استاذ العلماء حضرت علامہ مولانا عبدالصمد میتلو رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
استاد العلماء حضرت مولانا علامہ عبدالصمد بن عبداللہ میتلو کی ولادت تحصیل ڈوکری ( ضلع لاڑکانہ ) کے گوٹھ ’’بڈو واہن ‘‘ میں تقریبا ۱۹۱۸ء میں ہوئی۔
تعلیم وتربیت :
اپنے آبائی گوٹھ میں حکیم حاذق اور عالم دین مولانا اللہ بخش پنجابی کے پاس قرآن مجید ناظرہ پڑھا ۔ اس کے بعد قریب میں گوٹھ ’’چھتوواہن ‘‘میں پرائمری کی تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد مدرسہ شمس العلوم گوٹھ خیر محمد آریجہ میں شیخ الادب حضرت مولانا تاج محمد کھوکھر کی خدمت میں رہ کر درس نظامی کی تکمیل کی اور فارغ التحصیل ہوئے ۔ اس کے ساتھ ساتھ اسی درسگاہ سے فن کتابت میں مہارت حاصل کی۔
درس و تدریس :
بعد فراغت آپ کے استاد محترم نے آپ کو اسی درسگاہ میں مدرس مقرر کیا۔ وہیں مادر علمی سے تدریس کا آغاز کیا۔ آپ نہایت ذکی محنتی اور فن تدریس کے قابل فخر اساتذہ میں سے ایک تھے ۔ تھوڑے عرصے میں آپ نے مثالی استاد کے حوالہ سے شہرت حاصل کر لی تو سندھ کی مرکزی او ر معیاری درسگاہ جامعہ راشدیہ، درگاہ شریف پیر جو گوٹھ کے مہتمم حضرت مولانا محمد صالح نے جامعہ راشدیہ کے لئے مولانا عبدالصمد کا انتخاب کیا اور مدرس مقرر کیا ، جہاں مولانا نے ۲۳ برس تدریسی خدمات سر انجام دے کر اپنا لو ہا منوایا۔ مولانا عبدالسمد جامعہ میں دوران تدریس چھٹیا ں منانے اپنے گھر نہیں جاتے بلکہ جامعہ میںرہ کر طلباء کو فن کتابت سکھاتے تھے۔ ا س کا نتیجہ یہ نکلا کہ آپ کے تلامذہ عمدہ خوش خط ہیں ۔ آپ کا طریقہ یہ تھا کہ اپنے منتہی طلباء پر ڈیوٹی عائد فرماتے کہ وہ مبتدی طلباء کو پڑھائیں ۔ اس کا مطلب مولانا ، قابل فخر اساتذہ کی کھیپ تیار کرنا چاہتے تھے جو ان کے بعد سندھ میں تدریس کا سلسلہ جاری رکھ سکیں ۔ میرے خیال میں مولانا اس پر خلوص کوشش میں یقینا کامیابی سے ہمکنا ر ہوئے ۔ ان کے تلامذہ آج بھی تدریس کے شغل میں مصروف عمل ہیں ۔
مولانا عبدالصمد صرف ونحو اور ترکیب کے فن میں ماہر تھے ، فارسی میں کافی دسترس رکھتے تھے اور علم میراث میں بھی کافی عبور تھا۔
جامعہ راشدیہ میں عرصہ دراز کی تدریس کے بعد ڈوکری کی جامع مسجد میں تدریس کے فرائض انجام دیئے ۔ اس کے بعد دوبارہ جامعہ راشدیہ تدریس کیلئے تشریف لے گئے اور انہی دنوں حج مبارک کی سعادت سے سرفراز ہوئے۔ ۱۳۸۰ھ ماہ شوال میں حضرت مولانا ہدایت اللہ کی دعوت پر جامعہ راشدیہ سے رخصت ہو کر مدرسہ حسینیہ تشریف لے گئے جہاں تقریباً چھ ماہ مسند تدریس پر رونق افروز رہے۔ اس کے بعد جامع ماجد سکرنڈ (ضلع نوابشاہ) میں ڈھائی سال ، مدرسہ عین العلوم امینائی شریف (ضلع دادو) میں تین سال، اور اس کے علاوہ لاڑکانہ شہر کے مدرسہ سید غلام مرتضیٰ شاہ جیلانی میں چار سال درس دیا۔ یعنی زندگی قال اللہ اور قال رسول ﷺ میں صر ف ہوئی، جہالت کی کالی رات میں علم کے دئے جلائے اور ہر چار سو روشنی پھیلائی۔
تلامذہ :
درج ذیل حضرات نے جامعہ راشدیہ اور دیگر اداروں میں آپ سے شر ف تلمیذ حاصل کیا۔
٭ مفتی محمد رحیم سکندری پیر جو گوٹھ
٭ مفتی در محمد سکندری سانگھڑ
٭ مفتی عبدالرحمن ٹھٹوی مہتمم مدرسہ مجدد یہ عثمانیہ ٹھٹہ
٭ مولانا ہدایت اللہ آریجوی مہتمم جامعہ حسینیہ رضویہ خیر محمد آریجہ ضلع لاڑ کانہ
٭ مولانا سید غلام مجتبی شاہ عرف مصری شاہ مدرس جامعہ راشد یہ
٭ مولانا محمدقاسم مصطفائی میر پور ماتھیلو
٭ مولانا بشیر احمد سکندری لیکچر ارپبلک اسکول حیدر آباد
٭ مولانا حافظ نو راحمد جیسر سکندری مہتمم مدرسہ صبغۃالعرفان احسان واہن تحصیل ڈوکری
٭ مولانا الہی بخش سکندری خطیب جامع مسجد بھلیڈنہ ضلع جیکب آباد
٭ مولانا قاری خدا بخش قاسمی خطیب جامع مسجد بہان سید آباد ضلع دادو
٭ مولانا حافظ محمد آدم مہر مہتمم مدرسہ حنفیہ صدیقیہ نور مسجد نزد سول ہسپتال ڈہر کی سندھ
٭ حافظ قاری ارباب علی عباسی نو شہرو فیروز
٭ مولانا حافظ عبدالخالق پیر زادہ جو ہی ضلع دادو
٭ مولانا عزیز الرحمن مرحوم سابق خطیب جامع مسجد حنفیہ شہباز روڈ بدین
٭ مولانا حافظ رب ڈنہ پھنور خطیب جیکب آباد
٭ استاد الحفاظ حافظ الہڈ نہ جنہ مرحوم مہتمم مدرسہ انوارالقرآن ڈوکری
بیعت :
مولانا عبدالصمد میتلو سلسلہ نقشبندیہ میں حضرت آغا عبداللہ جان سر ہندی مجددی ؒ سے دست بیعت ہوئے ۔
اولاد :
مولانا عبداللہ میتلو او ر ماسٹر عبدالمجید میتلو آپ کے لخت جگر ہیں ۔ اور اپنے والد کا سالانہ عرس نہایت عقیدت سے منعقد کر تے ہیں ۔
تصنیف و تالیف :
آپ کی تصانیف کے سلسلہ میں درج ذیل کتب کا علم ہو سکا ہے۔
٭ رہبر فارسی
٭ القول الانور فی بحثالنور والبشر (سندھی ) مطبوعہ غوثیہ کتب خانہ سانگھڑ
وصال:
حضرت مولانا عبدالصمد نے ۴، ربیع الاول ۱۳۹۳ھ بمطابق اپریل ۱۹۷۳ء کو دوپہر کے وقت ۵۱سال کی عمر میں سول ہسپتال لاڑکانہ میں حرکت قلب بند ہونے کی صورت میں انتقال کیا ۔ گوٹھ بڈوواہن میں نماز جنازہ ہوئی ، وہیں قبرستان میں آپ کی آخری آرامگاہ ہے ۔ جہاں ہر سال ۴، ربیع الاول شریف کو عرس منایا جاتا ہے۔
[محترم حافظ نور احمد صاحب جیسر کا مشکور ہوں جنہوں نے ۱۹۹۶ء میں اپنے استاد گرامی سے متعلق تفصیلی مواد فراہم کیا]
(انوارِ علماءِ اہلسنت سندھ)