حضرت علامہ غلام ترنّم امرتسری رحمۃ اللہ علیہ
حضرت مولانا غلام محمد ترنم امر تسری کے ایک غریب کشمیری گھرانے میں ۱۹۰۰ء میں پیدا ہوئے، آپ کے والد کا نام عبد العزیزی تھا، آپ نے ابتدائی تعلیم کے بعد غربت وافلاس کی وجہ سے شال اور قالین بانی کافن سیکھا، پھر قالینوں کے ڈیزائنر ہوگئے، تحصیل علم کی وجہ سے اپنے استاذ حکیم فریزو الدین فیروز طفرائی کی خدمت میں پہونچا دیا، حکیم طغرائی کی توجہ سے منشی فاضل، ادیب فاضل کےامتحان میں کامیاب ہوئے، عربی کی ابتدائی کتابیں پروفیسر مولانا عبد الرحیم سے مطالعہ کیں، فقہ کی تحصیل فقیہہ عصر مولانا لمشی عبدالصمد خاں کشمیری مرحوم اور مشہور عربی ادیب،نامور عالم و محقق حضرت علامہ محمد عالم آسی امر تسری علیہما الرحمۃ سے کی اور یونیورسٹی کےمولوی فاضل کے امتحان میں امتیازی نمبر حاصل کیے، حکیم حاجی محمد علی، حکیم محبوب عالم اور حکیم فتح چند سے طب کے اسباق پڑھے، اور لاہور کے مشہور طبیب شہزادہ غلام محمد سے اصول طب سیکھے۔
تحصیل علم کے بعد اولاً مسلم ہائی اسکول شریف پورہ میں اسلامیات کے مدرس ہوئے، فارغ اوقات میں طبابت کرتے تھے، آپ ساس اور در و مندول رکھتے تھے، ملی اور ملکی مائل سے خصوصی شغف تھا، نوجوانوں کی ترقی و تعلیم کے لیے ۱۹۳۱ء میں سکتری باغ امر تسر میں درختوں کے سایہ میں جامعہ اسلامیہ کی بنیاد رکھی اور خود پڑھانے میں مصروف رہے، بعد میں یہ مدرسہ کٹرہ رام گڑھیاں کوچہ مست کھوہ میں منتقل ہوگیا، تقسیم ملک کے وقت مدرسہ ہال بازار میں تھا،
آپ کو تقریر پوری قدرت حاصل تھی، امر تسر کے عوم و خواص آپ کے مواعظ حسنہ سننے کے لیے بے چین رہتے تھے، آپ بلامعاوضہ امر تسر کی مساجد میں ازخودجاکر تقریریں کرتے،آپ کی سحر بیانی کی وجہ سے امر تسر ی تنگ، بوسیدہ مساجد، جامع مسجد میں تبدیل ہوگئیں، جامع مسجد حنفیہ رانی بازار شریف پورہ اور جامع کوچہ قاصداں کو آپ کی تقریروں کے نتیجہ میں وسعت و رونق ملی۔
تقسیم ملک کے بعد آپ لاہور میں جابسے، احباب و معتقدین کےامراء سے سوول سکرٹریٹ کی تنگ مسجد میں خطابت کی ذمہ داری قبول کرلی، اس مسجد میں لوگ دور دور سے آپ کی تقریری سننے کے لیے آتے اور گرمیوں میں وہ آپ کی تمازت سے پیرشان ہوتے، ایک دفعہ سردار عبد الرب نشتر جو اس وقت گورنر تھے جمعہ کے لیے پہونچ گئے، اُنہیں جہاں جگہ ملی وہاں دھوپ کی تمازت تیز تھی، آپ نے موقع فائدہ اٹھارے ہوئے اُن کی رگ حمیت کو چھیڑدیا، اُنہوں نے دفتر جاکر وسعت کے لیے بیس ۲۰ہزار کی منظوری دیدی،۔۔۔۔۔ اسی طرح چودھری منظور احمد نے اُسی مسجد میں آپ کی تقریر سے متأثر ہوکر دس ہزار کی چیک آپ کے ذاتی نام کاٹ دیا، اُن دنوں اگر چہ آپ نہایت پریشان ومفلس تھے مگر اس رقم کو مسجد میں صرف کردیا، اور ۵ہزار مزید چودھری صاحب سے حاصل کیے، آپ کو خود بھی اپنی جادو بینای کا احساس تھا، آپ کا ایک شعر ہے ؎
لب پہ ترنم کے جو اُبھرا |
رُوح میں ڈوب گیا وہ ترانہ |
ظفر علی خاں کا یہ شعر آپ کے بارے میں کافی مشہور ہے ؎
ترنم چاند ہے اس شہر میں علم اور حکمت
درخشاں اس کے بالے ہیں مسلمانان امر تسر
آپ حضرت امیر ملت قطب عالم پیر سید جماعت علی شاہ محدث علی پوری کے مرید اور اعلیٰ حضرت قطب المشائخ شاہ علی حسین اشرفی میاں سرکار کچھوچھہ سے بھی فیضیاب تھے۔
آپ ڈھائی تین سال مرض ذیابیطس میں مبتلا ہوگئے تھے، جگر مبتورم اور دل بڑھ گیا تھا، اسی حال میں بروز جمعہ ۱۷؍محرم الحرام ۱۳۷۹ھ مطابق ۲۴؍جولائی ۱۹۹۵ھ میں آخرت کا سفر اختیار کیا علامہ ابو البرکات ناظم حزب الاحناف لاہور نے نماز جنازہ کی امامت کی، آپ کی آخری آرام گاہ گورستان میانی بہاول پور روڈ پر (برلب سڑک) بالمقابل حضرت مہر محمد نقشبندی ہے، آپ کے عقیدت کیش اور مشہور اہل علم و قلم حکیم مولوی محمد موسیٰ صاحب امر تسری لاہوری نے ‘‘ترنم داخل خلد’’ اور ‘‘فاضل حکمت’’ تاریخیں کہیں۔
آپ کو مسلک اہل سنّت کی ترویجو تبلیغ سے جو والہانہ شغف تھا وہ آپ اپنی م ثال تھا، علمائے اہل سنت کی دینی و سیاسی تنظیم مرکزی جمعیۃ علمائے پاکستان کے نائب صدر کی حیثیت سے جو خدمات آپ نے انجام دی ہیں وہ سدا یادرہیں گی۔ (مولانا غلام محمد ترنم)