نعمان ثانی حضرت علامہ مخدوم عبدالواحد سیو ہانی رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب: اسم گرامی: علامہ مخدوم عبدا لواحد ۔لقب:علمی فقاہت وثقاہت کی بنیاد پر’’نعمان ثانی‘‘اور علاقہ سیہون شریف کی نسبت سے’’سیوہانی/سیستانی‘‘اور میاں محمد احسان کےنام سے بھی معروف ہیں۔سلسلہ نسب اس طرح ہے: علامہ مخدوم عبدالواحدسیوہانی بن شیخ الاسلام حضرت علامہ مخدوم دین محمد صدیقی بن مفتی اعظم سندھ مخدوم عبدالواحد کبیر صدیقی بن عبدالرحمن بن مولانا محمود السہروردی بن مولانا شیخ عیسیٰ ثانی بن مخدوم حسن قاری بن شیخ شہراللہ رمضان بن مسیح الاولیاء شیخ عیسیٰ جنداللہ بن شیخ قاسم بن شیخ الاسلام یوسف سندھی بن شیخ رکن الدین شیخ معروف پاٹائی بن شیخ شہاب الدین سندھی بن مسیح الاولیاء شیخ عیسیٰ عین المعانی (یہ پاٹ شہر کےبانی تھے) بن نورالدین بن شیخ سراج الدین بن شیخ وحید الدین بن شیخ مسعود بن رضی الدین بن شیخ قاسم بن محمد معرف بہ عمادالدین بن شیخ ابوحفص عمر بن شہاب الدین سہروردی ،جو خلیفۂ اول سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی اولاد میں سےتھے۔رحمھم اللہ تعالیٰ ۔(فقہاء سندھ کی علمی خدمات:164)
مخدوم صاحب علیہ الرحمہ کا خاندان ایک علمی وروحانی خاندان تھا۔آپ کےوالد گرامی اور جد امجداپنے وقت کےعظیم عالم اور داعیِ دینِ مصطفیٰﷺ تھے۔سندھ کےمشہور صوفی بزرگ حضرت شاہ عبد اللطیف بھٹائی علیہ الرحمہ سےگہرے مراسم اوردوستانہ تعلقات تھے۔اس وقت کاحاکمِ سندھ نورمحمد کلہوڑوخاص معتقدین میں سے تھا۔(سندھ کے صوفیاء نقشبند:482)۔قاضی دین محمد صدیقی علیہ الرحمہ کلہوڑہ دورِ حکومت میں وزیر مذہبی امورتھے۔(فقہائے سندھ کی علمی خدمات:164)
تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت 1150ھ،مطابق 1738ء کوسیہون شریف سندھ میں ہوئی۔
تحصیلِ علم: جس وقت حضرت مخدوم کی ولادت اس وقت سیہون شریف علم وفن کاعظیم مرکزتھا،دور درازسےطالبان ِ علم اپنی علمی پیاس بجھاتےتھے۔بڑے بڑے علماء وفضلاء اس شہر میں جلوہ گر تھے،اور خود آپ کا خاندان بھی علماء وصوفیاء سےبھراہواتھا۔آپ کےوالدِگرامی کاعلمی دنیا میں ایک مقام تھا۔ایسےپرنور ماحول اور حضرت لعل شہباز قلندر علیہ الرحمہ کی درگاہ میںاپنےوالدِ گرامی کی زیرنگرانی ابتداء ہوئی اور انہیں سےتکمیل فرمائی۔ شیخ الاسلام مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھوی علیہ الرحمہ کےوصال کےوقت آپ نوجوان تھے،اورآپ کی عمر مبارک اس وقت صرف 25برس تھی۔ان کےبعد فن تحریر اور فقہ میں اپنی مثال آپ تھے۔
بیعت وخلافت: تحصیل علم کے بعد وقت کے نامو ر شیخ ِطریقت عارف باللہ حضرت خواجہ صفی اللہ مجددی قند ھاری رحمتہ اللہ علیہ کے دست اقدس پر سلسلہ عالیہ نقشبندیہ میں بیعت ہوئے ۔ (انوار علمائے اہل سنت سندھ)۔آپ کی بیعت واقعہ بھی بڑا عجیب ہےکہ جب حضرت خواجہ صفی اللہ مجددی حج کے ارادے سے سیہون شریف میں منزل انداز ہوئے تو خواب میں امیر المومنین حضرت سید نا ابو بکر صدیق کی زیارت سے مشرف ہوئے ۔ آپ نے فرمایا: ’’صفی اللہ ! میرے بیٹے عبدالواحد کو اپنے سلسلہ میں داخل فرمائیں۔ جب صبح ہوئی خواجہ صاحب نے مخدوم صاحب سے ملاقات کر کے انہیں خواب سنایا اور سلسلہ عالیہ نقشبندیہ میں داخل کیا‘‘۔(ایضاً)
سیرت وخصائص: فقیہ اعظم سندھ،مفتیِ اعظم سندھ،جامع العلوم،بحرالعلوم،عارف باللہ ،شیخ الاسلام،نعمانِ ثانی حضرت علامہ مولانا عبدالواحد سیوہانی رحمۃ اللہ علیہ۔آپ سندھ کےنامور عالم،اور مشہورفقیہ،محقق ومدقق،مفتی ومتقی،صوفیِ باصفا اور صاحبِ کشف وکرامت بزرگ تھے۔آپ خاندانِ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کےروشن چراغ تھے۔تمام علوم میں باالعموم اور فقہ حنفی میں باالخصوص بلند مقام حاصل تھا ۔ سینکڑ وں مسائل آپ کی تحقیقات کا انمول خزانہ ہیں ۔ آپ اپنے وقت میں اہل سنت و جماعت کے امام اور مرجع علماء تھے۔آپ کی تحریر ات نادرہ اورنایاب فتاویٰ کو آپ کے شاگرد ارشد مولانا محمد افضل صاحب نے جمع کیا اس مجموعہ کا نام ’’ جمع المسائل علی حسب النوازل ‘‘ تجویز ہوا جو کہ تین جلدوں پر مشتمل ہے اور انہیں ’’ بیا ض واحدی ‘‘ کے نام سے شہرت حاصل ہے ۔ ( تذکرۃمشاہیر سندھ )
مخدوم صاحب علیہ الرحمہ صحیح العقیدہ سنی عالم دین تھے۔ہر قسم کےگمراہ اور باطل فرقوں کےنظریات کا شدت سے رد فرماتےتھے۔فتنہ ٔ وہابیہ دجالیہ اس وقت ہندوستان میں نیا نیا وارد ہواتھا،اور سندھ میں رافضی بھی تھے،آپ نےاپنے فتاویٰ میں ان دونوں کا دلائل ِ شرعیہ سےرد فرمایا۔اسی طرح آپ علیہ الرحمہ عاشقِ صادق،اور خوش مزاج شخصیت کے حامل تھے۔میلاد شریف میں خوش الحانی کےبارے میں کسی نےسوال کیا کہ آیا اس طرح خوش الحانی میں مولود شریف پڑھناجائز ہے یا نہیں؟۔
اس کےجواب میں آپ نےارشاد فرمایا:’’ الظاہر ان انشاء المولود بالاصوات المطرب من مستحسنات اہل المحبۃ والالتذاذ بسماع اسمہ الشریف من علامۃ المحبۃ ۔قال فی مواہب اللدنیہ محبتہ ﷺ ان یتلذذ بذکرہ الشریف،الخ ‘‘۔(سندھ کے صوفیاء نقشبند:484)
یعنی آپ کے عقیدہ اور مسلک میں میلاد شریف کاخوش الحانی کےساتھ پڑھنا،اور سننا نہ صرف جائز بلکہ مستحسن عمل تھا۔اس پر دلیل آپ نےعشق کےرنگ میں ڈوب کر دی ہےکہ محبت کا تقاضا یہ ہے کہ محبوب کے ذکر سےانسان لطف اندوز ہو، لہذا ایک عاشق کےسامنے اس کےمحبوب آقاﷺ کا جب ذکر کیا جائےگا،اور وہ بھی لحن داؤدی اور اچھی آواز کےساتھ تو لطف ولذت دوگنی ہوجائیگی اور کیف وسرور دوبالا ہوجائے گا،اور عشاق کاایمان تازہ ہوجائےگا۔
قاضی محمد شکارپوری آپ کاہم عصراور متعصب وہابی تھا،اولیاء اللہ کی دشمنی تو ابلیس کی طرف سے انہیں ورثے میں ملی ہے۔مزارات اولیاء کی حاضری کو شرک وبدعت سےکم کسی درجےپر راضی نہ تھا،ادھر مخدوم عبدالواحد علیہ الرحمہ بڑےاحتشام وعقیدت کےساتھ اولیاء اللہ کےمزارات کی حاضری کےلئے سفر بھی کرتے تھے۔اس وقت سندھ میں علمی وروحانی اعتبار سے ان پر کسی کوفوقیت حاصل نہ تھی،قاضی شکار پوری نےآپ کوخط لکھا،جس میں بطور طعن اس لقب سے یاد کیا:’’عابدالاوثان،میاں محمد احسان‘‘یعنی بتوں کےپجاری میاں محمد احسان۔(اس بدباطن نےبتوں اوراولیاء اللہ میں ،اسی طرح عبادت اور زیارت میں فرق نہیں کیا۔تونسوی غفرلہ)۔آپ علیہ الرحمہ نےاس کےجواب میں سندھی میں شعر لکھ کرارسال کیا۔شعر یہ تھا۔
؏: نہ تو سرکی پیتی،نہ تو آئی چت۔۔۔۔۔۔۔۔۔کھیں پیوانھن ساں،جنہیں پیتا مت
یعنی تم نے شراب معرفت کاایک قطرہ تک چکھا نہیں،اور تم چلے ہو اس کامقابلہ کرنےکےلئےجس نےشرابِ معرفت کےمٹکےکےمٹکے پئے ہوئے ہیں۔تمہیں اس کی لذت ہی نہیں معلوم،تو پھر اعتراض کیوں کرتےہو۔(ایضا:491)
آپ کوتصنیف وتحریر میں خاص ملکہ حاصل تھا۔آپ نےمسائل اس انداز میں بیان کیے ہیں کہ عام آدمی بھی آسانی سے سمجھ سکتا ہے۔آپ نے مختلف موضوعات پر عربی میں 22 مفید کتب تصنیف فرمائی ہیں۔آپ کی دینی خدمات اور علمی ثقاہت کےپیش نظر مختلف جامعات نےپی۔ایچ۔ڈی کی ڈگریاں جاری کی ہیں۔تین اشخاص آپ پر ڈاکٹریٹ کرچکے ہیں۔
تاریخِ وصال: آپ کا وصال 14/رمضان المبارک 1224ھ،مطابق اکتوبر/1809ء کوہوا۔درگاہ حضرت لعل شہبازسےجنوب کی سیہون شریف کی محمد بن قاسم عید گاہ کےقریب قبرستان میں دفن کیا گیا۔
ماخذومراجع: انوار علمائے اہل سنت سندھ۔فقہائے سندھ کی علمی خدمات۔سندھ کےصوفیاء نقشبند۔