، ’’چکوٹھی‘‘، ’’بیلگام‘‘، ’’بیلاری‘‘، ’’کولار‘‘، ’’ملاول‘‘، ’’کوشالنگر‘‘، ’’بھٹکل‘‘، ’’کونڈاپور‘‘، ’’منگلور‘‘، ’’ چکماگلور‘‘،’’ چنّٹپنہ‘‘، ’’جام کھنڈی‘‘۔ وغیرہ۔
صوبہ کیرالہ:
’’ کالی کٹ‘‘، ’’منجیری‘‘، ’’تریچھوڑ‘‘۔ وغیرہ۔
صوبہ تامل ناڈو:
اس صوبے کی نیلگری پہاڑیاں بہت مشہور ہیں جس کی سطح مرتفع سمندری سطح سے ایک ہزار تا تین ہزار فٹ بلند ہے۔ ان پہاڑیوں کے دونوں طرف مشرقی اور مغربی گھاٹ واقع ہیں۔
اس کے صدر مقام ’’مدراس‘‘(Chennai) کے علاوہ ’’کانچی پورم‘‘، ’’ویلور‘‘، ’’کڈالور‘‘ (Cuddalore)، ’’ڈنڈیگل‘‘ (Dindigul)، ’’کرشناگری‘‘، ’’نیٹم‘‘، ’’سیوا گنگا‘‘، ’’میڈورائے‘‘، ’’میلاپلوام‘‘، ’’تھنجاور‘‘، ’’پونڈیچرے‘‘۔ وغیرہ۔
درج بالا صوبوں کے متذکرہ شہروں میں حضرت قمر رضا تشریف لے جاتے رہے ہیں۔ علاوہ ازیں درج ذیل اولیاء کرام کے مزارات پر بھی عقیدت و احترام سے حاضری دیتے رہے ہیں۔
حضرت سیّدنا محمد شریف المدنی،۱
حضرت خواجہ محبوب علی شاہ چشتی المعروف خواجہ لالو بھائی قیصر چشتی۔ (خواجۂ بنگلور) قطب بنگلور سید السادات حضرت سیّد احمد شاہ چشتی عرف پاچا میاں بابا اور حضرت خواجہ کثیر چشتی عرف عبدل بھائی، حضرت نذر علی شاہ چشتی مدراسی، حضرت صادق علی شاہ حسینی بیہا پیر بابا (میسور)۔
ہندوستان کے انتہائی مشرق کے شمالی جغرافیہ میں ’’سوشلسٹ جمہوریہ چین‘‘ سے متصل صوبے ’’اروناچل پردیش‘‘ (Arunachal Pardesh)، ’’سِکِّم‘‘ (Sikkim) اور ’’آسام‘‘ (Assam) کے مختلف علاقوں ’’پاسی گھاٹ‘‘، ’’نارتھ لکھیم پور‘‘ ’’ڈبروگڑھ‘‘، دریائے برہما پترا سے متصل ’’تنسوکیا‘‘، ’’ایٹانگر‘‘، ’’جُرھاٹ‘‘، ’’گولاچھٹ‘‘، ’’منگلڈے‘‘، ’’ناگاؤں‘‘، ’’لمڈنگ‘‘، ’’لنگٹنگ‘‘، ’’کالپنگ‘‘، ’’شیلیگڑھی‘‘، ’’گنگٹک‘‘ ’’جلپیگڑھی‘‘۔ وغیرہ میں بھی امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیا۔
تبلیغ دین کے لیے مقبوضہ کشمیر اور ہماچل پردیش جانے سے بھی گریز نہیں کیا۔ ’’سرینگر‘‘، ’’جموں‘‘، ’’بارہ مولا‘‘، ’’اننت ناگ‘‘، ’’باندی پورہ‘‘۔ وغیرہ میں مسلک امام احمد رضا کا خوب پرچار کیا۔ یہاں ’’درگاہ حضرت بل‘‘ بھی حاضری دی۔ ہماچل پردیش کے شہروں ’’پالم پور‘‘، ’’چمبا‘‘، ’’نورپور‘‘، ’’کنگرا‘‘، ’’بیلاسپور‘‘، ’’نارکنڈہ‘‘، ’’شملہ‘‘، ’’سولان‘‘، ’’کالپا‘‘، ’’کولو‘‘، ’’منڈی‘‘۔ وغیرہ میں بھی متعدد سفر بلاتکان کیے۔
مانی پور اور میگھالیا:
ہندوستان کے مشرق میں برما (Myanmar)، شمال میں بھوٹان (Bhutan) اور جنوب مشرق میں بنگلہ دیش (Bangladesh) کے درمیان صوبہ ’’مانی پور‘‘ (Manipur) اور صوبہ ’’میگھالیا‘‘ (Meghalaya) (میگھالیا، دریائے برہما پترا سے متصل ہے) کے بعض شہروں مثلاً: ’’اِمپھال‘‘، ’’ننگبا‘‘، ’’کرونگ‘‘، ..... ’’شیلونگ‘‘، ’’چیراپونچی‘‘، ’’جُوائی‘‘۔ وغیرہ میں بھی تبلیغ دین کے لیے تشریف لے گئے تھے۔
ہریانہ اور پنجاب:
صوبہ ہریانہ (Haryana) اور ’’پنجاب‘‘ کے شہروں، ’’دہلی‘‘، ’’گڑگاؤں‘‘، ’’بھیوانی‘‘، ’’روہتک‘‘، ’’پانی پت‘‘، ’’ہانسی‘‘، ’’کیتھل‘‘، ’’تھانیسر‘‘۔ وغیرہ..... پنجاب میں ’’پٹیالہ‘‘، ’’انبالہ‘‘، ’’چمکور‘‘، ’’چندی گڑھ‘‘، ’’لدھیانہ‘‘، ’’جالندھر‘‘، ’’امرتسر‘‘، ’’ہشیارپور‘‘ اور ’’بٹالہ‘‘۔ وغیرہ میں بھی دین متین کا بے لوث ابلاغ فرمایا۔
حضرت قمر رضا اور بیرونی ممالک:
حضرت قمر ملت ’’سری لنکا‘‘ اور ’’نیپال‘‘ بھی تشریف لے گئے تھے۔ سری لنکا میں جہاں جہاں مسلم آبادی ہے، بحمدہٖ تعالیٰ اہلسنت و جماعت سے وابستہ ہیں۔ دارالحکومت ’’کولمبو‘‘ میں مسلک اعلیٰ حضرت کے ماننے والوں کی اکثریت ہے، حضرت شیخ عثمان کا مزار پُرانوار مرجع خلائق ہے۔
پیٹا (PETTA) میمن مسجد میں مرکزی سطح پر اہلسنت و جماعت کے معمولات کا انعقاد ہوتا ہے۔ مثلاً محرم الحرام میں امام حسین اور دیگر شہدائے کربلا کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے تقریب ہوتی ہے۔ صفرالمظفر کے مہینے میں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا بریلوی کا عرس مقدس منعقد ہوتا ہے۔ ’’ربیع الاول شریف‘‘ میں جشن عید میلاد النبیﷺ، ربیع الثانی میں گیارہویں شریف کا انعقاد، یوم سیّدنا صدّیق اکبر، جشن معراج النبیﷺ، شب براءت، رمضان المبارک میں مختلف مذھبی ایام، معتکفین کی تربیت کا اہتمام، عازمین حج کی تربیت کے لیے تقریبات وغیرہ میں حضرت مبلغ اسلام محمد قمر رضا خان تشریف لے جاتے رہے ہیں۔
سری لنکا میں کولمبو سے تقریباً تیس کلومیٹر فاصلہ پر ’’بیورولہ‘‘ بحر ہند کے کنارے ایک مقام ہے، جہاں ہندوآبادی زیادہ ہے۔ بحر ہند کے اس ساحلی مقام پر ایک مزار شریف کا جغرافیہ کچھ اس طرح ہے کہ صرف ایک خشکی کا راستہ جانے اور آنے کے لیے مثل کوریڈور بنا ہوا ہے، جبکہ تین اطراف سے مزار شریف مکمل پانی میں ہے۔ ساتویں یا آٹھویں صدی ہجری کے ایک ولی حضرت شیخ محمد اشرف المعروف سلطان الاولیاء کا یہاں دربار گہربار واقع ہے۔ اس مزار شریف کا یہ فیض، مشاہدہ کیا گیا کہ ساحل سمندر سے دور کی آبادیاں ’’سونامی‘‘ (2004ء) میں تباہ ہوگئیں، لیکن مزار شریف اور اس سے متصل آبادی (جو کہ ساحل پر ہی موجود ہے) کو کسی قسم کا جانی یا مالی نقصان نہیں پہنچا۔
سری لنکا میں ’’نور ایلیا‘‘ کے مقام پر حضرت آدم کا نقش قدم واقع ہے۔ مبلّغ اسلام حضرت محمد قمر رضا خاں نے سری لنکا کا دو مرتبہ دورہ کیا۔
سری لنکا میں مسلم آبادی میں زیادہ تر کُتیانہ میمن کے افراد اکثریت میں ہیں۔ ان کی تنظیم نے حضرت قمر رضا کے تبلیغی سفر کا اہتمام اور وعظ و ارشاد کی محافل کا انعقاد کیا تھا۔ جن میں حاجی الیاس ضیائی، حاجی اسمٰعیل، حاجی ادریس پٹیل، حاجی یٰسین نگریہ، حاجی ذکر چنا مرحوم وغیرہ پیش پیش تھے۔
بنگلہ دیش کے متعدد شہروں میں مسلک اعلیٰ حضرت کا پرچار کیا۔ بنگلہ دیش میں اہلسنت و جماعت کے متعدد مدارس قائم ہیں، جہاں حضرت مولانا محمد قمر رضا تشریف لے گئے تھے۔ قارئین کی دلچسپی کے لیے عرض ہے کہ ڈھاکہ میں عید میلادالنبیﷺ کا جلوس تاریخی اور دیدنی ہوتا ہے کہ بلا مبالغہ اس جلوس میں ایک کروڑ سے زائد عاشقان رسول شریک ہوتے ہیں۔ بنگلہ دیش میں حضرت شاہ جلال بابا کا مزار پُرانوار سلہٹ میں واقع ہے اور مرجع خلائق ہے۔ حضرت قمر رضا نے بنگلہ دیش میں اس مزار شریف کے علاوہ دیگر مقامات مقدسہ پر بھی حاضری دی۔ علاوہ ازیں ’’راجشاہی‘‘، ’’رنگپور‘‘، ’’دیناجپور‘‘، ’’سیدپور‘‘، کشن گنج‘‘، ’’بوگرہ‘‘، ’’شیرپور‘‘، ’’کومیلہ‘‘، ’’سراج گنج‘‘، ’’نواب گنج‘‘، ’’بالوگھاٹ‘‘، ’’کھُلنا‘‘، ’’جیسور‘‘، ’’فریدپور‘‘، ’’جمالپور‘‘، چٹاگانگ میں ’’بردربن‘‘، ’’نواکھلی‘‘، ’’رنگامتی‘‘۔ وغیرہ میں بھی تبلیغی دورے فرمائے۔
سفرِ مقدس برائے حج و عمرہ:
قمر ملت حضرت محمد قمر رضا خاں صاحب نے فریضۂ حج ادا کرلینے کے بعد دو نفلی حج کے لیے حرمین طیبین کا سفر اختیار کیا۔ علاوہ ازیں عمرہ کرنے کے لیے بھی حجاز مقدس کا مبارک سفر بار بار کیا۔ حضرت قمر رضا کی عادت شریفہ تھی کہ قیام مکۃ المکرمہ میں حضرت ام ہانی کے گھر کی باقیات کے نشانات (جہاں سے حضور اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام معراج شریف پر روانہ ہوئے تھے اور جہاں حضرت جبرئیل براق لے کر حاضر بارگاہ رسالت ہوئے تھے) سے برکت لینے کے لیے، بعد عشاء تین یا چار گھنٹے یہاں رونق افروز ہوتے تھے۔ فقیر راقم الحروف نے دیکھا کہ یہاں سے گزرنے والا کوئی بھی ہو، خواہ مصری ہو یا مغربی، افریقی ہو یا نجدی سعودی۔ ایک بار زیارت کرلینے کے بعد بار بار دیکھتا ہے، گزرتے گزرتے بھی، آگے بڑھ جانے کے بعد پلٹ پلٹ کر بھی زیارت کرتا ہے۔ ایشیائی باشندے تو قریب آکر پوچھتے تھے، کہ حضرت کا تعارف کیا ہے؟ دراصل حضرت کی شخصیت کی جاذبیت لوگوں کو اپنی طرف ملتفت کرتی تھی۔ مدینۃ المنورہ میں حضرت اکثر مسجد نبوی شریف کے اندر واقع ترکوں کے بنائے ہوئے اور کھلے صحن میں تشریف رکھتے تھے، جہاں سے ’’گنبد خضریٰ‘‘ خوب واضح اور نور برساتا محسوس ہوتا ہے۔ اسی مقام کو T.T.S. یعنی ٹناٹن سُنّی ’’قادری چوک‘‘ کہتے ہیں۔
پاکستان میں جب چمکا بریلی کا چاند:
1985ء میں جب پاکستان آنے کا قصد فرمایا تو پہلے حضرت علامہ تحسین رضا صاحب سے اجازت طلب فرمائی اورازاں بعد برادر اکبر حضور تاج الشریعہ علامہ مفتی محمد اختر رضا خاں الازہری کثر اللہ مجدہ و دام اقبالہ سے بھی سفر پاکستان کی اجازت لی، جو کہ دونوں بزرگوں نے بخوشی اجازت مرحمت فرمائی۔
مونس اہلسنّت، قمر ملت، حضرت محمد قمر رضا خاں تقریباً 25 سال قبل پاکستان تشریف لائے تھے۔ کراچی میں آپ کا قیام اپنی ہمشیرہ اور برادر نسبتی محترم شوکت حسن خان کے یہاں تھا۔ آپ سے ملاقات کے لیے علماء و مشائخ بڑی تعداد میں حاضر ہوتے تھے، وابستگان اہلسنّت و معتقدین و متبعین امام احمد رضا محمد قمر رضا کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے کثیر تعداد میں حاضر ہوتے رہے۔ حضرت صاحب اپنی ملاقات کا شرف عطا فرماتے وقت منکسرانہ انداز رکھتے ۔ ملاقات کے لیے وقت کا تعین بھی نہ فرماتے، یعنی جو بھی اور جب بھی آجائے اس سے ملاقات فرماتے، نہایت محبت اور شفقت سے ملاقات فرماتے۔ فاضل جلیل اور عالم نبیل کے باوصف عالمانہ وقار اور نسبی وجاہت پر مشفقانہ رویہ غالب رہتا۔ کراچی میں چند مقامات پر میلاد النبی ﷺ کے بڑے بڑے جلسے منعقد ہوئے، ان جلسوں سے حضرت صاحب نے خطاب فرمایا ۔ دوران خطاب قرآن و احادیث اور اقوال آئمہ سے دلائل و براہین کے انبار لگا دیتے جبکہ عقلی دلائل بھی پیش فرماتے۔
حضور تاج الشریعۃ مدظلہ العالی سے شباہت کے باوصف اکثر افراد یہی سمجھتے کہ شیخ الاسلام حضرت مفتی محمد اختر رضا الازھری صاحب تشریف لائے ہیں۔ اس ضمن میں ایک واقعہ درج ذیل ہے۔
حاجی محمد حنیف طیب کو مغالطہ:
قمر ملت حضرت ڈاکٹر محمد قمر رضا اپنے ماموں زاد بھائی محترم سیّد عبدالرشید صاحب۱ کے یہاں ایک محفل میلادمیں تشریف فرماتھے، لب سڑک واقع مکان کی چھت پر کھڑے ہو کر خطاب فرما رہے تھے، دریں اثنا سڑک پر سے نظام مصطفی گروپ کے پارلیمانی قائد حاجی محمد حنیف طیب صاحب ( جو کہ اس وقت وفاقی وزیر محنت و افرادی قوت و اورسیز تھے) کی نظر اتفاقیہ حضرت صاحب پر پڑ گئی، تو ٹھہر گئے وفاقی وزیر ہونے کے باوصف سیکیورٹی کے حوالے سے پولیس موبائلز اور دیگر وی آئی پی شخصیات کی قیمتی کاروں کا ایک کاروان ساتھ تھا، منسٹر صاحب کے رکتے ہی سب رُک گئے۔ حاجی محمد حنیف طیب صاحب، محض شباہت کی وجہ سے قمر رضا خاں صاحب کی ذات پر حضور تاج الشریعہ ازہری میاں مدظلہ العالی کو قیاس کرکے محفل میں شریک ہو کر یہ گمان کر رہے تھے کہ حضور تاج الشریعہ جب تشریف لاتے ہیں تو پولیس ہیڈ آفس سے آمد و روانگی (Exit & Entry) کے لیے پاسپورٹ اپنے بہنوئی جناب شوکت حسن خاں زید مجدہٗ کے ذریعے مجھے بھجواتے ہیں، اب کیا ہوا؟ کہ حضرت نے اپنی تشریف آوری کی کوئی اطلاع نہیں دی، کیا حضرت مجھ سے ناراض ہیں؟
ازاں بعد معلوم ہو اکہ یہ بھی بریلی سے تشریف لائے ہیں اور حضرت مفتی محمد اختر رضا خاں الازھری مد فیوضہم کے برادر اصغرہیں، لیکن قامت، جسامت اور وجاہت میں یکساں ہیں۔ اس یکسانیت و مساوات سے بالا علمی وقار اور کمال حضور فیض گنجور، تاج شریعت، کثیر البرکت حضرت عالی مرتبت علامہ و فہامہ مفتی اعظم کل عالم محمد اختر رضا خاں الازھری دامت اقبالھم و کثر برکاتہم میں فی زمانہ سب سے زیادہ، نمایاں اور تاباں ہے۔
ڈاکٹر محمد قمر رضا سے حاجی محمد حنیف طیب صاحب کی پہلی ملاقات اس انداز میں ہوئی۔ اس کے بعد وقتاً فوقتاً ملاقات ہوتی رہی۔
وزیر اعظم پاکستان سے ملاقات:
وفاقی وزیر محنت وافرادی قوت محترم حاجی محمد حنیف طیب نے ایک دن حضرت شوکت حسن خان کے گھر حاضر ہوکر حضرت قمر رضا صاحب سے ملاقات کی، او رانھیں عرض کیا کہ وزیر اعظم پاکستان محمد خان جونیجو آپ سے ملاقات کے مشتاق ہیں، آپ حکم فرمائیں تو یہاں حاضر ہوجائیں لیکن سیکوریٹی کے باعث آپ کے لیے اور شوکت حسن خان کے لیے کچھ پرابلمز ہوں گی، لہٰذا ناگوار خاطر نہ ہو تو آپ میرے ساتھ چلیں۔ حضرت کی سادگی کا یہ عالم تھا، کہ فرمایا: چلو بھئی ہم اُن سے ضرور ملیں گے۔
چنانچہ اس وقت کے وزیر اعظم محترم محمد خان جونیجو (مرحوم و مغفور) کی کراچی میں موجودگی کے وقت دعا کے لیے حضرت قمر ملت کو حنیف بھائی اپنے ساتھ لے کر گئے۔ اس طرح وزیر اعظم پاکستان سے حضرت ڈاکٹر محمد قمر رضا کی ملاقات ہوئی ۔ حضرت قمر ملت کی اعلیٰ حضرت قدس السرہ سے نسبی تعلق کے باعث، وزیر اعظم محمد خان جونیجو نہایت عقیدتمندی و نیاز مندی سے ملے۔
پاکستان میں حضرت کا کارنامہ:
کراچی ڈالمیا کی اسٹریٹ سے متصل پاکستان نیوی کا طویل رقبہ و احاطہ ہے جس میں اسٹاف کالج، لائبیری، مساجد، افسران کی قیام گاہیں، سپاہیوں کی رہائشی بیرکس، اسٹاف کالج کے اسٹوڈنٹس کے لیے ہاسٹلز، میرینز میوزیم، تاریخی قبرستان، شہریوں کے لیے انٹرٹینمنٹ کے انتظامات کے علاوہ حساس نوعیت کی تنصیبات بھی ہیں۔ ڈالمیا کی سڑک کے ایک جانب نصف حصہ تک عوامی آبادی ہے اور یہیں محترم سیّد عبدالرشید صاحب کی رہائش ہے۔ عوامی آبادی کے سامنے نیوی تنصیبات کے احاطے کے اندر ایک مسجد ابو بکر صدیق رجسٹرڈ ٹرسٹ اہلسنت و جماعت واقع ہے۔ پاکستان نیوی کے ایڈمرل اکبر حسین جو شیعہ تھے نیز نہایت متکبر اور رعونت کے حامل شخص تھے۔ انہوں نے مسلکی تعصب کی بنا پر مسجد کو بند کرادیا، تالے ڈلوادیئے۔ پاکستان نیوی کے احاطہ میں مسجد واقع تھی، نیوی کی زمین کے اطراف کی چہار دیواری (Baundry Wall)کے اند رمسجد تک جانے کا باہر سے راستہ تھا، تاکہ باہر سے آنے والے با ٓسانی مسجد تک نماز کی ادائیگی کے لیے حاضر ہو سکیں۔ جب ایڈمرل اکبر حسین (شیعہ) نے جامع مسجد ابو بکر صدیق کو تالے ڈلوادیئے، تو نیوی کے ملازمین بھی نمازوں کی ادائیگی کے لیے پریشان ہوئے۔ جبکہ اہل علاقہ بھی متاثر ہوئے۔ اثر و رسوخ رکھنے والے متعدد افراد نے کوشش کی، کہ مسجد کا تالہ کھلوایا جاسکے۔ لیکن کامیابی نہیں ہو ئی اسی اثناء میں جمعۃ المبارک کا دن آگیا۔ مسجد میں جمعۃ المبارک کی نماز میں کثیر تعداد میں لوگ آتے تھے، مصلیان مسجد تمام انتہائی مضطرب تھے۔ محترم المقام سیّد عبدالرشید صاحب نے ایمانی جرأت و حمیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مین روڈ پر نماز جمعہ کے اہتمام کے لیے اعلان کردیا۔ نیز اعلان میں یہ بھی کہا گیا کہ بریلی شریف سے تشریف لائے ہوئے اعلیٰ حضرت محدث بریلوی کے نبیرۂ محترم محمد قمر رضا خان مدظلہ العالی اجتماع جمعہ سے خطاب بھی فرمائیں گے، نیز نماز جمعہ کی امامت بھی فرمائیں گے۔ اعلان کے مطابق دریاں، چٹائیاں صفیں بچھا دی گئیں، مین روڈ بند کردیا گیا۔ سڑک پر نماز ادا کرنے کے نتیجہ میں جمعۃ المبارک کا اجتماع بہت بڑا ہوگیا۔ نماز کے لیے راستے سے گزرنے والے حضرات کہیں دوسری جگہ جانے کی بجائے یہیں رک گئے۔ اس زمانہ میں نماز جمعہ کے لیے باقاعدہ حکومتی سطح پر تعطیل ہوا کرتی تھی۔ اگرچہ یہ تعطیل پہلے اتوار کے لیے مختص تھی، لیکن یکم جولائی 1977ء بروز جمعہ ذوالفقار علی بھٹو صاحب نے چند اسلامی اصلاحات کے نفاذ کے موقع پر’’جمعہ‘‘ کے دن ہفتہ وار تعطیل کا اعلان کیا تھا۔ اس تعطیل سے یہ فائدہ ضرور ہوا تھا کہ اکثر لوگ تعطیل کی وجہ سے صبح گیارہ بجے اٹھ کر غسل وغیرہ کرکے پاکیزہ لباس زیب تن کرکے اپنے بچوں کو ساتھ لے کر نماز جمعہ کے لیے گھر سے نکلتے تھے۔ ایسے حضرات ڈالمیا کی سڑک پر نماز جمعہ کا انعقاد دیکھ کر اس میں شامل ہوگئے۔ قمر ملت حضرت محمد قمر رضا خان نور اللہ مرقدہٗ نے اجتماع جمعہ میں خطاب بھی فرمایا اور خطبۂ جمعہ ارشاد فرماکر نماز جمعہ کی امامت فرمائی۔ نماز کے بعد جامع مسجد صدیق اکبر کی بحالی و برقراری کے لیے اور ایڈمرل اکبر حسین کے خائب و خاسر رہنے کے لیے دعا فرمائی۔ نماز جمعہ کے اس اجتماع کے نتیجہ میں ایڈمرل صاحب کی ایسی مذمت ہوئی، کہ اربابِ اختیار تک یہ معاملہ پہنچا اور بحمدہٖ تعالیٰ اسی دن سے مسجد کو کھول دیا گیا اور آج بھی مسجد قائم ہے۔
شائقین ملاقات کا ہجوم:
سطور بالا میں مرقومہ واقعہ کی شہرت ہوئی لہٰذا، اکثر لوگ عقیدت سے آئے اور آپ کے حلقہ ارادتمند وں میں شامل ہوگئے۔ نماز جمعہ کے بعد اسی سڑک پر کئی افراد مرید ہوئے۔ پاکستان نیوی کے ایک کمانڈر ظفر جٹ صاحب نے آپ سے بیعت کی اور حضرت نے مطالعہ کے لیے چند کتب اعلیٰ حضرت پیش کیں۔ جو ظفر صاحب نے کمپیوٹر کتابت کرواکر ہزاروں کی تعداد میں شائع کروائیں، اور مفت تقسیم کا اہتمام کیا، اس زمانہ میں کمپیوٹر ٹیکنالوجی متعارف نہیں ہوئی تھی، اسی لیے کمپیوٹر سے کتابت کا رجحان نہ تھا، حکومتی اداروں خصوصاً افواج پاکستان کے عسکری اداروں میں کمپیوٹر کا استعمال شروع ہوگیا تھا۔ کمانڈر ظفر جٹ صاحب اکثر آتے اور اپنے ہمراہ احباب کو بھی لاتے۔ مشکلات میں حاجت روائی کے لیے طالب دعا ہوتے۔ حضرت صاحب ہمیشہ شفقت فرماتے۔ حضرت کی دعاؤں سے ظفر جٹ صاحب کی ترقی بھی ہوئی اور حضرت نے جٹ صاحب کے اصرار پر انہیں ’’اسم اعظم‘‘ بھی تعلیم فرمایا۔ حضرت قمر رضا صاحب نور اللہ مرقدہ پاکستان میں اپنے قیام کے دوران کراچی میں اپنے برادر نسبتی حضرت شوکت حسن خاں مدظلہ العالی کے یہاں مقیم رہے۔ تاہم اپنے والد محترم (مفسر اعظم حضرت علامہ ابراہیم رضا جیلانی میاں قدس سرہٗ) اور والدۂ محترمہ دونوں کے پھوپھی زاد بھائیوں یعنی محترم شہید اللہ خان صاحب۱ طول اللہ عمرہ اور سعید اللہ خان صاحب دام برکاتہم سے ملاقات کے لیے ملیر اور شاہ فیصل کالونی تشریف لے جاتے تھے۔
علاوہ ازیں دارالعلوم امجدیہ، میمن مسجد کھوڑی گارڈن، دارالعلوم نعیمیہ، شمس العلوم جامعہ رضویہ کے علاوہ دیگر اداروں میں علماء و عوام سے ملاقات کے لیے تشریف لے جاتے رہے ہیں۔ بعض مقامات پر بڑے بڑے جلسۂ عام سے خطاب فرمایا۔ مخدوم اہلسنّت حضرت علامہ سیّد شاہ تراب الحق قادری مدفیوضہم وبرکاتہم کی درخواست پر میمن مسجد مصلح الدین گارڈن میں بھی خطاب فرمایا۔
برادر طریقت محترم ڈاکٹر معین نوری کے یہاں شاہراہ فیصل پر بہت بڑا جلسۂ عام منعقد ہوا تھا، اس سے حضرت قمر رضا نے والہانہ خطاب فرمایا تھا۔ علاوہ ازیں میمن مسجد بولٹن مارکیٹ، جامع مسجد گلزار حبیب سولجر بازار(حضرت مولانا کوکب نورانی اوکاڑوی صاحب) کے یہاں بھی حضرت اجتماع جمعہ میں تشریف لے گئے تھے۔ خطیب پاکستان حضرت علامہ محمد شفیع صاحب اوکاڑوی کے مزار پر انوار کی حاضری اور جمعۃ المبارک کے اجتماع میں تقریر دلپذیر فرمائی۔ نیز نماز جمعہ کی امامت بھی آپ نے فرمائی، مگر لاؤڈ اسپیکر استعمال نہیں فرمایا۔ فراغت نماز اور صلوٰۃو سلام کے بعد رخصت ہوتے وقت مولانا کی خدمت میں نذرانہ پیش کرنا چاہا، تو حضرت علامہ قمر رضا خان نے قبول نہیں فرمایا۔ کراچی میں چند مزارات اولیاء اللہ مثلاً حضرت عبداللہ شاہ غازی بابا، حضرت سیّد یوسف المعروف قطب عالم شاہ بخاری کے دربار میں حاضری کا شرف حاصل کیا۔
دارالعلوم قادریہ سبحانیہ شاہ فیصل کالونی میں ایک بہت بڑا جلسہ منعقد کیا گیا، جس میں طلباء کی دستار بندی کی تقریب بھی ترتیب دی گئی تھی۔ دارالعلوم کے مہتمم شیخ الحدیث والتفسیر حضرت علامہ مفتی عبدالسبحان قادری اور نائب مہتمم حضرت علامہ مفتی عبدالعلیم قادری صاحب مدظلہ العالی نے حضرت علامہ قمر رضا صاحب کا زبردست خیر مقدم کیا اور حضرت صاحب نے عشق رسول ﷺ اور اعلیٰ حضرت قدس السرہ پر نہایت جذباتی تقریر فرمائی۔
درالعلوم میں بھی اکثر طلباء حلقۂ ارادتمندی میں داخل ہوئے، جبکہ بعض اساتذہ کرام، آپ سے طالب ہوئے۔ بعض علماء آپ کے ذریعے اعلیٰ حضرت قدس السرہ سے نسبت استوار کرنے کے لیے حصول خلافت کے لیے خواستگار ہوئے تو آپ نے منع نہیں فرمایا لیکن جسے اہل سمجھا اسے خلافت عطا کی۔ مفتی عبدالسبحان قادری نے چند ملبوسات تیار کروارکر نذر کیے۔ ایک بڑی کمپنی جو کمبل بناتی تھی، اس کے مالک نے بھی آپ سے بیعت کی۔ آپ سے خاصی بڑی تعداد تقریباً ڈیڑھ ہزار کے لگ بھگ پاکستان میں مرید ہوئے۔ یہ وقت رشد وہدایت کے آغاز کا تھا کیونکہ 1984ء میں تحسین العلماء استاذ الاساتذہ شیخ الحدیث والتفسیر حضرت تحسین رضا خان۱ نے سلسلہ رضویہ برکاتیہ کے فروغ کے لیے اسی انداز میں خلافت و اجازت سے سرفراز فرمایا، جیسا کہ خانوادہ اعلیٰ حضرت قدس السرہ کی روایت رہی ہے۔ حضرت قمررضا نے علامہ تحسین رضا قدس السرہ العزیز سے نقش مربع و مثلث لکھنے و بھرنے کے طریقے سیکھے علاوہ ازیں خانوادۂ اعلیٰ حضرت میں مروّجہ و مجرب نقوش و تعویزات لکھنے کی خصوصی تعلیم حاصل کی۔
قیام پاکستان کے دوران آپ کی سادگی اور بھولپن کا عالم یہ تھا، کہ ہمشیرہ۱ محترمہ یعنی اپنے برادر نسبتی حضرت شوکت حسن خان کے دولت خانہ واقع فیڈرل بی ایریا بلاک ۱۲ میں قیام فرما تھے۔ گھر میں مہمانوں کی آمد و رفت، آپ ہی کی وجہ سے بڑھی ہوئی تھی، چائے وغیرہ کی تیاری میں دودھ جلد ہی ختم ہو جاتا تھا آپ اپنے برادر نسبتی کو دودھ لانے کی زحمت نہ دیتے بلکہ آپ خود بھینس کے باڑے پر جاکر دودھ لے آیا کرتے تھے۔
آپ اپنی پرمزاح گفتگو اور بذلہ سنجی کے حوالہ سے بھی معروف تھے۔ یوں آپ کی شخصیت کے گوناگوں پہلو پر اُسے قلم اُٹھانا چاہیے جو قیام میں اور سفر میں آپ کے ساتھ رہا ہو۔ کیا ہی اچھا ہو ؟ کہ حضرت مولانا محمد عمر رضا صاحب سلمہٗ و زید مجدہٗ، اپنے والد گرامی مرحوم پر جامع انداز میں سوانح عمری ترتیب دیں۔ فقیر راقم الحروف نے اپنی کم علمی اور بے بضاعتی کے باوصف جو لکھا ہے، اسے پذیرائی حاصل ہو تو، فقیر کے لیے صلۂ عظیم ہوگا۔
شہر خموشاں کے مسافر
وہ چمکتا دمکتا رضا کا قمر
یعنی حضرت ریحان ملت اور حضرت تاج الشریعہ کے برادر صغیر حضور صاحب سجادہ کے عم محترم
افق رضویت کے قمر منیر ، شہزادۂ مفسر اعظم ہند
از : حضرت مفتی محمد سلیم بریلوی مدظلہ العالی۱
استاذ جامعہ رضویہ منظر اسلام بریلی شریف
مجدد اعظم ، امام اہلسنّت، سیدی سرکار اعلیٰ حضرت قدس سرہٗ جیسے عاشق صادق اور صاحب کشف و کرامت بزرگ نے نہ جانے کون سی مقبولیّت کی گھڑی میں فرمایا تھا کہ
، حامد منی انا من حامد حمد سے ہمد کماتے یہ ہیں
کیونکہ اس شعر کے ہر ہر لفظ کی معنویت و واقعیت کو آج ہم خانوادۂ رضویہ اور نسل حجۃ الالسلام کے ہر ہر فرد کے اند رمحسوس پیکر میں دیکھ رہے ہیں اس وقت افق رضویت پر اسلام و سنّیت کے حجت قاہرہ بن کر چمکنے والے سارے ماہ و نجوم کا تعلق شہزادۂ حجۃ الاسلام حضرت مفسر اعظم ہند علامہ محمد ابراہیم رضا خاں جیلانی میاں کی ذات والا تبار سے ہے۔
موجودہ دور میں سرکار اعلیٰ حضرت کی جو نسل مبارک پائی جاتی ہے وہ حضور مفسر اعظم ہند کی اولاد ہی کی صورت میں ہمارے سامنے ہیں۔ سرکار مفسر اعظم ہند کی سب سے عظیم کرامت اور سب سے بڑی خاصیّت یہی ہے کہ آپ نے اپنی اولاد اور اپنے تمام فرزندان کی علمی و روحانی ایسی مثالی تربیت فرمائی کہ ان کا ہر فرزند سرکار اعلیٰ حضرت کے مشن ’’مشن تحفظِ ناموس رسالت‘‘ اور سرکار اعلیٰ حضرت کی تحریک ’’تحریک تحفظ عظمت اولیاء‘‘ کا عظیم علم بردار اور بہادر نڈر جرنیل بن کر مذہب اہلسنّت اور مسلک اعلیٰ حضرت کا محافظ و پاسبان بن کر ’’حامد منی انا من حامد‘‘ کی عملی تفسیر بن گیا۔ چنانچہ کسی نے اسلام اہلسنّت کا مسحور کن ’’ریحان ‘‘ بن کر جماعت اہلسنت کے مشام جاں کو معطر کیا تو کوئی ’’اختر‘‘ بن کر آج اہلسنّت کے ہر عام و خاص پر اپنی علمی و روحانی چمک دمک کے ساتھ سایہ فگن ہے، کسی نے افق رضویت کا درخشاں ’’قمر‘‘ بن کر ضلالت و گمراہی کی گھٹاٹوپ تاریکیوں میں ’’مصباح راہب‘‘ اور مینارۂ نور کی صورت میں رشد و ہدایت کا عظیم کارنامہ انجام دیا تو کوئی ’’منان‘‘ بن کر بریلی و دہلی میں علوم و فنون کی قندیلوں کو روشن کر رہا ہے۔
سرکار اعلیٰ حضرت کے اسی مشن تحفظ ناموس رسالت کے ایک عظیم قائد کا نام تھا شہزادہ مفسر اعظم ہند حضرت مولانا محمد قمر رضا خاں جو جماعت اہلسنّت کو روتا، بلکتا چھوڑ کر مورخہ ۵ شعبان المعظم ۱۴۳۳ھ مطابق ۲۶ جون ۲۰۱۲ء بروز منگل بوقت تقریباً ۵ بجے صبح اپنے مالک حقیقی سے جاملے ۔
اِنَّا لِلہِ وَاِنَّا اِلَیہِ رَاجِعُونَ
۱آپ حضور مفسر اعظم جیلانی میاں کی اولاد نرینہ میں چوتھے نمبر کے فرزندہیں، حضور مفسراعظم جیلانی میاں کے فرزند اکبر ریحان ملت حضرت محمد ریحان رضا خاں (المعروف رحمانی میاں) منجھلے فرزند حضور تاج الشریعہ مفتی محمد اختر رضا خاں (المعروف ازہری میاں مدظلہ العالی ) تیسرے نمبر پر حضور قمر ملت ڈاکٹر محمد قمر رضا خاں چوتھے نمبر پر مولانا منان رضا خاں (المعروف منانی میاں)۔
آپ حضور تاج الشریعہ سے عمر میں چھ برس چھوٹے تھے،آپ تاج الشریعہ کی طرح نجیب الطرفین (یعنی باپ اور ماں دونوں کی طرف سے اعلیٰ حضرت امام احمد رضا سے نسب ) ہیں۔۱۲
۲ آپ کی ولادت 10ربیع الآخر 1325ھ /1907ء میں رضا نگر محلہ سوداگراں بریلی شریف میں ہوئی، حضرت حجۃ الاسلام کے گھر میں یہ پہلی ولادت ہوئی ،اس لیے خاندان کے ہر فرد کو بےحد خوشی ہوئی، ابتدائی تعلیم کا آغاز دارلعلوم منظر اسلام کی آغوش میں کیا، آپ کو بیعت و خلافت اعلیٰ حضرت سے حاصل ہے۔ آپ کا وصال بعمر 60 سال صبح 11 صفر المظفر 1385ھ/12جون 1965ء کو ہوا۔
۳ حجۃ الاسلام مولانا حامد رضا 1292ھ/ 1892ء بریلی میں پیدا ہوئے، آپ نے جملہ علوم و فنون اپنے والد اعلیٰ حضرت سے حاصل کیے۔ 1323ھ/ 1905ء میں اپنے والد ماجد کے ہمراہ زیارت حرمین شریفین اور حج کی سعادت سے مشرف ہوئے اور شیخ محمد سعید بالبصیل اور شیخ محمد برزنجی کے حلقہ درس میں شریک ہوئے اور اسناد سے نوازے گئے۔ حضرت علامہ خلیل خربوطی نے سند فقہ حنفی عطا فرمائی جو علامہ سید طحطاوی سے انھیں صرف دو واسطوں سے حاصل تھی۔
دارالعلوم منظر اسلام بریلی شریف میں صدرالمدرسین اور شیخ الحدیث کا منصب سنبھالا۔ بیعت و خلافت حضرت سیّدنا ابوالحسین احمد نوری قدس سرہٗ سے حاصل ہے۔ درجنوں کتابیں آپ کی یادگار ہیں۔ 17 جمادی الاولیٰ1362ھ/ 1943ء دوران نماز آپ کا وصال ہوا۔ روضۂ اعلیٰ حضرت کے مغربی جانب گنبد رضا میں مدفون ہوئے۔
معروف محقق عبدالحق انصاری لکھتے ہیں:
اعلیٰ حضرت ہندوستان کے شہر بریلی میں 1272ھ/ 1856ء میں پیدا ہوئے۔ اور 1340ھ/ 1921ء کو وہیں وفات پائی۔ فقیہ حنفی، مسند، نعت گو شاعر، قادری مرشد، کثیر التصانیف تھے۔
آپ کے پانچ اوصاف و خدمات قابل ذکر ہیں:
پہلی:
قرآن مجید کا اردو ترجمہ کیا جسے مقبولیت ملی اور کسی حکومت کی مالی معاونت و سرپرستی کے بغیر وسیع اشاعت ہوئی۔
دوسری:
اپنے دور کی اسلامی دنیا میں عالی الاسناد شخصیت تھے۔
تیسری:
اردو کی نعتیہ شاعری میں گراں قدر اور بے مثل اضافہ کیا۔
چوتھی:
فقہ حنفی کی مشہور کتاب درمختار کے محشی دمشق کے علامہ سیّد محمد امین بن عمر ابن عابدین (وفات1252ھ/ 1836ء) کے بعد آج تک کی اسلامی دنیا میں ان کے درجہ کا کوئی فقیہ حنفی ہمارے علم میں نہیں۔
پانچویں:
بارہویں صدی ہجری میں جنم لینے والی وہابی تحریک کے تعاقب میں فعال پوری اسلامی دنیا کی اہم و نمایاں شخصیت میں سے تھے۔
آپ کے حالات اردو وغیرہ زبانوں میں بآسانی دستیاب ہیں، علاوہ ازیں فتاویٰ رضویہ 33ضخیم مجلدات میں فقہ حنفی کا انسائیکلوپیڈیا بھی آپ کا عظیم کارنامہ ہے۔
رئیس المتکلمین علامہ نقی علی خان کی ولادت مسلح جمادی الآخر یا غرہ رجب 1246ھ مطابق 1830ء کو بریلی کے محلہ ذخیرہ میں ہوئی،آپ نے جملہ علوم و فنون کی تعلیم اپنے والد ماجد امام العلماء مولانا رضا علی خان سے حاصل کی ، آپ ایام طفلی سے ہی پرہیزگار ، متقی اور علم وعمل کے بحر ذخار تھے ، آپ کی ذات مرجع خلائق وعلماء تھی، کثیر علوم میں تصانیف مطبوعہ وغیر مطبوعہ آپ کے علم و فضل کی شاہد ہیں،آپ نے سیّدنا شاہ آلِ رسول قادری برکاتی مارہروی سے شرف بیعت و خلافت حاصل کی۔آپ نے 1297ھ تک فتویٰ نویسی کا گراں قدر فریضہ انجام دیا،آپ کا خونی اسہال کے عارضہ میں ذیقعدہ 1297ھ /1880ء کو وصال ہواجسے علماء نے شہادت سے تعبیر کیا۔
امام العلماء مولانا رضا علی خان 1224ھ میں بریلی میں پیدا ہوئے ، آپ نے جملہ علوم و فنون کی تکمیل 1347ھ میں مولانا خلیل الرحمٰن رامپوری سے حاصل کی ،آپ مولانا فضل الرحمٰن گنج مرآبادی سے بیعت تھے اور اجازت و خلافت مولانا خلیل الرحمن ولایتی رامپوری سے تھی ، فقہہ میں آپ کو دسترس خاص حاصل تھا ، 1816ءمیں آپ نے مسند افتاء کو رونق بخشی اور 1246ھ/ 1831ءمیں سرزمین بریلی پر مسند افتاء کی بنیاد رکھی اور چونتیس سال تک فتویٰ نویسی کا کام بحسن خوبی انجام دیا، آپ نہایت منکسر المزاج تھے، آپ کی تقریر انتہائی موثر ہوتی ، بڑے تقویٰ شعار،زہد وقناعت اور تجرید جیسے اوصاف حمیدہ میں بھی آپ ممتاز تھے، آپ کا وصال بعمر باسٹھ سال 6 جمادی الاول 1286ھ میں ہوا ، اوربریلی میں قبرستان بہاری پور سول لائن آپ کی آخری آرامگاہ ہے۔
حضرت قمر رضا صاحب کے متعلق ڈاکٹریٹ اور PHD کی ڈگری منسوب کی گئی ہے جو غلط فہمی کی وجہ سے شہرت پاگئی۔ لہٰذا یہاں اس غلط فہمی کا ازالہ کیا گیا ہے۔
مفتی اعظم ہند علامہ مفتی محمد مصطفے رضا خان بریلوی 22ذی الحجہ 1310ھ/7 جولائی 1893ء میں بریلی شریف میں پیدا ہوئے، 25 جمادی الثانی 1311ھ چھ 6ماہ تین یوم کی عمر میں حضرت شاہ سید ابوالحسن نوری قدس سرہٗ نے داخل سلسلہ فرمایا اور تمام سلاسل کی اجازت و خلافت سے سرفراز فرمایا، آپ نے 1328ھ/1910ء میں بعمر 18 سال جملہ علوم و فنون منقولات و معقولات پر عبور حاصل کر کے دارالعلوم منظر اسلام سے تکمیل و فراغت پائی ، اور فتویٰ نویسی کی مسند کو رونق بخشی، آپ 92سال کی عمر میں 14 محرم 1402/12نومبر 1981ء رات 1بجکر 40منٹ پر کلمہ طیبہ کا ورد کرتے ہوئے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔
صدرالعلماء علامہ تحسین رضاخان بریلوی 4شعبان 1930ء میں پیدا ہوئے،آپ اعلیٰ حضرت کے برادر اصغر مولانا حسن رضا خان متوفی 1326ھ/1908ء کے پوتے ہیں، آپ شعبان 1375ھ میں جامعہ رضویہ مظہر اسلام فیصل آباد سے سند فراغت حاصل کر کے بریلی شریف واپس آئے۔ 1949ء میں مولوی ، 1950ء میں عالم ، 1951ءمیں منشی ، 1952ء میں فاضل ادب1954ء میں کامل کے امتحانات دیئے،آپ 1943ء میں حضور مفتی اعظم کے دستِ حق پرست پر بیعت ہوئے اور 1980ھ میں حضور مفتی اعظم نے اجازت و خلافت سے نوازا،آپ کا وصال 1427ھ/ 2007ءمیں ہوا۔
ملازمت:
ابتداء سوداگران سے متصل ایک پرائمری اسکول میں بحیثیت اردو ٹیچر تقرر عمل میں آیا، اس کے بعد بھیم تال نینی تال میں تعلیم دی،پھر اہلسنّت کی کتابوں کو طبع کرنے کیلئے آفسیٹ پریس لگائی۔
بحوالہ :
ماہنامہ اعلیٰ حضرت، شمارہ 8، جلد 52، اگست2012ء، رمضان 1433ھ، صفحہ 58۔ ۱۲منہ
رہائش:
آپ کی رہائش حضور مفسر اعظم جیلانی میاں کی رہائش گاہ میں محلہ خواجہ قطب میں رہی اور یہیں پر پہلے حضور تاج الشریعہ بھی رہے، یہ محلہ سوداگران محلہ سے قریب ہی تقریباً ایک کلو میٹر(دس منٹ) کی مسافت پر ہے۔۱۲
آپ نے اپنی زندگی میں تین حج ادا فرمائے اور متعدد مرتبہ عمرہ کی بھی سعادت حاصل کی، بلکہ اس سال (1433ھ) ماہ رمضان میں بھی جانے والے تھے۔
سب سے پہلی مرتبہ 1990ء میں عمرہ کے لئے حاضر ہوئے، عمرہ کی دائیگی کے بعد عراق کا سفر کیا جس میں بغداد شریف اور دیگر مقامات مقدسہ کی زیارت کا شرف ملا، پہلا حج 1993ء میں ادا کیا، دوسرا حج 2001ء اور تیسرا حج 2002ء میں ادا کیا۔بروایت مولانا عمر رضا: ہندوستان کا کوئی ایسا صوبہ نہیں جہاں ابّا جی قبلہ نے تبلیغی سفر نہ کیا ہو۔۱۲
حضور قمر ملت نے متعدد بار جمعہ مبارک و عیدین ’’رضا مسجد‘‘ بریلی شریف میں پڑھایا۔۱۲
اعلیٰ حضرت نے اپنے شہزدۂ اکبر حجۃ الاسلام مولانا حامد رضا خاں کی پیدائش پر نام حامد رضا زبر بینہ کے تحت 1362ھ نکالا اور یہی آپ کا سن وصال ٹھہرا۔۱۲
بروایت جانشین و شہزادہ ٔ اکبر حضور قمر ملت ، مولاناعمر رضا خاں صاحب مدظلہٗ:
وصال سے چند ہی ماہ قبل کرناٹک میں حافظ قلندر صاحب گلشن رضوی رائے پور کی دعوت پر حضرت تشریف لائے ، میزبان کو اللہ عزوجل نے اولاد نرینہ عطا فرمائی سو حضرت کی علم الاعداد اور تاریخ گوئی کے فن پر مہارت کو مد نظر رکھتے ہوئے میزبان نے بچے کا نام تجویز کرنے کی درخواست کی جس پر حضرت نے مختصر غور کے برجستہ فرمایا کہ میرا ہی نام محمد قمر رضا 1433ھ سال پر ہے۔ سبحان اللہ۔۱۲
بروایت جانشین و شہزادۂ اکبر حضور قمر ملت ، مولاناعمر رضا خاں صاحب مدظلہٗ:
ایک بار ’’بلیا‘‘گاؤں مظفر پور ضلع بہار سے حضرت کا گزر ہوا جہاں سے ایک دریا گزرتا تھا جس کا رخ مسلمانوں کے علاقے کی طرف تھا ، حضرت نے اپنی چھڑی مبارکہ سے اس دریا کی طرف اشارہ کیا اور زیر لب کچھ پڑھا جس پر دریا کا رخ تبدیل ہو کر غیر مسلموں کے علاقے کی طرف ہوگیا جو کہ اب تک اسی طرح موجود ہے، حضرت کی اس زندہ کرامت کو دیکھ کر بے شمار غیر مسلم حلقہ بگوش اسلام ہو گئے۔۱۲
قریب تین سال سے سینے میں پانی بھی بھر گیا تھا ،ان تمام بیماریوں کے باوجود زندگی کا اکثر حصہ سفر فرمایااور وصال سے قبل بھی سفر ہی میں تھے کہ طبیعت خراب ہوئی اور بریلی شریف تشریف لے آئے۔۱۲
لہٰذا جس ڈاکٹر کے آپ زیر علاج تھے اس کے مطب میں لے جاکر دکھایا گیا۔۱۲
حضور تاج الشریعہ کی عادت مبارک کہ موبائل فون رات میں بند رکھتے اور بعد فجر بھی مگر اس دن فجر کے فوری بعد اپنا فون آن کرلیا اور فرمانے لگے کہ طبیعت کچھ بے چین سی ہورہی ہے اتنے میں فون پر اطلاع موصول ہوئی ۔۱۲
۱ سجادہ نشین درگاہ اعلیٰ حضرت علامہ مفتی سبحان رضا خان سبحانی میاں۔
ماہنامہ اعلیٰ حضرت، شمارہ 8، جلد 52، اگست2012 ، رمضان 1433ھ، صفحہ ۶۰۔
نماز جنازہ میں اجتماع کثیر تھا ، ایسا معلوم ہوتا جیسا کہ عرس اعلیٰ حضرت پر لوگوں کا ہجوم ہو ، دُور دَراز سے لوگ جنازے میں شریک ہوئے یہاں تک کہ بہار سے بریلی تک ٹرین کا سفر 18 گھنٹے ہے، لوگ موٹر سائیکل پر چلے آئے۔۱۲
جنازہ کے بعد تاج الشریعہ بڑے افسردہ تھے اور لیٹ گئے اور اپنے بھائی کی جدائی کا گہرا اثر آپ پر ہوا، حضور قمرِ ملّت ، حضور تاج الشریعہ کا خوب ادب فرماتے یہاں تک کہ اپنی اولاد کو بھی خوب تاکید فرماتے۔۱۲
آپ کے شہزادگان کی گزارش پر حضور صاحب سجادہ نے آپ کی تدفین کے لئے جس جگہ کا انتخاب فرمایا وہ یقیناً ایک فرزند کیلئے بے حد خوش نصیبی اور خوش بختی کی بات ہے کہ آپ کی آرام گاہ والد اور والدہ کے بالکل درمیان اور وسط میں ہے، داہنی اور مغربی جانب حضور مفسر اعظم ہند کی تُربت ہے اور بائیں اور مشرقی جانب آپ کی والدہ کی تُربت ہے۔
۱۲ بحوالہ : ماہنامہ اعلیٰ حضرت، شمارہ 8، جلد 52، اگست 2012ء ، رمضان 1433، صفحہ ۵۹۔
[1]۔ ماہنامہ رضائے مصطفی ، گوجرانوالہ، شوال المکرم1433ھ، اگست 2012ء
۱ حیات مفسر اعظم ہند:۱۳، مفتی عبدالواجد قادری بحوالہ: حضرت مولانا محمد ابراہم خوشتر صدیقی، تذکرۂ جمیل صفحہ ۲۰۶۔
المرجع السابق۔ ۱ ڈاکٹر عبدالقدیر خان، (ایٹمی سائنسدان) ’’سحر ہونے تک‘‘ روزنامہ ’’جنگ‘‘ کراچی میں شائع ہونے والے کالم کا حوالہ۔
۱ شمائل الرسول صفحہ۱۴۴، بحوالہ ضیاء النبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جلد:۵، صفحہ ۷۱۰۔
پارہ:۲۷، القمر: ۱ تا ۳۔
کنزالایمان۔
رانا محمد سرور خاں، سیرت سرور کونین، جلد:۱۰، صفحہ:۴۹۳۔
امام ابن جریر الطبری، تفسیر جامع البیان فی تاویل القرآن، جلد یاز دھم:۵۴۴ تا ۵۴۸ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ، بیروت 1426ھ/ 2005ء۔
تفسیر روح البیان، جلد۹: ۳۱۳، مطبوعہ دار احیاء التراث بیروت۔
مسلم شریف جلد دوم:۳۷۳، ترمذی، دوم: ۶۳۶۔
علامہ مفتی محمد شریف الحق امجدی، نزہۃ القاری شرح صحیح البخاری، جلد ہفتم، صفحہ۷۷۔
تفسیر روح المعانی، ۲۷: ۷۵۔
۱ ابی محمدحسین الفرأ البغوی (متوفی516ھ/ 1122ء) تفسیر معالم التنزیل، جلد:۶، صفحہ: ۲۲۶۔
حضرت صوفی علاء الدین علی بن محمد بغدادی المعروف خازن (متوفی 725ھ/ 1325ء) تفسیر لباب التأویل فی معانی التنزیل جلد:۶، صفحہ ۲۲۶۔
حضرت شاہ رؤف احمد رافت مجددی آل مجدد الف ثانی (متوفی 1249ھ/ 1833ء)
تفسیر رؤفی جلد دوم صفحہ ۳۱۹۔
۲ تفسیر رؤفی جلد دوم صفحہ ۳۱۹ میں ہے کہ ایک یہودی مسلمان ہوگیا تھا۔ نیز ایک عبارت میں علمی نکتہ یہ ہے کہ ’’جب خوب سب نے دیکھ لیا تو پھر سرکار علیہ السلام نے جب تک دوبارہ انگشت شہادت کا اشارہ نہیں دیا، اس وقت تک شگافتہ قمر کامل نہیں ہوا‘‘۔
۱ حضرت علامہ علی بن برہان الدین الحلبی شافعی (متوفی 1044ھ/ 1634ء) انسان العیون فی سیرۃ الامین المامون، اول: ۳۰۷۔ اس کتاب کو ’’سیرۃ حلبی‘‘ بھی کہتے ہیں۔ اسی کتاب میں ہے کہ، بابا رتن الھندی کے لیے بعض علماء کہتے ہیں: ’’یہ شخص طویل العمر یعنی 600 سال کے تھے۔ انھوں نے دعویٰ کیا تھا، کہ میں نے رسول اکرم علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زیارت بھی کی تھی اور آپﷺ کے دست حق پرست پر مشرف بہ اسلام بھی ہوا تھا‘‘۔ اگرچہ امام ذھبی، امام عسقلانی نے اپنی کتب اسماء الرجال بالترتیب، ’’میزان الاعتدال‘‘، ’’لسان المیزان‘‘ میں متذکرہ شخص کے لیے کذاب کا قول بیان کیا ہے۔
۲ راجہ بھوجپال یا بھوج پانڈے اپنے محل کی چھت پر تھا، جب اُس نے چودھویں شب میں ’’معجزہ شق القمر‘‘ دیکھا تھا، یہ راجہ مشرف بہ اسلام ہوا۔ اس نے اپنے بیٹے کو عرب بھیجا تھا، جس نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں اپنے باپ کی جانب سے تحائف پیش کیے۔ اس کا اسلامی نام حضور اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام نے محی الدین یا کمال الدین رکھا اور بطور معلم حضرت عبداللہ کو بھیجا تھا۔ ان سب کے مزارات دھار /دحار میں ہے، جو مراٹھی راجاؤں (Marhathia Princely State) کا دارالخلافہ تھا اور دریائے چنبل کے کنارے آباد تھا۔ یہیں حضرت عبداللہ چنگال اور شیخ کمال الدین مالوی کے مزارات ہیں۔ حوالہ کے لیے: ’’تاریخ فرشتہ‘‘ بک ٹاک، چہارم:۱۳۹۔ وکی پیڈیا عنوان راجہ بھوج۔ دحار۔ صفحہ ۳، ۴۔ نواب شاہجہاں بیگم شیریں: تاج الاقبال، تاریخ ریاست بھوپال بحوالہ: اردو دائرۃ المعارف اسلامیہ، پنجاب یونیورسٹی لاہور، جلد:۵، صفحہ ۳۴۴۔ یہ حوالہ محض بیگم بھوپال کی لکھی ہوئی کتاب کے لیے لکھا گیا ہے جس کی نشاندہی ڈاکٹر عبدالقدیر نے اپنے مضمون شائع شدہ جنگ کراچی میں کی تھی۔
سوانح الحرمین کے حوالہ سے ’’سیرت سرور کونین‘‘ جلد دہم صفحہ۴۹۶ اور ’’سوانح الحرمین‘‘ ہی کے حوالہ سے حضرت علامہ عبدالحلیم حنفی لکھنوی (متوفی1285ھ/ 1868ء) نے ’’نظم الدرر فی سلک شق القمر‘‘ کے صفحہ ۶۹ پر مدھیہ پردیش یعنی وسط ہندوستان میں مالوہ کی ریاست (بھوپال) کے راجہ کے اسلام لانےا ور اسلامی نام عبداللہ رکھنے کا ذکر کیا ہے۔
جنوبی ہند کی ریاست پلاوا (مالا بار) کے راجہ چیرومان پیرومل نے چودھویں شب 617ء بمطابق 8 نبوی، ’’معجزہ شق القمر‘‘ اپنے محل کے اندر تالاب میں نہاتے ہوئے تالاب کے پانی میں دیکھا کہ چاند کے دو ٹکڑے ہوگئے۔ ہندو مت اور بدھ مت میں چودھویں شب (بدر کامل کی رات) ’’پویاڈے‘‘ مناتے ہیں۔ یہ فقیر نسیم صدیقی کی تحقیق اور مشاہدہ بھی ہے۔ اس ضمن میں کولمبو، کیرالہ اور مدراس کے اہل علم نے راہنمائی کی۔
کیرالہ کے حضرت علامہ محمد فاضل قادری مدظلہ العالی نے خصوصاً راہنمائی فرمائی۔ راجہ چیرومان پیرومل کا اسلامی نام رسول اکرمﷺ نے عبدالرحمٰن رکھا تھا۔ انھوں نے کرناٹکہ کے صدر مقام منگلور کے قریب ’’کڈنگلور‘‘ اور ’’کاسرگوڈ‘‘ پر (بیرون عرب) دنیا کی پہلی مسجد 629ء/ 8ھجری میں قائم کی۔ پھر اس کے بعد اسی مقام کے قریب ہند کی دوسری مسجد ’’مالک بن دینار‘‘ قائم ہوئی۔
یہ راجہ چیرومان پہلے مسلمان ہوگئے تھے۔ پھر نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کی بارگاہ عظمت پناہ میں حاضر ہوئے تھے، صحابیت کا شرف حاصل ہوا۔ اپنی ریاست واپسی کے لیے آقائے دو جہاں علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حکم سے ہندوستان آ رہے تھے کہ اثنائے راہ ’’یمن‘‘ کی بندرگاہ (اب ’’عمّان‘‘ کی بندرگاہ) ’’ظفار یا ضفار‘‘ کے مقام پر وصال بہ کمال فرمایا اور یہیں تدفین عمل میں آئی، اب بھی راجہ عبدالرحمان کا مزار پر انوار ’’ظفار/ ضفار‘‘ میں موجود اور مرجع خلائق بھی ہے۔ مالابار (جنوبی ہند کے پلاوا شاہی خاندان) کے تمام حکمران اپنے راجہ (چیرومان) کے مسلمان ہونے کے بعد اس کے انتظار میں ’’راجہ عبدالرحمٰن‘‘ کے نائب السلطنت کے منصب کا حلف 1947ء تقسیم ہند تک اُٹھاتے رہے ہیں۔ اور یہ اقرار لازمی کرتے تھے کہ ہم راجہ عبدالرحمٰن کے نائب ہیں، راجہ صاحب کے عرب سے واپس آتے ہی ہم حکمرانی ان کے سپرد کردیں گے۔ رانا سرور خاں صاحب نے ’’مذاہب عالم‘‘ کے حوالہ سے ’’سیرت سرور کونین‘‘ کی جلد دہم صفحہ ۴۹۳ پر لکھا ہے۔ مزید ’’کیرالہ میگزین 1948ء‘‘ اور ’’تاریخ ازبکستان‘‘ مؤلف سیّد کمال الدین احمد سے بھی رجوع کیا جاسکتا ہے۔
۲ محمد قاسم فرشتہ مؤرخ، تاریخ فرشتہ مترجم عبدالحئی خواجہ، ڈاکٹر عبدالرحمٰن دوست ایسوسی ایٹس پبلشرز فقیر راقم الحروف کے زیر استعمال ’’ضیائی ریسرچ لائبریری‘‘ میں ’’تاریخ فرشتہ‘‘ کے دو نسخے موجود ہیں، ایک نسخہ دو جلدوں میں شیخ غلام علی اینڈ سنز کا شائع کردہ ہے جبکہ دوسرا نسخہ بک ٹاک لاہور نے چار جلدوں میں شائع کیا ہوا ہے۔ دونوں نسخوں میں اجمالاً واقعہ کا ذکر ہے۔ قیاس ہے کہ جدید نسخوں میں تحریف کی گئی ہے۔ ہم نے جو تفصیل رقم کی ہے وہ محترم فاضل جلیل حضرت حامد علی علیمی زید مجدہٗ نے اپنے تحقیقی و علمی مواد میں پیش کی ہے، یہ تفصیل، علامہ عبدالحلیم بن امین اللہ لکھنوی کی تصنیف ’’نظم الدرر فی سلک شق القمر‘‘ کے ترجمہ و تخریج و حواشی کے تحت درج کی ہے۔ البتہ تاریخ فرشتہ جلد چہارم (بک ٹاک) کے صفحہ ۵۶۲ پر راجہ سراندیپ کے مشرف بہ اسلام ہونے کا ذکر ہے۔
۱ واضح رہے کہ ہم کسی شخصیت کو نامزد کرکے تکفیر نہیں کر رہے بلکہ اجماع اُمت بیان کر رہے ہیں کہ نص قرآنی کا انکار کرنے والا ’’ کافر‘‘ ہوتا ہے۔
۱ امام شیخ محمد طاہر بن عاشور (المتوفی1393ھ/ 1973ء)، تفسیر التحریر والتنویر، جز۲۷: ۱۶۸/ ۱۷۰، مطبوعہ تیونس۔
۲ المرجع السابق۔
نابغۂ فلسطین علامہ محمد یوسف بن اسمٰعیل نبہانی، حجۃ اللہ علی العالمین فی معجزات سیّد المرسلین ص۶۵۵۔
۱ سلیمان ندوی، خطبات مدراس۔
سیّد محمد قاسم محمود، اسلامی انسائیکلوپیڈیا جلد دوم صفحہ۱۰۶۸، مطبوعہ لاہور۔
خالد عرفان، نعتیہ مجموعہ ’’الہام‘‘۔
جس میں ’’نیل آرمسٹرانگ‘‘ بھی شامل تھا۔ جو قاہرہ، مصر میں مسلمان ہوگیا تھا، کہ اُس نے چاند پر ایک آواز سنی تھی ’’اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدً الرَّسُوْلَ اللہِ‘‘... اور ’’اَللہُ اَکْبَر‘‘ اور جب یہی آواز قاہرہ میں مسجد سے ہونے والی اذان میں سنی، تو وہ مسلمان ہوگیا۔
حضرت سیّدنامحمد شریف المدنی مدینۃ المنورہ کے مشائخ میں تھے، ۴۰۰ سال قبل رسول اکرمﷺ نے خواب میں حکم فرمایا کہ جنوبی ہند جاؤ، حضرت سیّدنا محمد شریف المدنی سمندر کے قریب آئے اور اپنا ’’مصلی‘‘ پانی میں ڈال کر بیٹھ گئے، اور پھر منگلور انڈیا پہنچ گئے۔ حضرت کے فیوضات و کرامات کا چرچا زبان زدِ عام ہے۔ آپ کے عرس میں دس لاکھ افراد شریک ہوتے ہیں، اجمیر شریف کے بعد ہندوستان کا سب سے بڑا عرس کا اجتماع ہوتا ہے۔ منگلور کے قریب ’’اُللّال شریف‘‘ (Ullal)، میں حضرت شریف المدنی کا مزار پُر انوار ہے۔ بحر عرب کے کنارے جنوبی ہند کے مشرقی گھاٹ (Eastern Ghots) مزار شریف سے متصل پانی کا کنواں ہے، جس کا پانی شفاف اور میٹھا ہے، بلکہ مختلف امراض میں باعث شفا بھی ہے، گونگے اور بہرے آتے ہیں شفایاب ہوکر واپس لوٹتے ہیں۔ دور دراز سے معتقدین بکریاں (دیگر حلال مویشی) لنگر شریف کے لیے کسی محافظ و راہبر کے بغیر بھیجتے ہیں، اور چوری اور نقصان سے محفوظ رہتے ہوئے بکرے، بکریاں، مزار شریف پہنچ جاتے ہیں۔ راقم الحروف کے کرم فرما دوست فاضل جلیل حضرت علامہ محمد فاضل اختری مدظلہ العالی (جو کیرالہ میں مقیم ہیں) نے فرمایا، کہ حضرت محمد قمر رضا یہاں عرس کے اجتماع میں حاضر ہوئے اور خطاب بھی فرمایا تھا۔ حضرت محمد شریف المدنی کا عرس مبارک پانچ سال میں ایک مرتبہ منعقد ہوتا ہے۔
۱ یہ بزرگ، اعلیٰ حضرت قدس سرہٗ کی خواہر نسبتی کے نبیرہ ہیں۔
محترم شہید اللہ خان صاحب مدظلہ العالی، برادر طریقت حضرت نعیم اللہ نوری مدظلہ العالی کے والد محترم ہیں۔ شہید اللہ صاحب اور سعید اللہ صاحب دونوں برادران، ڈاکٹر قمر رضا کے چچا (والد کی جانب سے) اور ماموں (والدہ کی جانب سے) ہوتے ہیں۔
حضرت تحسین رضا بن حضرت مولاناحسنین رضا بن استاذ زمن مولانا حسن رضا بن مولانا نقی علی خاں (والد گرامی اعلیٰ حضرت) جامعہ نوریہ رضویہ باقر گنج بریلی شریف میں محدث کے منصب پر فائز تھے۔ علامہ تحسین رضا کی ولادت 14 شعبان 1349ھ/ 5 جنوری 1930ء یکشنبہ ہوئی، وصال بعمر 78سال 1427ھ/ 2007ء میں ہوا۔ آپ علمی حلقوں میں سیّد الاتقیا اور صدر العلماء سے معروف تھے۔
عفت مآب، نہایت صالحہ، زاہدہ و عابدہ خاتون تھی۔ امام المجاہدین و امیر المہاجرین سیّد السادات، منبع البرکات حضرت سیّدنا عبداللہ شاہ غازی بابا (جن کی شہادت 89ھ میں ہوئی) کے مزار پر انوار کے سایۂ بابرکت و احاطہ رحمت میں زوجہ حضرت شوکت حسن خان ابدی نیند آرام فرما رہی ہیں۔
۱ بشکریہ :ماہنامہ اعلیٰ حضرت، شمارہ 8، جلد 52، اگست 2012ء ، رمضان 1433ھ، صفحہ ۵۷۔
(تجلیاتِ قمر،انجمن ضیاء طیبہ)