حضرت مولانا فضل حق رام پوری رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب: اسم گرامی: حضرت علامہ مولانا فضلِ حق رام پوری۔لقب: فخرالعلماء۔سلسلہ نسب اس طرح ہے:حضرت علامہ مولانا فضلِ حق رام پوری بن مولانا حافظ عبد الحق علیہما الرحمہ۔آپ کے والد گرامی مولانا حافظ عبدالحق باعمل حافظ قرآن تھے۔(تذکرہ کاملان رام پور:317)
تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت 1278ھ مطابق 1861ءکو’’رام پور‘‘(انڈیا) میں ہوئی۔ یہ حُسن اتفاق ہی تو تھاکہ ایک فضلِ حق (خیر آبادی) 1278ھ میں دُنیا سےاُٹھا، اسی سن میں دوسرا فضل حق(صاحبِ ترجمہ) رونق افزاہوا۔گویا اللہ تعالیٰ نےمرحوم کاعلمی وفکری جانشین سالِ رحلت پیدا کردیا۔(تذکرہ علمائے اہل سنت:/312تذکرہ کاملان رام پور:317)
تحصیلِ علم: حفظ قرآن مجید کی ابتداء اپنے والد ماجد سےکی۔والد گرامی بسلسلہ تدریس نوا کھالی بنگال چلے گئےتو شہر کےدوسرے حفاظ سےدس سال کی عمر میں تکمیل فرمائی۔فارسی حکیم احسن ساکن محلہ کھاری کنواں رام پور سے پڑھی۔صرف ونحو اور منطق کی ابتدائی کتب مولانا عبد الرحمن قندھاروی اور مولانا عبدالعزیز سہارنپوی سےپڑھیں۔فقہ شرح وقایہ تک اور ملا حسن،مولانا عبدالکریم رام پوری سےبھیکن پور میں پڑھیں۔علی گڑھ میں استاذ الکل مولانا لطف اللہ علی گڑھیسےمعقول ومنقول اور ریاضی کی تکمیل کی۔شرح اشارات،حدیث، اور تفسیر حضرت مولانا ہدایت علی بریلوی (تلمیذ علامہ مولانا فضل حق خیرآبادی) سےپڑھ کر بیس سال کی عمر میں سندِ فراغت حاصل کی۔
بیعت وخلافت : سلسلہ عالیہ چشتیہ نظامیہ میں غوث الاسلام،فاتحِ قادیانیت،حضرت علامہ سید پیر مہر علی شاہ گولڑوی سےشرفِ بیعت رکھتے تھے۔مولانا فیض احمد فیض لکھتے ہیں: مولانا فضلِ حق رام پوری حضرت قبلۂ عالم قدس سرہ کی خدمت میں بیعت کےلئے عریضہ لکھاتھا۔جس کےجواب میں آپ نےایک رومالروانہ فرماکر اورادو وظائف کی اجازت بخشی اور ارشاد فرمایا کہ آپ کی یہی بیعت کافی ہے۔ زیادہ سفر کی تکلیف نہ فرمائیں۔ مولانا موصوف پکے وحدت الجودی تھے اورحضرت کی تصنیف ’’تحقیق الحق‘‘ سےبے حد متأثر تھے۔
مولانا فیض احمد فیض مزید لکھتےہیں: ہندوستان کے مشہور مفتی اور عالم ریاست رام پور میں مدرسہ عالیہ رام پور کے پرنسپل مولانا فضلِ حق را م پورینےایک سال اجمیرشریف میں عرس کےموقع پر حضرت بابوجی سےحضرت قبلہ ٔ عالم قدسر سرہ کی تصنیف کے متعلق ذکر کرتےہوئے فرمایا تھا کہ یوں تو حضرت کےکمالات بہت بیان ہوتےہیں۔ لیکن میں تو اس دماغ کا شیدائی ہوں جس سے ’’سیف چشتیائی‘‘ ظہور میں آئی ہے۔(مہر منیر:251)
سیرت وخصائص: استاذالعلماء،مرجع الفضلاء،فخر العلماء،جامع المعقول والمنقول،مجمع البحرین،محبوب الطرفین حضرت علامہ مولانا فضل حق رام پوری۔آپ اپنے وقت کےفاضلِ متبحر اور عالم اکمل تھے۔آپ کی شہرت آپ کی زندگی میں ہی اطرافِ عالم میں پھیل گئی تھی۔آپ ایک عدیم النظیر عالم،بلند پایہ مدرس،عظیم الشان مصنف،اور جلیل القدر صوفی تھے۔دین ومذہب کی محبت رگ و پے میں جاری تھی۔خوش خلق، خوش مزاج،ملنسار اور مہمان نواز تھے۔آپ کی علمی فضیلت فضلاء دہر میں مسلم تھی۔سلسلہ خیر آبادی کی ایک روشن کڑی تھے۔کثیر الفیض علماء ہند میں فردِ وحید تھے۔آپ سے ایک جہاں فیض یاب ہوا۔
فراغت کے بعد ساری زندگی درس وتدریس، اور تصنیف وتالیف میں مصروف رہے۔ابتداء ً مدرسہ طالبیہ بریلی میں علوم دینیہ کی تدریس شروع کی اور صبح تاشام تیس،بتیس اسباق مختلف علوم وفنون کےپڑھاتے۔نواب عرش آشیاں مشتاق علی خان کےعہد 1304ھ میں مدرسہ عالیہ کےنظام میں توسیع ہوئی تو مولانا ہدایت علی بریلوی اول مدرس اور آپ مدرس سوم مقرر ہوئے۔مولوی عبدالجبار وزیر ریاست بھوپال کی درخواست پر مدرسہ سلیمانیہ بھوپال میں ایک سال صدر مدرس رہے۔طلبہ کی ایک کثیر جماعت بھی آپ کےساتھ بھوپال گئی۔بھوپال کےمشہور عالم حسین بن محسن یمنی سے تبرکاً اجازت حدیث حاصل کی۔شیخ نےآپ کی سند پر یہ الفاظ لکھے: ’’وھو فی الحقیقۃ بحر نبار وحباب ذخار کما یعلم ذلک من حالہ ومقالہ‘‘۔پھر سال کےآخر میں واپس رام پور آگئے۔
جب شمس العلماء حضرت علامہ مولانا عبدالحق خیرآبادی مدرسہ عالیہ رام پور کےصدر مدرس مقرر ہوئےتوآپ نےمدرس ہونے کےباوجود ان سے علمی استفادہ کیا۔شرح سلم،شمس بازغہ،حواشی زاہدیہ علیٰ شرح المواقف،شرح سلم قاضی گوپاموی اور شرح تجرید پڑھی اور علمی ذوق کے تسکین اور استفادے کاحق ادا کردیا۔مولانا خیر آبادی اپنے تلامذہ میں سےآپ کی بہت تعریف اور قدر کرتےتھے۔مولانا عبدالحق خیر آبادی کے مدرسہ عالیہ سےجانے کےبعد آپ اول مدرس ہوئے۔1909ء میں حکومت کی درخواست پر ایک سال مدرسہ عالیہ کلکتہ میں اول مدرس کےمنصب پر فائز رہے۔
سالانہ تعطیلات میں جب رام پور آئے تو نواب حامد علی خان باصرار روک لیا۔چنانچہ مصطفیٰ علی سیکرٹری تعلیم اور نجم الحسن ڈائریکٹر تعلیم کی کوشش سے مدرسہ عالیہ رام پور کےدوبارہ صدرالمدرسین منتخب ہوئے۔طلبہ کو پڑھانے میں بڑی محنت کرتے۔مدرسہ کے اوقات کے علاوہ رات گیارہ بجے تک پڑھاتے اور طریقۂ تعلیم ایسا تھا کہ غبی سے غبی طالب علم کو بھی مطالب ذہن نشین ہوجاتے۔ہندو پاک کے علاوہ افغانستان،ایران، اور خراسان تک طلبہ شریک ِدرس ہوتے۔بعض تلامذہ کےاسماء گرامی: امام المناطقہ مولانا دین محمد بدھوی۔شیخ الجامعہ مولانا غلام محمد گھوٹوی۔مولانا غلام جیلانی ہزاروی۔مولانا مفتی عطاء محمد ضلع چکوال۔مولانا عبدالعزیز۔مولانا صدیق قندھاروی۔مولانا سیف اللہ ہراتی۔مولانا محمد مسلم جون پوری۔مولانا عبدالکریم لکھنوی وغیرہ۔آپ کا ہر شاگرد علم کی دنیا میں نیر تاباں تھا۔ہر ایک سےایک جہاں منور وفیض یاب ہوا۔(مہر انور:720)
تصانیف: آپ نے تدریسی مصروفیات کے باوجود تصنیف وتالیف کی طرف بھی خاصی توجہ دی اور ایک بڑا علمی ذخیرہ یادگار چھوڑا۔۔الظفر الحامدی۔شرح میر ایسا غوجی۔حاشیہ حمد اللہ۔ حاشیہ میر زاہد۔حاشیہ تلویح۔حاشیہ دروس البلاغہ۔ افضل التحقیقات فی مسئلۃ الصفات۔یادگار ہیں۔ آپ کے فرزند ارجمند حضرت مولانا افضال الحق رام پوری بڑےفاضل عالم اور آپ کےبعد مدرسہ عالیہ رام پور کےپرنسپل ہوئے۔حضرت مجدد گولڑی کےارادت مندوں میں سےتھے۔(ایضا:721)
تاریخِ وصال: آپ کا وصال 26/ذالقعدہ 1358ھ مطابق 7/جنوری 1940ء بروز اتوارکو ہوا۔محلہ مردان خان رام پور کے قبرستان میں مدرسہ مطلع العلوم کے نزدیک دفن ہوئے۔(ایضا:721)
ماخذ ومراجع: تذکرہ علمائے اہل سنت۔ تذکرہ کاملان رام پور۔مہر منیر۔مہر انور۔تذکرہ علمائے ہند۔